اسلام آباد(صباح نیوز)چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا ہے کہ کیا وکیل کاکام کرناعدالت کی ذمہ داری ہے، فیصلے کوچھوڑدیں قانون پر چلیں، اگر انگوٹھے کانشان لیا توفارنزک کے لئے کیوں نہیں بھیجا، وکیلوں کو ختم کردیں عدالت خود ہی کیس چلالے۔ فیصلے پر آجائیں گے بنیادی قانون نہیں بتائیں گے، ، کم ازکم آپ کو اپنے کیس کے بنیادی فیکٹس توپتہ ہوناچاہیں۔ ٹرائل کورٹ اورفوجداری عدالت میں کھڑے ہوکرکہہ رہے ہیں کہ میرامعاہدہ ہوا ہے اور سپریم کورٹ میں کھڑے ہوکرکہہ رہے ہیں کہ معاہدہ نہیں ہوا،خودہی کیس تباہ کردیا اور اپنے پاؤن پر کلہاڑی ماری۔ ہمارا کام وکیل کے سوالوں کاجواب دینا نہیں بلکہ وکیل کاکام ہمارے سوالوں کاجواب دینا ہے۔10سال ہو گئے ہیں کیس چلاتے، تقریرکرنے مت آؤ، اِدھر میں انصاف کے لئے آیا ہوں۔ کیا پوراچترال آپ کا ہے، کتنی زمین آپ کی ہے بتادیں۔ اگر آفس اسسٹنٹ دفتر چلاتا ہے توپھر اسسٹنٹ کمشنر ریونیو مردان استعفیٰ دے دیں، اپنے عہدے کی کچھ عزت کریں۔جبکہ جسٹس نعیم اخترافغان نے ریمارکس دیئے ہیں کہ اگر جرمانہ لگنا شروع ہوجائے توبہت ساری درخواستیں نہیں لگیں گی۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں جسٹس نعیم اخترافغان پر مشتمل 2رکنی بینچ نے سوموار کے روز مختلف کیسز کی سماعت کی۔ بینچ نے جہانزیب اوردیگر کی جانب سے مرحوم شیر محمد کے لواحقین کے خلاف زمین کی ملکیت کے معاملہ پر دائر درخواست پر سماعت کی۔ درخواست گزار کی جانب سے عبدالمنعم خان بطور وکیل پیش ہوئے۔ چیف جسٹس کاوکیل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ تین عدالتوں سے آپ ہارے ہوئے ہیں، کیا ہم ساری بحث دوبارہ چلائیں جیسے سول کورٹ میں کیس پردلائل دے رہے ہیں۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ وکیل مفروضوں پر چل رہے ہیں، تین عدالتوں نے آپ کے خلاف فیصلہ دیا ہے ، اُس میں غلطی کیا ہے وہ بتادیں۔ عدالت نے درخواست ناقابل سماعت قراردیتے ہوئے خارج کردی۔
بینچ نے عامر حسین کی جانب سے صدیق حیات اوردیگر کے خلاف زمین کی ملکیت کے تنازعہ پر سماعت کی۔ درخواست گزار نے استدعا کہ کی انہیں وکیل کرنے کے لئے مہلت دی جائے ان کا پہلے وکیل وے رابطہ نہیں ہوسکا اور نہ ہی کیس کاریکارڈملا ہے۔اس پر چیف جسٹس کادرخواست گزارسے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ 10سال ہو گئے ہیں کیس چلائیں، آپ براہ راست چترال سے سپریم کورٹ آئے ہیں تواسی لئے ہم کہتے ہیں کہ کیس چل جائے، تین عدالتوں سے آپ ہارے ہیں۔چیف جسٹس کادرخواست گزارسے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ تقریرکرنے مت آؤ، اِدھر میں انصاف کے لئے آیا ہوں۔ چیف جسٹس کادرخواست گزارسے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ کیا پوراچترال آپ کا ہے، کتنی زمین آپ کی ہے بتادیں۔ درخواست گزار کاکہنا تھا کہ مجھے تاریخ دے دیں۔
چیف جسٹس نے حکم میں لکھوایا کہ درخواست گزار کے وکیل موجود نہیں، یاتونیا وکیل کریں یا آئندہ سماعت پر خود دلائل دیں۔ عدالت نے درخواست کو نیاوکیل کرنے کے لئے ایک ماہ کاوقت دے دیا۔ بینچ نے عبدلحکیم کی جانب سے کلیکٹر مردان کے توسط سے حکومت خیبرپختونخوا کے خلاف سرکاری مقصدکے لئے حاصل کی گئی زمین کا معاوضہ اداکرنے کے حوالہ سے دائر درخواست پر سماعت کی۔ دوران سماعت ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل خیبرپختونخوا شاہ فیصل الیاس اور متعلقہ محکمہ کے حکام پیش ہوئے۔ چیف جسٹس کاایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل کے پی سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ ادائیگی کرنی ہے یا کیس لڑنا ہے یہ توآپ کے خلاف کیس ہے۔ شاہ فیصل الیاس کاکہنا تھا کہ محکمے کے حکام نے بتایا ہے کہ انہوں نے ادائیگی کردی ہے اور درخواست گزار کاکہنا تھا کہ ہے کہ اس کااب کیس سے کچھ لینا دینا نہیں۔اس پر محکمے کے اسسٹنٹ کمشنر ریونیو اور اسسٹنٹ روسٹرم پر آگئے اور بتایا کہ ادائیگی نہیں ہوئی۔ اس دوران آفس اسسٹنٹ کی جانب سے بولنے پر چیف جسٹس نے اسسٹنٹ کمشنر ریونیو سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ آپ میں سے کون بڑاافسر ہے، کیا اسسٹنٹ نے بات کرنے سے پہلے ہم سے اجازت لی، اگر آفس اسسٹنٹ دفتر چلاتا ہے توپھر اسسٹنٹ کمشنر ریونیو مردان استعفیٰ دے دیں، اپنے عہدے کی کچھ عزت کریں۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ ادائیگی ہوئی ہے کہ نہیں۔ اس پر اسسٹنٹ کمشنر ریونیو مردان کاکہناتھا کہ کرنی ہے، پراسیس ہوجائے توکرنی ہے۔ اس پر چیف جسٹس کاکہناتھا کہ درخواست گزارکے وکیل خالد محمود کدھر ہیں ان کا پتا کریں۔ جب کیس کی دوبارہ سماعت شروع ہوئی توعدالت کو بتایا گیا کہ وکیل خالد محمود بیرون ملک ہیں۔
شاہ فیصل الیاس نے بتایا کہ ایوارڈ کے مطابق درخواست گزارکورقم کی ادائیگی کردی گئی ہے۔ عدالت نے دستاویزی ثبوت ریکارڈ پر لانے کے لئے شاہ فیصل الیاس کو ایک ماہ کاوقت دیتے ہوئے کیس کی مزید سماعت ملتوی کردی۔ بینچ نے خوشاب کی تحصیل جوہرآباد میں 60کنال زمین کی خریداری کے معاملہ پر سید آغا حسین شاہ کی جانب سے حاجی محمد وارث کے خلاف دائر درخواست پر سماعت کی۔ درخواست گزار کی جانب سے شوکت حیات بطور وکیل پیش ہوئے۔ وکیل کاکہناتھاکہ 26لاکھ 50ہزارروپے میں زمین کی فروخت کامعاہدہ ہوا۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ کیا وکیل کاکام کرناعدالت کی ذمہ داری ہے، فیصلے کوچھوڑدیں قانون پر چلیں، اگر انگوٹھے کاشان لیا توفارنزک کے لئے کیوں نہیں بھیجا، وکیلوں کو ختم کردیں عدالت خود ہی کیس چلالے۔ جسٹس نعیم اخترافغان کادرخواست گزار کے وکیل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہناتھا کہ تین فیصلے آپکے خلاف ہیں۔
چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ فیصلے پر آجائیں گے بنیادی قانون نہیں بتائیں گے،چیک کی تاریخ تھی، کم ازکم آپ کو اپنے کیس کے بنیادی فیکٹس توپناہوناچاہیں۔ وکیل کاکہناتھا کہ 15ستمبر2011کا حبیب بینک لمیٹڈ کا چیک ہے۔ چیف جسٹس کاوکیل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہناتھا یاتوکہیں کیس میں گواہ بنناچاہتا ہوں توپھر آکر گواہی دے دیں۔چیف جسٹس کاکہناتھا کہ چیزوں کی تشریح نہ کریں، تھوڑی بہت سمجھ ہمیں آتی ہے، ہم نے بھی وکالت کی ہوئی ہے۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ ٹرائل کورٹ اورکریمنل کورٹ میں کھڑے ہوکرکہہ رہے ہیں کہ میرامعاہدہ ہوا ہے اور سپریم کورٹ میں کھڑے ہوکرکہہ رہے ہیں کہ معاہدہ نہیں ہوا،خودہی کیس تباہ کردیا اور اپنے پاؤن پر کلہاڑی ماری۔چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ ہمارا کام وکیل کے سوالوں کاجواب دینا نہیں بلکہ وکیل کاکام ہمارے سوالوں کاجواب دینا ہے۔
چیف جسٹس کاوکیل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ آپ کووکالت کرنے سے روکا جاسکتا ہے، کچھ وکیل کی بھی ذمہ داری ہوتی ہے کہ نہیں، یا عدالت کو گمراہ کرے۔ جسٹس نعیم اخترافغان کاکہنا تھا کہ اگر جرمانہ لگنا شروع ہوجائے توبہت ساری درخواستیں نہیں لگیں گی۔ جسٹس نعیم اخترافغان کا وکیل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ کیس پڑھنے کے بعد کیا آپ نے اپنے مئوکل کو رائے دی کہ کیس سپریم کورٹ نہیں کرنا چاہیئے؟چیف جسٹس کاوکیل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ آپ نہیں سیکھیں گے اورآپ کو شرمندگی نہیں ہوگی، اپنے کیس کے خلاف دلائل نہ دیں۔ عدالت نے درخواست ناقابل سماعت قراردیتے ہوئے خار ج کردی۔