آزاد کشمیر کی پانچ سرکاری جامعات کے وائس چانسلرز کا اجلاس،یونیورسٹیوں کی مالی مشکلات پر تشویش


اسلام آباد(صباح نیوز)آزادجموں وکشمیر کے سرکاری شعبہ میں قائم جامعات کے پانچوں وائس چانسلرز کی ایک ہنگامی میٹنگ اسلام آباد میں منعقد ہوئی جس میں یونیورسٹیز کے جملہ اساتذہ اورملازمین کی تنخواؤں اور پنشنرز کی پنشن کی ادائیگی سے متعلق معاملات اور جامعات کو درپیش سنگین مالی بحران کو زیر بحث لایا گیا۔جامعات کے وائس چانسلرز نے میٹنگ کے بعد صدر ریاستچانسلر جامعات کو اپنے خدشات اور مالی بحران سمیت اس کے متوقع نتائج سے مطابقاً آگاہ کردیا۔ہنگامی طور پر طلب کیے گئے اس اہم اجلاس میں وائس چانسلر یونیورسٹی آف آزادجموں وکشمیر مظفرآباد پروفیسر ڈاکٹر محمد کلیم عباسی،وائس چانسلر میرپوریونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی (مسٹ)بریگیڈئیر (ر)پروفیسر ڈاکٹر محمد یونس جاوید،وائس چانسلر وویمن یونیورسٹی باغ پروفیسر ڈاکٹر عبدالحمید،وائس چانسلر یونیورسٹی آف پونچھ پروفیسر ڈاکٹر محمد ذکریا زاکراوروائس چانسلر یونیورسٹی آف کوٹلی پروفیسر ڈاکٹر رحمت علی خان نے شرکت کی۔

اجلاس میں وائس چانسلرز نے واضح کیا کہ وہ عرصہ دراز سے جامعات کو درپیش سنگین مالیاتی بحران کے حوالہ سے تمام متعلقہ فورمز اتھارٹیز کوتحریری و زبانی طورپر آگاہ کرتے چلے آئے ہیں مگر تاحال اس پر کوئی مثبت پیش رفت نہ ہوسکی جس کے باعث یہ بحران شدت اختیارکرتا چلا گیا اور اب جامعات کے پاس ملازمین کو تنخواہ و پنشن کی ادائیگی کے لیے کوئی وسائل دستیاب نہ ہیں۔وائس چانسلرز نے بتایا کہ اس کی بڑی وجہ 2017سے موجودہ مالی سال تک ہائرایجوکیشن کمیشن سے جاری فنڈنگ میں اضافہ کا نہ ہونا ،پبلک سیکٹر جامعات میں طلبہ کی فیس کا کم ہونا،کالجز کے اندر بی ایس ڈگری پروگرامز کا شروع ہونا جس کے باعث جامعات میں طلبہ کی تعداد کا کم ہونا،HECکی طرف سے پرائیویٹ ڈگری پروگرامز کا بندکرنا شامل ہیں جبکہ دوسری طرف تنخواہ اور پنشن کی مد میں گزشتہ سات سالوں کے دوران 135فیصد اضافہ ہونے سے جامعات اب موجودہ مالی وسائل کے اندر تنخواہ اور پنشن کی ادائیگی کے قابل نہ رہی ہیں۔وائس چانسلرز نے واضح کیا کہ اب جامعات کے پاس ملازمین کی تنخواہ اور پنشن کی ادائیگی کے لیے کوئی وسائل دستیاب نہ ہیں۔

اجلاس میں بتایا گیا کہ وائس چانسلرز نے جامعات کو درپیش مالی مسائل کے حل کے لیے مسلسل کاوشیں کیں اور وہ اس سے قبل مالیاتی بحران اور متوقع صورتحال کے حوالہ سے صدر ریاست چانسلر جامعات اور چیئرمین ہائیرایجوکیشن کمیشن سے بھی ملاقاتیں کرچکے ہیں جس کے نتیجہ میں صدر ریاست نے وزیراعظم آزادکشمیر کو 7جون 2024کو اپنے ایک مکتوب میں خدشہ ظاہر کیا کہ سرکاری جامعات کو حکومت آزادکشمیر کے عدم مالی تعاون کی صورت میں فیکلٹی و سٹاف کی ممکنہ بے روزگاری کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے اور اعلیٰ تعلیم کے پروگرامز میں داخل 30ہزار سے زائد طلباء متاثر ہوسکتے ہیں۔صدر ریاست نے اپنے مکتو ب میں ریاستی حکومت سے جامعات کو درپیش مالی خسارہ کو کم کرنے کے لیے کم از کم 3ارب روپے کی گرانٹ دینے کا مطالبہ کیا۔اسی طرح ریاستی جامعات کے وائس چانسلرز کی چیئرمین ہائرایجوکیشن کمیشن سے مالی مسائل کے حل کے لیے مسلسل ملاقاتوں اور تحاریک کے نتیجے میں چیئرمین ایچ ای سی پروفیسر ڈاکٹر مختار احمد نے بھی وزیر اعظم آزادکشمیر کے نام اپنے 24 جون 2024 کو تحریر کیے گئے مکتوب میں حکومت آزادکشمیر پر زوردیا کہ ریاستی حکومت بھی دیگر صوبوں کی طرح اپنی جامعات کے لیے مالی سال 2024-25کے بجٹ میں مطلوبہ فنڈز مختص کرے مگر اس پر کوئی پیش رفت نہ ہوسکی۔

