بنگالی بھائیوں کی تیسری آزادی (دوسری قسط) : تحریر ذوالفقار احمد چیمہ


آج سے سو سوا سو سال پہلے بنگال میں مسلمانوں کے حقوق کے لیے اٹھنے والی سب سے توانا آواز ڈھاکا کے نواب سلیم اللہ خان کی تھی جو مالی، سیاسی اور سماجی لحاظ سے بنگال کی سب سے بااثر شخصیت تھے۔ ہندوں کی نمایندہ سیاسی جماعت آل انڈیا کانگریس کے قیام کے بعد مسلمانوں کو اپنی علیحدہ سیاسی تنظیم کی ضرورت کا ادراک دن بہ دن بڑھ رہا تھا۔ بالآخر وقار الملک اور دوسرے مسلم زعما کی درخواست پر نواب سلیم اللہ خان نے پورے ہندوستان سے مسلم قائدین کو ڈھاکا مدعو کیا (جس میں دو ہزار زعما شریک ہوئے) اور 27 دسمبر سے لے کر 30 دسمبر 1906تک خود ان کی میزبانی کی اور آخری روز یعنی 30 دسمبر 1906 کو نواب سلیم اللہ خان کے مہمان خانے شاہ باغ ڈھاکا میں مسلم لیگ کا قیام عمل میں آیا۔

نواب سلیم اللہ خان کی کوششوں سے بنگال کی تقسیم ہوئی جس کے نتیجے میں ڈھاکا معاشی، تعلیمی اور سیاسی سرگرمیوں کا مرکز بن گیا اور مسلمانوں کے اقتصادی اور سماجی حالات بہتر ہوئے مگر ہندں نے تقسیم بنگال کی مخالفت میں ایڑی چوٹی کا زور لگادیا اور بالآخر 1911میں انگریز حکومت نے بنگال کی تقسیم منسوخ کردی۔ نواب سلیم اللہ کی کوششوں سے ہی ڈھاکا یونیورسٹی قائم ہوئی جس کے لیے انھوں نے خود 600 ایکڑ زمین دے دی۔ ڈھاکا یونیورسٹی کے علاوہ وہاں کی یونیورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی بھی انھی کا تحفہ ہے۔ انھی کا پوتا خواجہ ناظم الدین متحدہ پاکستان کا گورنر جنرل اور بعد میں وزیراعظم بھی بنا۔

لوگوں کی متفقہ رائے ہے کہ اگرکوئی شخص ڈھاکا کا Father of the city کہلانے کا مستحق ہے تو وہ نواب سلیم اللہ خان ہیں۔ پاکستانی سفارتخانے میں مہمانوں کے ساتھ مسلم لیگ کے قیام اور نواب سلیم اللہ کی خدمات کا ذکر ہورہا تھا تو ہمارے دوست ڈپٹی ہائی کمشنر محمد عارف نے ایک خوبرو نوجوان کا مجھ سے تعارف کراتے ہوئے کہا یہ خواجہ خیرالدین صاحب کے صاحبزادے ہیں۔ سابق مشرقی پاکستان میں حالات خراب ہونے کے بعد جو شخصیات عوامی لیگ کی مخالفت کی وجہ سے مغربی پاکستان میں رہ گئیں، ان میں جناب نورالامین (جو 1970 میں عوامی لیگ کے سیلاب کے باوجود اپنی نشست سے کامیاب ہوکر قومی اسمبلی کے ممبر بنے تھے) محمود علی صاحب اور خواجہ خیرالدین صاحب شامل تھے۔ خواجہ صاحب کا ایک بیٹا علقمہ جی سی لاہور میں ہمارا دوست تھا۔

اس حوالے سے ان کے بھائی سے فورا بے تکلفی ہوگئی۔ میں نے ان کے سامنے متحدہ پاکستان کی چند سیاسی شخصیات کے گھر جانے اور ان کے بیٹوں سے ملنے کی خواہش ظاہر کی تو انھوں نے فورا حامی بھر لی۔

متحدہ پاکستان میں آئین کے مطابق اگر ملک کا صدر مغربی پاکستان کا ہو تو اسپیکر مشرقی پاکستان سے اور سینئر ڈپٹی اسپیکر مغربی پاکستان سے ہوتا تھا۔ 1962 کی قومی اسمبلی (جو ارکان کے سیاسی قدکاٹھ اور کارروائی کے اعلی معیار کے لحاظ سے سب سے بہترین اسمبلی سمجھی جاتی ہے) میں مشرقی پاکستان کے مولوی تمیزالدین صاحب کو بلامقابلہ اسپیکر منتخب کیا گیا۔ سینئر ڈپٹی اسپیکر کے لیے ایوب خان کی کنونشن لیگ نے راجہ حسن اختر کو نامزد کیا جب کہ اپوزیشن (جس میں مشرقی پاکستان کے رہنما اور نوابزادہ نصراللہ خان وغیرہ شامل تھے) نے ہمارے ماموں جان چوہدری محمد افضل چیمہ کو نامزد کیا۔

چیمہ صاحب حکومتی امیدوار کو ایک ووٹ سے ہراکر سینئر ڈپٹی اسپیکر منتخب ہوگئے۔ مولوی تمیزالدین صاحب کی طویل علالت کے باعث 1962کی اسمبلی کی صدارت اور نظامت چیمہ صاحب ہی کے ذمے رہی، جن کے مشرقی پاکستان (بنگلہ دیش) کے تمام ممبران کے ساتھ بہت اچھے سماجی تعلقات تھے اور اہلِ خانہ کا ایک دوسرے کے ہاں آنا جانا تھا۔ مولوی تمیزالدین صاحب کی وفات کے بعد مشرقی پاکستان سے ہی فضل القادر چوہدری اسپیکر منتخب ہوئے۔ چوہدری صاحب پکے اور سچے پاکستانی تھے۔

وہ آخر دم تک اسی پاکستان کی پاسبانی کرتے رہے جو انھوں نے محمد علی جناح کی رہنمائی میں حاصل کیا تھا۔ عوامی لیگ نے اس بہادر رہنما کو گرفتار کرکے جیل میں بند کردیا، ایک روز بحث کے دوران جب بھارت کے حامی جیلر کے منہ سے جناح صاحب کے لیے توہین آمیز الفاظ نکلے تو اسی منہ پر فضل القادر چوہدری کا زوردار تھپڑ پڑا۔ جیل میں عوامی لیگ کے غنڈوں نے بے پناہ تشدد کرکے اس بہادر اور بااصول لیڈر کو شہید کردیا جہاں سے ان کی میت پاکستان کے پرچم میں لپٹی ہوئی باہر نکلی۔

فضل القادر چوہدری شہید کے بیٹے صلاح الدین چوہدری چٹاگانگ سے پارلیمنٹ کے ممبر منتخب ہوئے تھے، خوش مزاج اور زندہ دل صلاح الدین چوہدری کو جب معلوم ہوا کہ ملاقاتی افضل چیمہ صاحب کا سگا بھانجا ہے تو وہ بے پناہ محبت اور گرمجوشی کے ساتھ ملے اور چیمہ صاحب کی صحت اور فیملی کے بارے میں پوچھتے رہے۔ پھر کہنے لگے نہ جانے حسینہ واجد میرے ساتھ کیسا سلوک کرے مگر میں جب بھی پاکستان آیا تو انکل چیمہ اور آپ سے ضرور ملوں گا وہ پاکستان نہ آسکے کیونکہ پچاس سال پہلے اپنے ملک کا ساتھ دینے پر حسینہ نے جن رہنماں کو پھانسی دے دی، ان میں صلاح الدین چوہدری بھی شامل تھے۔ عظیم باپ کا بہادر بیٹا پھانسی پر جھو ل گیا مگر اپنے نظرئیے پر ثابت قدم رہا۔

14 اور 15 اگست کی رات کو ہم مولوی تمیزالدین صاحب کے صاحبزادے سے ملنے کے بعد نورالامین صاحب کے صاحبزادے کے گھر پہنچے۔ کچھ باتیں ہوچکیں تو بھرائی ہوئی آواز میں کہنے لگے آج پاکستان کی سالگرہ ہے، آپ کو مبارک ہو۔ کبھی یہ دن ہم بڑی دھوم دھام سے منایا کرتے تھے اور پھر وہ فقرہ مکمل نہ کرسکے اور ان کے جذبات کا سیلاب ان کی آنکھوں سے بہہ نکلا۔ مجھے ابھی تک یاد ہے کہ وہ اتنے درد سے روئے تھے کہ کمرے میں موجود سب کی آنکھیں نمناک ہوگئیں۔ وہ روتے جاتے اور بولتے بھی جاتے تھے کہ سگے بھائیوں میں بھی ناراضگی ہوجاتی ہے، علیحدگی بھی ہوجاتی ہے۔

فاصلے بہت تھے ۔شاید علیحدگی ہی مقدر تھا، مگر ایسے تو نہ ہوتی، صلح صفائی کے ساتھ ہوتی۔ اللہ کرے پاکستان کے حکمران اب ہی سبق سیکھ جائیں۔ ان کی آنکھوں سے بہنے والے پانی کی چمک سے میری سوچوں اور الجھنوں کے تاریک گوشے روشن ہوگئے۔ ستر کی دھائی میں فضل القادر چوہدری، پروفیسر غلام اعظم اور مولوی فرید احمد جیسے بہادر لیڈر اندرا اور شیخ مجیب کے جبر کے سامنے سینہ سپر رہے اور اب 2024 میں انھی عظیم رہنماں کے بہادر بیٹوں نے ناہید اسلام اور آصف محمود کی قیادت میں حسینہ واجد کی رعونت اور تکبر کو خاک میں ملا کر اس کے جبر اور ظلم کو سرحد کے پار پھینک دیا ہے۔

