بڑھتا ہوا سیاسی بحران … تحریر : مظہر عباس


ہر گزرتے دن کے ساتھ ملک کا سیاسی اور معاشی بحران بڑھتا ہی جارہا ہے جس کا بظاہر حکومت کے پاس کوئی ایسا حل نہیں ہے کہ یہ بحران ٹل جائے۔ حال ہی میں مری کے پر فضا مقام پر چند دنوں اور ہفتوں کے بعد بھی اگر شریفوں کی ٹرائیکا کے فیصلوں کے نتیجے میں ٹارگٹ اپوزیشن ہی رہے اور بانی پی ٹی آئی پر پابندی لگانے کی باتیں اور گجرانوالہ جیسے واقعات سامنے آئیں تو سمجھ لیں کہ سب ٹھیک نہیں ہے آپ بھی سوچ رہے ہونگے کہ یہ گجرانوالہ میں کیا ہوا اور اس کا اس بڑھتے ہوئے سیاسی بحران اور بگڑتے ہوئے طاقت کے توازن سے کیا تعلق ہے تو جو کچھ پچھلے چند دنوں میں پنجاب کے مسلم لیگ (ن) کے اس مضبوط قلعہ میں دیکھا اس سے بہت سے سوالات کے جواب مل گئے۔ میرا یہ دورہ پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس کے مرکزی مجلس عاملہ کے اجلاس کے حوالے سے تھا۔ روایتی طور پر پی ایف یو جے حکومت اور اپوزیشن دونوں کو دعوت دیتی ہے اور صحافیوں کو درپیش مسائل سے آگاہ کرتی ہے۔ مگر ہمارے نئے مہمان وہاں کے مقامی گجرانوالہ یونین آف جرنلسٹس کے دوستوں کو کیا پتا تھا کہ انہیں کس بحران کا سامنا کرنا پڑے گا اپوزیشن لیڈر کو دعوت دینے کی صورت میں اور اگر میں مسلم لیگ کی مرکزی قیادت کی یہ بات مان لوں کہ حکومت یا پارٹی کی قیادت کی کوئی ہدایت یا حکم نہیں تھا تو آخر کس کے کہنے پر اس قدر طاقت استعمال ہوئی کہ ہوٹل کا منیجر بھی گرفتار ہوا، کچھ وقت کے لئے ہوٹل بھی سیل کر دیا گیا اور اگر اس وقت پی ایف یو جے کی قیادت یہ فیصلہ نہ کرتی کے ہم بطور احتجاج اپنا اجلاس جی ٹی روڈ پر کریں گے تو شاید ہوٹل ہی بند کردیا جاتا۔ ظاہر ہے دعوت کسی کالعدم تنظیم کے رہنما کو دی نہیں گئی تھی اس جماعت کے رہنما کو دی گئی تھی جو ہر روز پارلیمنٹ کے باہر، سپریم کورٹ کے باہر اڈیالہ جیل کے باہر بات کرتے رہتے ہیں۔ مگر یہاں معاملہ کچھ مختلف ہوا۔ وہاں کی یونین کے مقامی رہنماؤں کو بلا کر مہمانوں کی لسٹ مانگی گئی پھر اس میں سے تحریک انصاف کے رہنما اور اپوزیشن لیڈر عمر ایوب کا نام کاٹ دیا گیا۔ بات اگر مقامی انتظامیہ تک رہتی جب بھی غنیمت تھا مگر بات اس سے اوپر تک کی تھی۔ دباؤ تھا کہ آپ صرف مسلم لیگ اور پی پی پی کے رہنماؤں کو بلا سکتے ہیں۔ پی ایف یو جے کی قیادت کے انکار کی صورت میں ہوٹل پر دباؤ ڈالا گیا کہ اجازت منسوخ کر دی جائے ہوٹل کا منیجر گرفتار ہوا کچھ اور لوگوں کو بھی بلایا گیا کچن بند کر دیا گیا اور آخر میں ہوