جموں و کشمیر او آئی سی کے رکن ممالک کا مشترکہ کاز ہے، یقین ہے کہ اوآئی سی کانفرنس ٹھوس فیصلے کرے گی ،سیکرٹری خارجہ سائرس سجاد قاضی


یاؤنڈے:سیکرٹری خارجہ محمد سائرس سجاد قاضی نے کہا ہے کہ فلسطین اور بھارت کے غیر قانونی طور پر زیر قبضہ جموں و کشمیر میں ہمارے بھائی جابرانہ غیر ملکی قبضے ہیں اور ان کے بنیادی حق، حق خود ارادیت سے انکار کیا جارہا ہے، جموں و کشمیر او آئی سی کے رکن ممالک کا مشترکہ کاز ہے، جنوبی ایشیا میں پائیدار امن کو یقینی بنانے کے لیے تنازعہ کشمیر کا حل ضروری ہے

دفتر خارجہ کی طرف سے  بیان کے مطابق ان خیالات کا اظہار انہوں نے کیمرون کے شہر یائو نڈے میں منعقد ہونے والے او آئی سی کے وزرائے خارجہ کی کونسل کے 50 ویں اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ انہوں نے کہا کہ امت مسلمہ اپنی تاریخ کے ایک اہم دوراہے پر کھڑی ہے،فلسطین کے ساتھ ساتھ جموں و کشمیر میں ہمارے بھائی جابرانہ غیر ملکی قبضے ہیں اور ان کے بنیادی حق خود ارادیت سے انکار کیا جارہا ہے، مسلم دنیا سمیت دنیا بھر میں تصادم پھیل رہا ہے جو غربت، دہشت گرد اور انتہا پسند گروہوں اور بیرونی مداخلتوں کی وجہ سے ہوا ہے، بڑھتی ہوئی اسلامو فوبیا ہماری قوموں اور مسلمانوں کو ہر جگہ امتیازی سلوک، تشدد اور جارحیت کا نشانہ بنا رہی ہے۔

سیکریٹری خارجہ نے کہا کہ ہمارے چیلنجز کو طاقت کی بڑھتی ہوئی دشمنیوں، عالمی اقتصادی جمود، موسمیاتی تبدیلی کے اثرات کے ساتھ ساتھ بین الاقوامی یکجہتی اور عوم تعاون سے مزید پیچیدہ کیا جا رہا ہے۔انہوں نے کہا کہ ہمیں امت اسلامیہ کو درپیش ان متعدد چیلنجوں سے نمٹنے کے لیے اتحاد اور عزم کے ساتھ جواب دینا چاہیے۔ سیکرٹری خارجہ محمد سائرس سجاد قاضی نے کہا کہ مقدس الاقصی کی بے حرمتی او آئی سی کی تشکیل کا باعث بنی، اس تنظیم کا بیان فلسطینی عوام کے خلاف اسرائیل کی جاری وحشیانہ جارحیت اور اسلام کے مقدس ترین مقامات اور علامتوں کے خلاف ہونے والی رسوائیوں کا جواب دینے کے لیے پرعزم کارروائی کا حکم دیتا ہے، غزہ میں اسرائیل کی نسل کشی کی جنگ میں اب تک 40 ہزار سے زائد فلسطینی جن میں اکثریت خواتین اور بچوں کی ہے شہید اور تقریبا 20 لاکھ بے گھر ہوچکے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ گیمبیا میں 15ویں اسلامی سربراہی کانفرنس اور گزشتہ ماہ سعودی عرب میں او آئی سی کی ایگزیکٹو کمیٹی کے غیر معمولی اجلاس میں اسرائیل کی وحشیانہ اور جاری جارحیت کا جواب دینے کے لیے دور رس فیصلے کیے گئے ہیں، ہمیں اپنے قائدین کی طرف سے متفقہ اہداف اور مقاصد کے نفاذ کو محفوظ بنانے کے لیے ایک واضح اور جرات مندانہ منصوبہ تیار اور غزہ اور مغربی کنارے میں فوری اور غیر مشروط جنگ بندی کو یقینی بنانا چاہیے۔انہوں نے کہا کہ غزہ کے لیے غیر محدود انسانی امداد کو یقینی بنانا، اسرائیل کو اس کے مجرمانہ قتل و غارت اور ایران، لبنان اور دیگر ریاستوں کی خودمختاری اور علاقائی سالمیت کی خلاف ورزی کا ذمہ دار ٹھہراتے ہوئے، تنازعات کو پورے مشرق وسطی تک پھیلنے سے روکنا، فلسطین کو اقوام متحدہ کی مکمل رکن ریاست کے طور پر تسلیم کرنا اور 1967 سے پہلے کی سرحدوں پر مبنی ایک قابل عمل، محفوظ، متصل اور خودمختار ریاست فلسطین کا قیام جس کا دارالحکومت القدس الشریف ہو ضروری ہے۔

