خفیہ ایجنسیوں کی ناکامی اور اطلاعات کو نظر انداز کرنے کا رجحان…(2) : تحریر افتخار گیلانی


صنفین کا دعوی ہے کہ 26/11 کا حملہ اس لحاظ سے الگ تھا کہ سی آئی اے، انڈیا کے انٹیلی جنس بیورو (IB)، ریسرچ اینڈ اینالائسز ونگ (RAW) اور یہاں تک کہ تاج انتظامیہ سمیت تقریبا ہر کوئی جانتا تھا کہ آفت آنے والی ہے۔ہریانہ کے مانیسر میں مقیم بلیک کیٹ کمانڈوز کے ذریعہ تیار کردہ فرانزک اکاؤنٹ کا حوالہ دیتے ہوئے مصنفین کا کہنا ہے کہ انہیں رات :05 10 بجے غیر سرکاری طور پر متحرک کیا گیا تھا۔ 26 نومبر کو، ممبئی میں پہلی گولیاں چلنے کے صرف 22 منٹ بعد۔لیکن 70 منٹ بعد، انہیں کابینہ سکرٹری کے ایم چندر شیکھر اور بعد میں ایک جوائنٹ سیکرٹری (داخلی سلامتی) نے بغیر احکامات کے متحرک ہونے کے خلاف خبردار کیا۔ صبح 34 :12بجے، اس وقت کے ہوم سکریٹری مدھوکر گپتا نے مہاراشٹر کے وزیر اعلی ولاس را دیشمکھ کی طرف سے باضابطہ درخواست موصول ہونے کے بعد این ایس جی کے سربراہ جیوتی دت کو اجازت دے دی۔تاہم دہلی کے ہوائی اڈے پر انہیں اطلاع ملی کہ ٹرانسپورٹ طیارہ چندی گڑھ میں 156 میل دور ہے۔لیکن 70 منٹ بعد، انہیں کابینہ سکریٹری کے ایم چندر شیکھر اور بعد میں ایک جوائنٹ سیکرٹری (داخلی سلامتی) نے بغیر احکامات کے متحرک ہونے کے خلاف خبردار کیا۔ صبح 34 : 12بجے، اس وقت کے ہوم سکریٹری مدھوکر گپتا نے مہاراشٹر کے وزیر اعلی ولاس را دیشمکھ کی طرف سے باضابطہ درخواست موصول ہونے کے بعد این ایس جی کے سربراہ جیوتی دت کو اجازت دے دی۔تاہم دہلی کے ہوائی اڈے پر انہیں اطلاع ملی کہ ٹرانسپورٹ طیارہ چندی گڑھ میں 156 میل دور ہے۔اس کے بعد NSG کے سربراہ جے کے دت نے RAW کو Ilyushin-76 طیارہ ادھار دینے کے لیے فون کیا، لیکن اس کا عملہ غائب تھا اور طیارے میں ایندھن نہیں تھا۔جب دت نے 1 بجے ہوم سیکرٹری کو فون کیا تو اس نے پایا کہ ہوم سکریٹری خود پاکستان میں پھنسے ہوئے ہیں اور انہیں صبح تک فلائٹ نہیں مل سکی۔آخر کار، 45 منٹ بعد، جب دت نے ہوائی پٹی کے لیے روانہ ہونے کی کوشش کی، تو ان سے وزارت داخلہ کے اہلکاروں کو لینے کی درخواست کی گئی۔ جب جہاز اگلے دن صبح30 : 5بجے ممبئی میں اترا تو وزارت داخلہ کے اہلکاروں کو لے جانے کے لیے بیکن لائٹ والے سفید ایمبسڈر گاڑیوں کے علاوہ کوئی ٹرانسپورٹ دستیاب نہیں تھی۔ جب تک این ایس جی نے چارج سنبھالا، دہشت گرد مکمل کنٹرول میں تھے اور ممبئی پولیس اور بحریہ کے کمانڈوز دونوں کو مثر طریقے سے دھچکا لگا چکے تھے۔اسی طرح، 14 فروری 2019 کو پلوامہ حملے کے بارے میں فرنٹ لائن کی طرف سے ایک سال تک جاری رہنے والی تحقیقات کے مطابق حملے کی پیشین گوئی کرنے والے کم از کم 11 انٹیلی جنس ان پٹس تھے۔ کشمیر کے گورنر، ستیہ پال ملک نے بعد میں انکشاف کیا کہ انہیں کسی بھی حفاظتی ناکامی کے بارے میں خاموش رہنے کی ہدایت کی گئی ہے۔