سی ایس ایس افسران کی سنیارٹی لسٹ درست نہ ہو تواپنے گھر کو ٹھیک کرنے کی ضرورت ہے۔ جسٹس سید منصورعلی شاہ

اسلام آباد(صباح نیوز)سپریم کورٹ آف پاکستان کے سینئرترین جج جسٹس سید منصورعلی شاہ نے کہا ہے کہ اگر سی ایس ایس افسران کی سنیارٹی لسٹ درست نہیں بنی ہوئی توکیوں نہ اس حوالہ سے ہم گھر کو ٹھیک کریں ، یہ تونہیں ہوسکتا کہ ایک غلط چیز چل رہی ہوتوہم اس کو چلنے دیں۔ یہ زندہ مسئلہ ہے جب تک لوگ ریٹائرڈ نہیں ہو ں گے اس وقت تک یہ معاملہ چلتا رہے گا۔ ایک افسر کی جانب سے بار بار عدالت میں  ہاتھ کھڑا کرنے پر  جج کا اظہار برہمی یہ کوئی کلاس روم نہیں، وکیل کھڑے ہیں جو بتانا ہے ان کو بتادیں۔سی ایس ایس افسران کی سنیارٹی لسٹ کے  معاملہ کو  حل کرنے کے لئے سپریم کورٹ کے 3رکنی بینچ کے سامنے لگانے کی ہدایت۔ کیس کی سماعت سپریم کورٹ کی موسم گرما کی تعطیلات کے بعد تک ملتوی،بجلی کے بلوں میں فیول پرائس ایڈجسٹمنٹ اور سہ ماہی ٹیرف ایڈجسٹمنٹ کے نفاذ کے معاملہ پر درخواستوں پر سماعت بھی آئندہ سوموار تک ملتوی کردی گئی ۔

سپریم کورٹ کے سینئر ترین جج جسٹس سید منصورعلی شاہ کی سربراہی میں جسٹس اطہر من اللہ پر مشتمل 2رکنی بینچ نے منگل کو  سپریم کورٹ کے کمرہ عدالت نمبر1میں کیسز کی سماعت کی۔  ڈاکٹر صحت اللہ ، ڈاکٹر محمد آصف اوردیگر کی جانب سے وائس چانسلر ، مالاکنڈ یونیورسٹی اوردیگر کے خلاف جبکہ وائس چانسلر مالاکنڈ یونیورسٹی اوردیگرکی جانب سے ڈاکٹرصفت اللہ خان ، ڈاکٹر شفیق الرحمان، ڈاکٹر شکیل ارشد ، محمد جنید اوردیگر کے خلاف مکمل تنخواہ کے ساتھ تعلیمی چھٹی کے معاملہ پر دائر 6درخواستوں پر سماعت کی گئی ۔ دوران سماعت التواء کی درخواست دائر کی گئی۔

جسٹس سید منصورعلی شاہ کا یونیورسٹی کے نمائندے سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ آپ کے وکیل کدھر ہیں، ان کو بلائیں، ہم یہ کیس خارج کردیتے ہیں، آپ کیوں آگئے وکیل صاحب کدھر ہیں، ادارے کے وکیل کوآنا چاہیئے تھا۔ عدالت نے کیس کی سماعت موسم گرما کی چھٹیوں کے بعد تک ملتوی کردی۔ بینچ نے ایم ایس فلائنگ بورڈاینڈ پیپر پروڈکٹس لمیٹڈ، لاہور، ایم ایس اے آر انجینئرنگ لاہور ، اہم ایس عادل اسٹیل فرنس گوجرانوالہ، انصاف انجینئرنگ ورکس لاہور، کامران انجینئرنگ ورکس لاہوراوردیگر کی جانب سے وفاق پاکستان ، وزارت انرجی (پاورڈویژن)، پاک سیکرٹریٹ ، اسلام آباداوردیگر کے خلاف بجلی کے بلوں میں فیول پرائس ایڈجسٹمنٹ اور سہ ماہی ٹیرف ایڈجسٹمنٹ کے نفاذ کے معاملہ پردائر 6درخواستوں پر سماعت کی۔ دوران سماعت درخواست گزاروں کی جانب سے سابق صدر سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن چوہدری محمد احسن بھون بطو روکیل پیش ہوئے جبکہ وزارت توانائی کی جانب سے محمد افتخار الدین ریاض بطور وکیل پیش ہوئے۔ احسن بھون کاکہنا تھا کہ یہ 6درخواستیں ہیں۔

جسٹس اطہر من اللہ کا احسن بھون سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ آپ کاایک ہی سوال ہے کہ ترمیم کے بعد نیپرا کانیا نوٹس جاری ہونا چاہیئے، ہم نے کیس ریمانڈکر کے نوٹیفیکیشن کو نہیں چھیڑاتھا۔ احسن بھون کاکہنا تھا کہ جناب نے فرمایا تھا کہ نوٹیفیکیشن اور تعین کامعاملہ ایپلٹ ٹربیونل میں چیلنج کریں۔ جسٹس اطہر من اللہ کاکہنا تھا کہ یہ بتائیں اِس عدالت نے کدھر کیس ریمانڈ کیا تھا۔ احسن بھون کاکہنا تھا کہ ایپلٹ ٹربیونل کو کیس ریمانڈ کیا تھا۔ جسٹس اطہر من اللہ کاکہنا تھا کہ نیپرااورایپلٹ ٹربیونل نے فیصلہ کیا۔جسٹس اطہر من اللہ کاکہنا تھا کہ اگرسپریم کورٹ نے نوٹیفیکیشن برقراررکھا ہے توہم اس فیصلے پر نظرثانی نہیں کرسکتے۔ احسن بھون کاکہنا تھا کہ ہرماہ نیا نوٹیفیکیشن آتا ہے اورصارف ادائیگی کرتا ہے۔ جسٹس اطہر من اللہ کا احسن بھون سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ آپ کوبقایاجات کاکوئی نوٹس آیا ہے۔ اس پر احسن بھون کاکہنا تھا کہ ہمیں بل آیا ہے، ہرمہینے بل آتا ہے اس کانیپرانوٹیفیکیشن جاری کرتا ہے۔ جسٹس اطہر من اللہ کاکہنا تھا کہ مستقبل میں جوبھی نوٹیفیکیشن فیلڈ میں ہو گا وہ اپلائی کرے گا، نیا نوٹیفیکیشن ہمارے سامنے چیلنج نہیں کیا گیا، مستقل کے لئے جو نوٹیفیکیشن ان فیلڈ ہوگا اس کے مطابق ادائیگی ہوگی۔ جسٹس اطہر من اللہ کاکہنا تھا کہ بقایا جات کے حوالہ سے ہم نے نوٹیفیکیشن معطل کردیا تھا۔ جسٹس سید منصورعلی شاہ کاکہنا تھا کہ ہم نوٹس کرکے اگر چیف جسٹس کی سربراہی میں بینچ دستیاب ہوتوآئندہ ہفتے اس کے سامنے لگادیتے ہیں۔ جسٹس اطہر من اللہ کاکہنا تھا کہ کب کے بقایاجات ہیں اس حوالہ سے ہائی کورٹ میں سوال ہی نہیں اٹھایا گیا۔ اس دوران وزارت انرجی کے وکیل محمد افتخار الدین ریاض کا کہنا تھا کہ ہائی کورٹ اورٹربیونل کے فیصلے فیلڈ میں ہیں اوریہ لوگ بل ادانہیں کررہے۔