سیکرٹری خارجہ نے کہا کہ جموں و کشمیر بھی او آئی سی کے رکن ممالک کا مشترکہ کاز ہے، جنوبی ایشیا میں پائیدار امن کو یقینی بنانے کے لیے تنازعہ کشمیر کا حل ضروری ہے، بھارت سلامتی کونسل کی قراردادوں پر عمل درآمد کے اپنے وعدوں سے انحراف کررہا ہے جس میں جموں و کشمیر کے لوگوں کو علاقے کے حتمی فیصلے کا تعین کرنے کے قابل بنانے کے لیے استصواب رائے کی تجویز دی گئی ہے، 5 اگست 2019 کے بعد سے بھارت نے مقبوضہ جموں و کشمیر کو ضم کرنے کے لیے یکطرفہ اقدامات شروع کیے ہیں، بھارت کے غیر قانونی طور پر زیر قبضہ جموں و کشمیر دنیا کے سب سے زیادہ عسکری علاقوں میں سے ایک ہے جہاں بھارتی قابض افواج ماورائے عدالت قتل، اجتماعی سزائیں، کشمیری رہنماوں کی قید کے ساتھ ساتھ آبادیاتی تبدیلیوں سمیت انتہائی سخت اقدامات مسلط کرتی رہتی ہیں، بھارتی قبضے کے خلاف ان کی دلیرانہ مزاحمت غیر متزلزل ہے، وہ اپنے بنیادی حقوق بشمول حق خود ارادیت کا مطالبہ کرتے رہتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ تنازعہ کشمیر کو پرامن طریقے سے حل اور مذاکرات کے لیے سازگار حالات پیدا کرنے کے لیے بھارت کو 5 اگست 2019 سے کیے گئے یکطرفہ اقدامات کو واپس لینا چاہیے۔ سیکرٹری خارجہ نے کہا کہ پاکستان مقبوضہ کشمیر میں کسی بھی قسم کے مضحکہ خیز انتخابات کرانے کی تمام کوششوں کو بھی مسترد کرتا ہے، سلامتی کونسل نے یہ اصول واضح طور پر بیان کیا ہے کہ ریاست جموں و کشمیر کا حتمی فیصلہ عوام کی مرضی کے مطابق کیا جائے گا جس کا اظہار جمہوری طریقہ کار کے ذریعے اقوام متحدہ کے زیر اہتمام آزادانہ اور غیر جانبدارانہ رائے شماری میں کرایا جائے گا، بھارت کو اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کی پیشکش کو بھی قبول کرنا چاہیے۔انہوں نے کہا کہ جموں و کشمیر کی صورتحال علاقائی اور عالمی امن و سلامتی کے لیے ہمیشہ سے خطرہ ہے، یہاں تک کہ ایک معمولی واقعہ بھی وسیع تر تنازعہ کو جنم دے سکتا ہے جو خطرناک حد تک بڑھ سکتا ہے، عالمی برادری اس خطرے کو مزید نظر انداز کرنے کی متحمل نہیں ہوسکتی۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان او آئی سی کے تمام رکن ممالک کا کشمیری عوام کے حق خودارادیت کے حصول کے ساتھ ساتھ 5 اگست 2019 سے بھارت کے غیر قانونی قبضے اور یکطرفہ اقدامات کو مسترد کرنے کے لیے ان کی غیر متزلزل حمایت پر انتہائی مشکور ہے، ہمیں یقین ہے کہ یہ کانفرنس ٹھوس فیصلے کرے گی۔انہوں نے او آئی سی کی وزراکونسل کے 48 ویں اجلاس میں منظور کیے گئے جموں و کشمیر پر ایکشن پلان پر عمل درآمد کے ساتھ ساتھ بھارت اور عالمی برادری سے مطالبہ کیا کہ وہ مقبوضہ کشمیر میں بھارت کی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کو ختم کرے اور اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں اور کشمیری عوام کی خواہشات کے مطابق جموں و کشمیر تنازعہ کے پرامن حل کو فروغ دینے کے لیے اقدامات کرے۔

محمد سائرس سجاد قاضی نے کہا کہ اسلامو فوبیا ایک عالمی بحران کے طور پر ابھرا ہے جس کی وجہ قرآن پاک کی بے حرمتی، مساجد پر حملے اور مسلمانوں کے خلاف امتیازی سلوک اور تشدد کی کارروائیاں ہورہی ہیں۔انہوں نے کہا کہ ہم اپنے ہی پڑوس میں اسلامو فوبیا کے سب سے زیادہ خطرناک مظاہر کو دیکھ سکتے ہیں، بھارت کے 200 ملین مسلمانوں کے خلاف تشدد “ہندوتوا کے نظریے سے ہوا ہے، او آئی سی کے رکن ممالک نے اتحاد اور عزم کے ذریعے 15 مارچ کو اسلامو فوبیا سے نمٹنے کے عالمی دن کے طور پر منانے کے لیے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کی قرارداد کو حاصل کیا، اس سال، 15 مارچ کو جنرل اسمبلی نے او آئی سی کی ایک اور قرارداد منظور کی جسے پاکستان نے اسلامو فوبیا سے نمٹنے کے اقدامات سے متعلق پیش کیا تھا، اس میں اسلامو فوبیا سے نمٹنے کے لیے اقوام متحدہ کے خصوصی ایلچی کی تقرری کا مطالبہ کیا گیا ہے۔انہوں نے کہا کہ دہشت گردی کی لعنت نے ایک بار پھر سر اٹھا کر علاقائی اور عالمی امن و سلامتی کو خطرے میں ڈال دیا ہے، او آئی سی کے تمام ممالک اور خطے دہشت گردی کے خطرے کا مقابلہ کرتے ہیں، مسلمانوں کو نشانہ بنانے والے انتہائی دائیں بازو، فاشسٹ نظریات، ہندوتوا اور اسلامو فوبک گروہوں کا بھی سامنا ہے۔