بڑا سوال یہ ہے کہ مکمل انٹیلی جنس ہونے کے باوجود ایسے حملوں کو کیوں نہیں روکا گیا؟ کوئی واضح جوابات نہیں ہیں۔ اسی طرح مجھے یا دہے کہ شاید یکم اکتوبر 1996کی صبح سرینگر سے حریت لیڈر سید علی گیلانی کے دفتر سے فون آیا اور انہوں نے استدعا کی کہ کیا میں گیلانی صاحب کو ائیر پورٹ تک چھوڑ سکتا ہوں؟چند ماہ قبل ہی میری شادی ہوچکی تھی۔ وہ ان دنوں شاید علاج کی غرض سے دہلی میں تھے اور انہی دنوں جموں و کشمیر میں نو سال بعد اسمبلی کے انتخابات ہو رہے تھے، جن کی انہوں نے بائیکاٹ کی کال دی تھی۔ اگلے روز شاید حر یت کانفرنس کی کوئی میٹنگ ہونے والی تھی، جس کیلئے ان کو سرینگر بلایا گیا تھا۔ خیر میں نے ان کو ائیر پورٹ پر رخصت کردیا۔ جب وہ دہلی میں ہوتے تھے، تو دارالحکومت میں جموں و کشمیر کے سی آئی ڈی محکمہ کے اہلکار ان کے ساتھ سائے کی طرح رہتے تھے۔ ان سے اب جا ن پہچان بھی تھی۔ مگرا ئیر پورٹ پر ایک اور شخص میرے پاس آکر بار بار ان کی فلائٹ کا نمبر ، وقت وغیر ہ پوچھ رہا تھا۔ میں نے سی آئی ڈی والوں سے پوچھا کہ یہ شخص کس محکمہ کا ہے۔ معلوم ہوا کہ وہ ان کیلئے بھی اجنبی تھا۔ ابھی موبائل فون کا زمانہ نہیں تھا۔ رات کو میری اہلیہ کو پتہ چلا کہ گیلانی صاحب تو سرینگر پہنچے ہی نہیں ہیں، کیونکہ سرینگر میں اس دن فلائٹ لینڈ ہی نہیں ہوسکی۔ جہاز نے امرتسر میں لینڈ کیا ہے اور مسافروں کو کسی ہوٹل میں ٹھہرایا گیا ہے۔ اسی رات حیدر پور میں ان کے گھر پر دو راکٹ داغے گئے۔ نشانہ اتنا اچوک تھا کہ یہ راکٹ دوسری منزل پر ان کے بیڈ روم کی دیوار میں شگاف کرتے ہوئے، سیدھے بیڈ کو، اڑا کر باتھ روم کو تباہ کرتے ہوئے دوسری دیوار سے نکل گئے۔ یعنی اسی بیڈ کو ان راکٹوں نے نشانہ بنایا، جس پر ان کو اس رات سونا تھا۔ مگر دہلی والے اس نامعلوم شخص کو شاید پتہ نہیں چل سکا تھاکہ جہاز سرینگر کے بجائے امرتسر میں لینڈ ہو گیا ہے۔یہ اسی طرح کی کارروائی تھی، جس طرح تہران میں اسماعیل ہنیہ کے کمرے کو تباہ کرکے ہلاک کیا گیا ۔ یعنی کہ دیگر کمرو ں کو کوئی نقصان نہیں پہنچا تھا۔ اس دن حیدر پورہ کے مکان میں نیچے جو افراد سو رہے تھے، انہوں نے دھماکوں کی آوازیں سنی تو ضرور مگر ان کو بھی پتہ نہیں چل سکا کہ ان کی اوپری منزل کو ہی نشانہ بنایا گیا ہے۔ ان دنوں رات بھر کشمیر میں دھماکوں کی آوازیں آنا تو معمول کی بات تھی۔جب تصویروں میں اس بلڈنگ کو جس میں ہنیہ کو نشانہ بنایا گیا تھا، دیکھ رہا تھا، تو یہ واقعہ یاد آگیا۔ اسلئے نیویارک ٹائمس کی یہ کہانی کہ اس کمرے میں اسرائیلی خفیہ ایجنسیوں نے بم رکھا گیا تھا، مجھے ہضم نہیں ہوئی۔ بم تو پورے کمرے کو ہی اڑا دیتا۔ یہ میزائل یا راکٹ کا حملہ تھا، جوبالکل ٹارگٹ پر لگا۔ (ختم شد)

بشکریہ روزنامہ 92 نیوز