بھارت سے غداری کے الزام میں کشمیری صحافی فہد شاہ کا دس روزہ پولیس ریمانڈ منظور


سری نگر: جنوبی کشمیر کی ایک عدالت نے بھارت سے غداری ، بھارت کے خلاف جزبات بھڑکانے، اور بھارت مخالف سرگرمیوں کے الزام میں کشمیری صحافی فہد شاہ کو دس دن کے لیے پولیس کی تحویل میں دے دیاہے۔فہد شاہ کو گزشتہ روز پلوامہ چیف جوڈیشل مجسٹریٹ کی عدالت میں پیش کیا گیا ۔

کشمیر والہ کے ایڈیٹر فہد شاہ کے خلاف تعزیرات ہند کی دفعہ 124 اے(غداری)13( یو اے پی اے (غیر قانونی سرگرمیوں کی روک تھام قانون) اور 505 ( بھارت مخالف جزبات بھڑکانے کے ارادے کے الزام میں تین مقدمات درج ہیں۔ فہدشاہ کے وکیل عمیر رونگا نے کہا ہے کہ فہد شاہ کے خلاف مقدمات سے ہمیں آگاہ نہیں کیا جارہا ہم نے پلوامہ کے چیف جوڈیشل مجسٹریٹ کی عدالت سے فہد شاہ کے خلاف الزامات کے بارے میں بھی وضاحت طلب کی ہے۔

عدالت نے پولیس کو ہدایت کی ہے کہ وہ پیر تک اس بارے میں رپورٹ داخل کرے۔عمیر رونگا کے مطابق گرفتاری کی وجوہات جاننے کے بعد ہی ضمانت کی درخواست دیں گے۔دریں اثناجموں و کشمیر جرنلسٹس ایسوسی ایشن کے دو ارکان فہد شاہ کی عیادت کے لیے پلوامہ پولیس سٹیشن گئے۔

جموں و کشمیر جرنلسٹس ایسوسی ایشن نے کہا ہے کہ فہد شاہ پولیس اسٹیشن میں خیریت سے ہیں ۔ یاد رہے پلوامہ پولیس نے پلوامہ کے فوجی آپریشن کے بارے میں رپورٹنگ کرنے پرفہدشاہ کے خلاف مقدمہ درج کیا ہے۔

انسپکٹر جنرل آف پولیس وجے کمار نے کہا ہے کہ فہد شاہ گذشتہ 4 برسوں سے غلط خبریں پھیلا کر دہشت گردی کو فروغ دے رہا تھا جو امن و امان کے لیے خطرہ ہے۔وجے کمار کا مزید کہنا تھا کہ ملزم کے خلاف تین ایف آئی آر درج ہیں، ایک سرینگر میں (70/2020)، ایک شوپیان میں (06/2021) اور ایک پلوامہ میں۔ اسے پلوامہ ضلع میں ان کے خلاف ایف آئی آر (19/2022) میں گرفتار کیا گیا ہے۔

غیر ملکی اخبار کے مطابق مقبوضہ کشمیر میںں پریس کے خلاف جاری کریک ڈان میں تیزی آئی ہے۔حالیہ برسوں کے دوران افسروں کی جانب سے کشمیر والا نیوز پورٹل کے ایڈیٹر فہد شاہ سے ان کی رپورٹنگ پر کئی مرتبہ پوچھ گچھ کی گئی تھی۔ ادھر کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹس نے فہد شاہ کی رہائی کا مطالبہ کیا ہے کمیٹی نے خطے میں آزادی صحافت کا احترام کرنے کا بھی مطالبہ کیا ہے۔

واشنگٹن میں موجود واچ ڈاگ کے اسٹیون بٹلر نے کہا کہ فہد شاہ کی گرفتاری نے ‘آزادی صحافت اور صحافیوں کے آزادانہ اور محفوظ طریقے سے رپورٹنگ کرنے کے بنیادی حق کے بارے میں حکام کی سراسر نظر اندازی’ کا مظاہرہ کیا۔خیال رہے کہ سال 2019 میں بھارت کی جانب سے مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کیے جانے کے بعد سے خطے میں درجنوں صحافیوں کو پولیس باقاعدگی سے طلب کرتی اور ان کے کام کے حوالے سے پوچھ گچھ کرتی ہے۔صحافیوں کو ‘دہشت گردی سے متعلق’ الزامات میں ہراساں کرنے، گرفتاریوں، چھاپوں اور قانونی کارروائی کا نشانہ بنائے جانے میں اضافہ ہو رہا ہے۔

دریں اثناجموں و کشمیر کی سابق وزیر اعلی محبوبہ مفتی نے فہد شاہ کی گرفتاری پر مذمت کرتے ہوئے ٹویٹ میں سوال کیا ہے کہ کتنے فہد کو گرفتار کرو گے۔انہوں نے بتایا کہ حکومت کے خلاف کچھ بولنا بھی بھارت مخالف سرگرمیوں سے تعبیر کیا جا رہا ہے۔محبوبہ مفتی نے بتایا کہ فہد شاہ نے بطور صحافی جو کام کیا وہ زمینی حقائق پر مبنی ہے جو حکومت کو ناگوار گزرا اور اسی کا نتیجہ ہے کہ فہد شاہ کو حراست میں لیا گیا ۔