پروفیسرڈاکٹر مختاراحمد نے اپنے مکتوب میں ایچ ای سی کی جانب سے ریاستی جامعات کو دی جانے والی گرانٹ میں نمایاں کمی کی نشاندہی کرتے ہوئے وزیراعظم آزادکشمیر کو آگاہ کیا کہ پاکستان بھر کی جامعات بالعموم اور ریاستی جامعات بالخصوص مہنگائی کی وجہ سے بڑھتے ہوئے اخراجات کے باوجود پچھلے کئی سالوں سے منجمدبجٹ سے ہی اپنے امورانجام دے رہی ہیںجو کسی بھی وقت بحرانی کیفیت میں مبتلاہوسکتی ہیں۔چیئرمین ہائیرایجوکیشن کمیشن نے سماجی و اقتصادی ترقی میں ریاستی جامعات کے اہم کردار اور تقریباً 3,500 فیکلٹی اور غیر فیکلٹی عملے کے ساتھ ساتھ 30,000 طلباء کی مدد کے لیے ریاستی حکومت سے فوری طور پر کے فوری تعاون کی ضرورت پر زور دیاتھا۔یہاں اس امر کی وضاحت ضروری ہیکہ چیئرمین ہائیرایجوکیشن کمیشن نے وزیراعظم آزادکشمیر کو لکھے گئے مکتوب میں دوارب روپے ریاستی جامعات کا شارٹ فال بتایا ہے جس میں موجودہ مالی سال کا اضافہ شامل نہ ہے۔اگر یہ اضافہ بھی شامل کیا جائے تو آزادکشمیر کی جامعات کو صرف ملازمین کی تنخواہوںاور پنشن کے واجبات کو پورا کرنے کے لیے بھی کم از کم 3ارب روپے کی فوری ضرورت ہوگی ۔

علاوہ ازیں ، جامعات کے سینئرفیکلٹی پر مشتمل ایک وفد نے بھی وزیر اعظم آزادکشمیر سے بجٹ اجلاس کے دوران ملاقات کی اور انہیں اس مسئلہ کی حساسیت سے آگاہ کیا اور بتایا کہ حکومتی فوری مالی مداخلت کے بغیرجامعات کے وجود کو شدید خطرات لاحق ہیںجس کے باعث جاری اہم تعلیمی و تحقیقی سرگرمیاںبھی بندش کا شکار ہوسکتی ہیںجس سے خطے کی سماجی و اقتصادی ترقی کو بھی نقصان پہنچنے کا احتمال ہے۔یونیورسٹیزکے حکام نے اس بات پر زور دیا ہے کہ حکومت اپنے بجٹ پر نظرثانی کرتے ہوئے ریاستی جامعات کے لیے فوری طور پر3 ارب روپے مختص کرے اور اعلیٰ تعلیم کے ان قومی اداروں کے مالیاتی زوال کو روکنے اور علاقائی اور قومی ترقی کے لیے ضروری طویل مدتی ترقی اور اختراعات کی حمایت کرنے کے لیے اپنا اہم کرداراداکرے۔یہاں یہ امر قابل ذکر ہیکہ یونیورسٹیز کے مالی بحران کا یہ پہلا واقعہ نہ ہوا ہے،اس سے قبل سندھ،بلوچستان ،خیبرپختونخواہ اور پنجاب کی جامعات بھی اس مالی بحران کا شکار ہوچکی ہیں ۔صوبہ سندھ اور بلوچستان کی حکومتوں نے اپنی صوبائی جامعات کو مالی بحران سے نکالنے کے لیے مستقل طور پر اپنے سالانہ بجٹ میں گرانٹ مختص کی اور رواں مالی سال کے دوران صوبوں نے بالترتیب 35اور 5ارب روپے جامعات کے لیے مختص کیے۔یاد رہے کہ اٹھارویں ترمیم کے بعد اعلیٰ تعلیم صوبائی حکومتوں کی ذمہ داری ہے اور صوبے اپنی اپنی جامعات کے لیے اپنے بجٹ میں فنڈز مختص کررہے ہیں جبکہ آزادکشمیر میں تاحال حکومتی سطح پر ایسی کوئی کارروائی نہ ہوسکی ہے۔