سیکرٹری خارجہ نے کہا کہ پاکستان دہشت گردی کا سب سے بڑا شکار ہے، ہم نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں سب سے زیادہ کردار ادا کیا ہے، بدقسمتی سے ہمیں اپنی سرحدوں کے پار سے بیرونی طور پر مالی امداد، اسپانسر اور حمایت یافتہ دہشت گردی کا سامنا کرنا پڑتا ہے، او آئی سی کو دہشت گردی کی تمام شکلوں سے نمٹنے کے لیے اجتماعی طور پر کام کرنا چاہیے۔انہوں نے کہا کہ پاکستان افغانستان میں حالات کو جلد از جلد معمول پر لانے کا خواہاں ہے، بین الاقوامی برادری کو 25 ملین سے زیادہ بے سہارا افغانوں کو مستقل انسانی امداد فراہم کرنی چاہیے، ہمیں افغان معیشت اور بینکاری نظام کو بحال کرنے کے اقدامات بشمول ان کے منجمد قومی اثاثوں کی بحالی، منصوبہ بند انفراسٹرکچر اور کنیکٹیویٹی کے منصوبوں پر عمل درآمد اور بالآخر پابندیوں میں نرمی اور سفارتی شناخت کی بھی حمایت کرنی چاہیے، اس کے ساتھ ساتھ افغان عبوری حکومت کو عالمی برادری کے خدشات کا جواب دینا چاہیے، ٹی ٹی پی اور افغانستان میں مقیم دیگر دہشت گرد گروپوں کے خلاف افغان عبوری حکومت کی قابل اعتماد کارروائی افغانستان کو معمول پر لانے کے لیے جگہ پیدا کرے گی اور علاقائی تجارت اور رابطوں کی مکمل صلاحیت کو بروئے کار لانے کی ہماری کوششوں کی حمایت کرے گی۔انہوں نے کہا کہ پاکستان کی افریقہ کے ممالک کے ساتھ یکجہتی، دوستی اور تعاون کی ایک طویل اور قابل فخر تاریخ ہے، دہشت گردی کے انسداد کے لیے ہم ان کے ساتھ تعاون کریں گے، ہم اقوام متحدہ کے قیام امن اور افریقہ میں قیام امن میں اپنا اہم کردار جاری رکھیں گے۔ پاکستان اس بات پر یقین رکھتا ہے کہ او آئی سی افریقہ سمیت جدید امن قائم کرنے میں مضبوط کردار ادا کرسکتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ ہم عصری چیلنجوں سے موثر طریقے سے نمٹنے کے لیے اقوام متحدہ کے نظام کو بحال کرنے کی حمایت کرتے ہیں، بشمول ایک اصلاح شدہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل جیسا کہ او آئی سی کے حالیہ سربراہی اجلاس میں اعلان کیا گیا ہے۔انہوں نے کہا کہ توسیع شدہ سلامتی کونسل میں اسلامی امت کو کسی بھی زمرے میں مناسب نمائندگی حاصل ہونی چاہیے، آئندہ سربراہی اجلاس ہمارے دور کے اہم چیلنجوں سے نمٹنے کا موقع فراہم کرتا ہے، اقوام متحدہ کے بعد دنیا کی دوسری بڑی تنظیم کے طور پر او آئی سی کو اس اہم کوشش خاص طور پر عالمی اقتصادی بحالی اور پائیدار ترقی کے اہداف کو حاصل کرنے اور ماحولیاتی تبدیلی کے چیلنجوں سے نمٹنے کے لیے ترقی پذیر ممالک کی مدد کرنے میں فعال کردار ادا کرنا چاہیے۔سیکرٹری خارجہ محمد سائرس سجاد قاضی نے کہا کہ امت اسلامیہ کے مفادات کا فروغ پاکستان کی خارجہ پالیسی کا بنیادی ستون ہے، اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے رکن کی حیثیت سے پاکستان اگلے دو سالوں کے دوران عالم اسلام کے چیلنجز بشمول جموں و کشمیر، فلسطین اور مشرق وسطی، افغانستان، صومالیہ اور لیبیا سمیت دیگر مسائل سے نمٹنے کے لیے فعال طور پر کام کرے گا۔ انہوں نے کہا کہ ہم آپ کی حمایت اور تعاون کے منتظر ہیں کیونکہ پاکستان عالم اسلام کے مشترکہ چیلنجز اور مقاصد سے نمٹنے کی کوشش کر رہا ہے۔۔