آج ہم جس ابتری سے گزر رہے ہیں۔ اس کی تصویر علامہ عبدالرحمن ابن خلدون کے الفاظ میں ملاحظہ کیجئے۔’’زوال ِسلطنت اور ضعف مملکت کے چند اسباب ہیں۔ اوّل شخصی حکومت سلطنت کو کمزور کرتی ہے۔ اس لیے کہ جب تک مجدد تحکم قوم میں مشترک رہتا ہے۔ قوم کا متحد قدم ملکی ترقی کیلئے آگے بڑھتا رہتا ہے۔ اور سب کی ہمت اغیار پر غلبہ اور اپنے ملک کی حفاظت کی طرف راغب رہتی ہے۔ اور ہر شخص ملک کی افزائش کو اپنی عزت و قوت کا باعث سمجھتا ہے۔ اگر ملکی و قومی عظمت میں فرق آتا ہے تو قوم کی قوم خطرات میں پڑ کر بھی حفظ ناموس سے دریغ نہیں کرتی۔ لیکن جب قوم میں سے شخص واحد(سلطان) تمام مجددِ عظمت پر حاوی ہوکر عصبیت قومی کو توڑتا ہے۔ اور اسے آزادی اختیار سے محروم کرکے عطیات و انعام میں غیروں کو ترجیح دینے لگتا ہے تو قوم بھی اقدام میں سستی کرنے لگتی ہے اور اس کی ہمت زائل ہوجاتی ہے وہ ذلت و غلامی کے درپر پہنچ جاتی ہے۔‘‘
بتائیے کہ تصویر کتنی حقیقی اور کتنی مجازی ہے۔ آگے ملاحظہ کیجئے۔’’ اس حالت میں اس کی آغوش میں پلتی اولاد سمجھتی ہے کہ اسے جو بھی عطیات مل رہے ہیں۔ وہ ملکی حفاظت و اعانت کا بدلہ ہیں۔ اسے اور کوئی بات سمجھ میں نہیں آتی۔ اس دَور کے لوگ بہت ہی کم اپنی زبان کو خطرے میں ڈالنا پسند کرتے ہیں اور آخر میں یہی بات ضعف قوت اور اضمحلال شوکت کا باعث ہوجاتی ہے۔ دوسری وجہ ضعف سلطنت کی یہ ہے کہ حصول ملک اور وافر دولت کے بعد قوم پر تکلف و ناز و نعمت کا اثر پڑتا ہے۔ لوگوں کی ضرورتیں بڑھتی ہیں۔ آمدنی سے خرچ زیادہ ہو جاتا ہے۔ اس لیے مفلس نادار ہلاک ہوتے ہیں اور تکلف پسند لوگ اپنی آمدنی کو اسراف ِبیجا اور تکلفاتِ لا یعنی میں اڑاتے ہیں۔ اور امتداد روزگار کے ساتھ برباد کن اطوار ترقی کرتے رہتے ہیں۔ یہاں تک کہ معمولی آمدنی اور عطیات سلطنت لوگوں کے تکلفات کو بالکل کافی نہیں ہو سکتے۔‘‘ (صفحہ168۔ مقدمہ تاریخ ابن خلدون۔ ترجمہ:مولانا عبدالرحمن۔ عبداللہ اکیڈمی۔ لاہور)
قوموں کے عروج و زوال کی وجوہ، اسباب اور محرکات بنیادی طور پر ایک ہی ہوتے ہیں۔ابن خلدون نے کئی صدیاں قبل اپنی تحقیق،مشاہدے کی روشنی میں جو مقدمہ تحریر کیا۔ اس میں واضح طور پر ان خطرات سے خبردار کیا تھا۔ ہم ابن خلدون وغیرہ کو تو لائق مطالعہ خیال ہی نہیں کرتے۔ کیونکہ ہمارے لیے 10ڈاؤننگ اسٹریٹ، سینڈ ھرسٹ، پینٹاگون، وائٹ ہاؤس، اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ، آئی ایم ایف، پیپلز گریٹ ہال، روشنی کے مینارے ہیں۔ اپنے زوال کے اسباب کا تعین بھی ہم ایک تعصب کے ساتھ کرتے ہیں۔ شخصی مفادات سے بالاتر ہوکر نہیں سوچتے خود کو عقل کل سمجھتے ہیں۔ الماریوں میں پڑی کتابیں ہماری منت سماجت کررہی ہوتی ہیں۔ ہم اپنے خوشامدیوں میں بیٹھ کر انقلاب فرانس، انقلاب چین، انقلاب روس، انقلاب ایران کا مذاق اڑاتے ہیں۔ ابن خلدون زوال سلطنت کے جن محرکات کا اعلان کررہے ہیں۔ کیا وہ ہمارے سامنے نہیں ہیں۔