جسٹس سید منصورعلی شاہ کا احسن بھون سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ اگر بل نہیں لگایا توپھر کس چیز کاحکم امتناع مانگ رہے ہیں۔ جسٹس سید منصورعلی شاہ کاکہنا تھا کہ جس بینچ نے 16اکتوبر2023کو کیس سنا تھااس کے سامنے کیس ترجیحاً لگایا جائے۔ دوران سماعت عدالت نے وزارت توانائی، لیسکو اوردیگر فریقین کو نوٹس جاری کردیا جوفریقین کی جانب سے موصول کرلیا گیا۔ جسٹس سید منصور علی شاہ کاکہنا تھا کہ ہمیں پتا نہیں کون سابل ہے ، کون سی جگہ ہے، کس چیز پر حکم امتناع جاری کریں۔احسن بھون کاکہنا تھا کہ ہماراکنیکشن کاٹ دیں گے اور فیکٹری بند کردیں گے۔ اس پر جسٹس منصور علی شاہ کا کہنا تھا کہ ہم آئندہ سوموارتک سماعت ملتوی کررہے ہیں اتنے تھوڑے دنوں میں یہ کچھ نہیں کریں گے۔بینچ نے سی ایس ایس افسران کی سنیارٹی کے معاملہ پر فیڈرل سروسز ٹربیونل کے فیصلے کے خلاف آڈیٹر جنرل آف پاکستان، اسلام آباد ، شہزادعزیز خان اوردیگر کی جانب سے رانا عبیداللہ خان، محمد عمارعلی خان، عمران علی نور، بقئی بن حنیف، ہاشم رضا، محمد سعید اللہ خان نیازی، سمیع اللہ خان انورخان، محمد اسلم چوہدری، علی جان آفریدی، آصف حمید، محمد سعید ٹوانہ، وسیم ارشد، رانا عبیداللہ انور اوردیگر کے خلاف دائر 28درخواستوں پر سماعت کی۔درخواست گزاروں اور مدعا علیحان کی جانب سے ایڈیشنل اٹارنی جنرل ملک جاوید اقبال وینس، بیرسٹرمحمد ظفراللہ خان، افنان کریم کنڈی، عثمان اکرم ساہی، تنویرالاسلام اوردیگر بطور وکیل پیش ہوئے۔ جسٹس سید منصورعلی شاہ کاکہنا تھا کہ پہلے کلیئر کریں کہ سنیارٹی کاتعین کیسے ہوتا ہے۔

اس پر ملک جاوید اقبال وینس کاکہنا تھا کہ 1990کے رولز کے تحت سنیارٹی کاتعین ہوتا ہے۔ جسٹس اطہر من اللہ کاکہنا تھا کہ ابتدائی تربیت کی مدت کے خاتمہ پر سنیارٹی بنے گی۔ جسٹس اطہر من اللہ کاکہنا تھا کہ یہ معاملہ ختم ہوچکاہے، آپ جب یہ سنیارٹی تبدیل کریں گے توجولوگ گریڈ17سے18،19اور20میں جاچکے ہیں وہ سنیارٹی کی بنیاد پر گئے ان کوکیسے ختم کریں گے۔ جسٹس سید منصورعلی شاہ کاکہنا تھا کہ 2018کی سنیارٹی کافارمولا کیا ہے۔ جسٹس اطہر من اللہ کاکہنا تھا کہ گریڈ19تک ترقیاںہوئی ہیں۔ جسٹس سید منصورعلی شاہ کاکہنا تھا کہ گریڈ17میں تعینات کردیا ، گریڈ18میں کیسے ترقی دی۔ وکیل کی جانب سے بتایا گیا جن افسران کا کیس ہے انہوں نے 2005میں سی ایس ایس کاامتحان پاس کیا تھا۔

جسٹس سید منصورعلی شاہ کاکہنا تھا کہ 2008میں پہلی بار سنیارٹی لسٹ تیارہوئی۔ اس دوران ایک درخواست گزار کی جانب سے روسٹرم پر بار بار ہاتھ کھڑا کرنے پر جسٹس منصورعلی شاہ نے انہیں مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ہاتھ کھڑانہ کریں جب آپ سے کوئی بات پوچھنی ہوئی توپوچھ لیں گے۔ وکیل کاکہنا تھا کہ درخواست گزار 2018میں گریڈ18میں آگئے۔ وکیل کاکہنا تھا کہ 2011میں رولز کے مطابق سنیارٹی لسٹ بنی۔ جسٹس سید منصورعلی شاہ کاکہنا تھا کہ 2022کی درست لسٹ ہے، اگر کوئی غلطی ہے توہ وہ غلطی ہی رہے گی۔ جسٹس سید منصورعلی شاہ کاکہنا تھا کہ جب گریڈ17میںبھرتی ہوئے ہوں گے تواس کے بعد ٹیسٹ آگئے ہوں گے اور کہانی شروع ہوگئی۔ سید منصورعلی شاہ نے وکیل افنان کریم کنڈی سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ سنیارٹی لسٹ کیسے بننی چاہیئے۔ جسٹس سید منصورعلی شاہ کا بیرسٹر ظفراللہ خان سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ بیرسٹر صاحب تو بڑی کتابیں لکھتے ہیں میں نے کہا کسی اورکتا ب میں بھی رول کاذکر نہ آیا ہو۔ جسٹس سید منصورعلی شاہ کاکہنا تھا کہ سی ایس ایس افسران کی پہلی سنیارٹی لسٹ پروبیشن پیریڈ ختم ہونے کے بعد بنی ہے۔ بیرسٹر ظفراللہ خان کاکہنا تھا کہ پانچ مرتبہ سنیارٹی بنی ہے اور پانچ مرتبہ تبدیل ہوئی ہے۔

جسٹس سید منصورعلی شاہ کاکہنا تھا کہ اگران کیسز میں سپریم کورٹ نے مختلف نقطہ نظراپنایا ہوتوبتائیں۔ افنان کریم کنڈی کاکہنا تھا کہ گریڈ20میں بھی لوگ تعینات ہوچکے ہیں، 2011میں سارامسئلہ شروع ہوا۔ جسٹس سید منصورعلی شاہ کاکہنا تھا ہ فیڈرل سروسز ٹربیونل کے فیصلہ میں ترقی کاکیا اصول طے ہوا ہے۔ جسٹس اطہر من اللہ کا بیرسٹر ظفراللہ سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ کیاآپ نے پروموشن کے حوالہ سے رولز لگائے ہیں، گریڈ18تک نان سلیکشن پوسٹ اورگریڈ18کے بعد سلیکشن پوسٹیں ہیں۔ جسٹس اطہر من اللہ کاکہنا تھا کہ جب گریڈ18میں ترقیاں ہورہی تھیں اُس وقت چیلنج کرتے ، گریڈ18کے بعد ترقیاں مختلف قانون کے تحت ہوں گی۔ جسٹس سید منصورعلی شاہ کاکہنا تھا کہ کیا ہمارے سامنے سارے لوگ گریڈ18،19اور20کے ہیں۔اس پر افنان کریم کنڈی کاکہنا تھا کہ زیادہ ترلوگ گریڈ19اور20کے ہیں۔ جسٹس اطہر من اللہ کاکہنا تھا کہ جب پہلے گریڈ میں ترقی ہوتی ہے تونیا اسٹیٹس بن جاتا ہے جس کو چیلنج نہیں کیا گیا۔ اس دوران ایک درخواست گزار کی جانب سے دوبارہ ہاتھ کھڑ ا کرنے پر جسٹس سید منصورعلی شاہ نے انہیں مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ یہ کلاس روم نہیں ہے کہ آپ باربار ہاتھ کھڑاکررہے ہیں، آپ کے وکیل کھڑے ہیں جوبتانا ہے ان کو بتادیں۔

جسٹس سید منصورعلی شاہ کاکہنا تھا کہ یہ زندہ مسئلہ ہے جب تک لوگ ریٹائرڈ نہیں ہو ں گے اس وقت تک یہ معاملہ چلتا رہے گا۔ جسٹس سید منصورعلی شاہ کاکہنا تھا کہ کیوں نہ ہم ہائوس کو ان آرڈر کریں، یہ تونہیں ہوسکتا کہ ایک غلط چیز چل رہی ہوتوہم اس کو چلنے دیں۔ جسٹس اطہر من اللہ کاکہنا تھا کہ سپریم کورٹ کا فیصلہ دیگر سروسز پر بھی لاگو ہوگا، یہ مقدمہ بازی کانیافلڈگیٹ کھول دے گا۔افنان کریم کنڈی کا کہنا تھا کہ گریڈ18،19اور20کے افسران ایف ایس ٹی گئے، میں صرف 15درخواست گزاروں کی نمائندگی کررہا ہوں۔ جسٹس اطہر من اللہ کاکہنا تھا کہ1990کے پروبیشن رولز صرف پروبیشن پیریڈ پر لاگوہوتے ہیں۔ جسٹس سید منصورعلی شاہ کاکہنا تھا کہ یہ پیچیدہ کیس ہے، سپریم کورٹ کا 3جولائی 2020کا فیصلہ درست ہے، سپریم کورٹ نے کہا کہ 2008والی انڈکشن والی سنیارٹی لسٹ درست ہے۔ جسٹس سید منصورعلی شاہ کاکہنا تھا کہ یہ کیس مزید متوجہ کامتقاضی ہے اس لئے اسے 3رکنی بینچ کے سامنے سماعت کے لئے مقررکیا جائے۔ عدالت نے کیس کی مزید سماعت سپریم کورٹ کی موسم گرما کی تعطیلات کے بعد تک ملتوی کردی۔