سوال یہ ہے کہ 1971میں بھارت کی وزیراعظم نے دو قومی نظرئیے کو ہی ہدف کیوں بنایا؟ وہ یہ بھی کہہ سکتی تھی کہ ہم نے 1965کی جنگ کا بدلہ لے لیا ہے یا ہم نے صدیوں بعد مسلمانوں کو اتنی بڑی شکست دی۔ دو قومی نظرئیے کے خاتمے کا دعوی کیوں؟ اس لیے کہ یہی تو جواز تھا علیحدہ وطن کا۔ یہی تو بنیاد ہے پاکستان کی! برصغیر کے مسلمان محمد علی جناح کی قیادت میں اسی نظرئیے کا پرچم اٹھا کر نکلے اور ایک تاریخ ساز تحریک کے بعد علیحدہ وطن حاصل کیا۔ دو قومی نظریہ دریا میں بہادینے کا مطلب ہے او پاکستان والو! اب تمہارے ملک کا جواز ختم ہوگیا ہے، ایک حصہ ہم نے فتح کرلیا ہے، دوسرے حصے کی چابیاں بھی اب ہمارے حوالے کردو۔ Two Nation Theory کو خلیج بنگال میں بہا دینے کا دعوی کرنے والے بھارتی لیڈروں کو جان لینا چاہیے کہ دو قومی نظریہ، دشمن کے سامنے سرنڈر کرنے والے کسی عیاش اور بزدل جرنیل کا پستول نہیں جسے دریا میں بہا دیا جائے۔

یہ وہ نعرہ حق ہے جو 1930میں پانچ سو سالہ اسلامی تاریخ کے سب سے بڑے فلسفی شاعر ڈاکٹر محمد اقبال نے الہ آباد میں بلند کیا اور 1940میں جس کا اعلان پورے ہندوستان کے مسلم رہنماں نے اکٹھے مل کر لاہور کے منٹو پارک میں کیا۔ یہ وہ سچائی ہے جسے شیرِ بنگال اے کے فضل الحق نے قرارداد کے ذریعے پیش کیا اور جس کی وضاحت مسلمانوں کے متفقہ قائد محمد علی جناح نے کی کہ ہندوستانی قوم نام کی کوئی چیز نہیں، یہاں ہندو اور مسلمان دو مختلف قومیں ہیں۔ ہماری تہذیب، ہمارا کلچر، ہمارا نظریہ حیات، ہمارا رہن سہن، ہمارے ہیرو، ہمارے ولن، ہمارے سوچنے کا انداز اور ہمارے کھانے کے آداب سب ہندوں سے مختلف ہیں۔ ہم مسلمان ایک علیحدہ قوم ہیں اس لیے ہمیں اپنے حقوق کے تحفظ کے لیے علیحدہ وطن چاہیے۔ یہ آواز کسی انتہا پسند یا کسی نیم خواندہ مولوی کی نہیں روشن خیال بیرسٹر محمد علی جناح کی تھی۔

یہ نظریہ اتنا اٹل اور سچا ہے کہ آج کانگریس اور نہرو کے ساتھی شیخ عبداللہ کی اولاد بھی اعتراف کررہی ہے کہ ہمارے بزرگوں کا موقف غلط، اور جناح صاحب کا نظریہ درست تھا۔ ہندوستان سے ہر روز اس نظرئیے کی صداقت کی تصدیق ہوتی ہے۔ ہندوستان اور کشمیر میں بے گناہ مسلمانوں کا بہنے والا خون ، ہر روز جلائے جانے والے مکانوں کا دھواں اور ان کی شہید کی جانے والی مسجدوں کے گرے ہوئے میناروں سے ہر روز ایک ہی آواز بلند ہوتی ہے کہ نہرو اور ابوالکلام کا ہندوستان میں ایک ہی قوم ہے کا نعرہ باطل تھا ۔یہ سب سے بڑا جھوٹ اور فراڈ تھا۔ ہندوستان میں ہندو حاکم ہیں جو مسلمانوں کو غلام سمجھتے ہیں۔وہاں مسلمانوں کے ساتھ جانوروں سے بدتر سلوک کیا جاتا ہے۔دو قومی نظریہ سب سے بڑی حقیقت ہے جو سورج کی روشنی کی طرح برحق اور لہلہاتے پھولوں کی طرح تروتازہ ہے۔

(جاری ہے)

بشکریہ روزنامہ ایکسپریس