ہمارے خطے کے باشندے صدیوں سے ایک گریٹ گیم کا نشانہ رہے ہیں۔ بھارت، پاکستان، افغانستان، ایران، پہلے یہاں زار روس اور برطانوی سلطنت کی سفارتی، جاسوسی، جنگیں جاری رہیں۔ برطانوی سلطنت میں جب سے سورج غروب ہونے لگا تو امریکہ نے برطانیہ، کمیونسٹ روس نے زار روس کی جگہ لے لی۔ جاسوسی پر اربوں ڈالر خرچ ہوتے رہے۔ جنوبی ایشیا ان طاقتوں کی شکار گاہ بنا رہا۔ اب بھی 1979سے یہی ہو رہا ہے۔ افغانستان، پاکستان کے بہت سے پہاڑی سلسلے مستقبل کی توانائی اور معدنیات رکھتے ہیں۔ اسلئے روس امریکہ یہاں خلفشار پیدا کیے رکھیں گے۔ نائن الیون کے بعد تو ساری مغربی فوجیں افغانستان میں دہشت گردی کے خاتمے کیلئے آگئیں ۔ ریکوڈک کے ساتھ اب تک جو قانونی اور مالی تنازعات ہوتے رہے ہیں۔ اسے پیش نظر رکھیں۔ امریکہ نے 20سال افغانستان میں موجود رہنے کے دوران کتنے کارخانے لگائے۔ کتنے کنوئیں تیل کے دریافت کیے۔
میں تو بار بار یہ عرض کر رہا ہوں کہ ایک طرف تو 1985 سے اب تک مختلف اوقات میں پاکستان کے اسٹیئرنگ پر بیٹھنے والوں نے جس طرح قوم کی گاڑی چلائی ہے۔ وہ یہی ظاہر کرتی ہے کہ ڈرائیوروں نے منزل کا درست تعین کیا نہ راستوں کا۔ اس وقت ہم شدید انتشار بلکہ خلفشار میں الجھے ہوئے ہیں۔ اب جب امریکی صدر ’’لنگڑی بطخ‘‘ بن گئے ہیں۔ وہاں سے ہمیں اتنی مضبوط حمایت نہیں ملے گی۔ اندازہ کیجئے کہ دنیا بھر کی قیادت کے دعویدار خود قیادت کے خلا میں اتر گئے ہیں۔ پاکستان میں بھی اس وقت مدبرانہ قیادت کا خلا ہے۔ اس لیے روزانہ نئے خطرات سامنے آرہے ہیں۔ جن عوارض کی نشاندہی ابن خلدون نے کی ہے وہ سب اس وقت موجود ہیں۔ یہ بھی خیال رہے کہ جب پارلیمانی نظام میں عوام کے ووٹ کے ساتھ کھلواڑ ہو تو بیلٹ بکس بھی بد دعائیں دیتے ہیں۔
دکھ کی بات یہ ہے کہ کسی طرف سے بھی پاکستانیوں کو یہ نوید نہیں ملتی کہ کوئی راستہ ایسا ہے، جو ہمیں عظیم تر مستحکم جمہوری مملکت کی طرف لے جا سکتا ہے۔ ہر گلی ہر گھر میں محسوس کیا جا رہا ہے کہ حکمران جان بوجھ کر کوئی حل نہیں نکال رہے ہیں۔ بجلی پیدا کرنے والی کمپنیوں کا معاملہ لے لیجئے۔ لاہور کے وکلا نے آج سے 26سال پہلے اپنی قرارداد سے ان معاہدوں کی تنسیخ کا مطالبہ کیا تھا۔ اب سالہا سال بعد وفاق ایوان ہائے صنعت و تجارت کے عہدیدار جاگے ہیں اور یہ مطالبہ کر رہے ہیں۔ ایک سابق وفاقی عبوری وزیر گوہر اعجاز بھی شدت سے یہ اظہار کررہے ہیں۔ ہمارے تدبر کا تو یہ عالم ہے کہ مشینیں چلی ہیں نہ لوگ بر سر روزگار ہوئے لیکن مملکت پاکستان اربوں ڈالر کمپنیوں کے حوالے کرتی رہی۔ جسے ابن خلدون ’’غیروں کو عطیات و انعام سے نوازنا‘‘ قرار دیتے ہیں۔ ان عطیات کی وجہ سے دس کروڑ سے زیادہ پاکستانی غربت کی لکیر سے نیچے چلے گئے ہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ اس وقت 24کروڑ پریشان ہیں۔ ان کی رہنمائی کوئی نہیں کررہا ۔ عام پاکستانی نوجوان، ان کے خاندان حکمران طبقوں سے زیادہ وطن کا درد رکھتے ہیں۔ ملک کی سلامتی کا احساس بھی ان کو ہے۔ ان کے ذہنوں میں آئندہ دس پندرہ سال کا لائحہ عمل بھی ہے۔ ہمارے پروفیسرز، اساتذہ، دانشور، علمائے کرام، محققین صراط مستقیم کا ادراک رکھتے ہیں۔ ہمارے وسائل بھی بے حساب ہیں۔ ملک ہمارا ہے۔ ہماری اولادوں کو یہاں آتی صدیوں میں رہنا ہے۔ گزری صدیوں میں بھی ہمارے بزرگوں نے اس مملکت کو ضعف سے بچایا تھا۔ اپنے اپنے محلے کی سطح پر حلقے بنائیں۔ اپنے ذہن کو استعمال کریں۔ لائحہ عمل مرتب کریں۔ ایک صبح حسیں ہماری منتظر ہے۔
بشکریہ روزنامہ جنگ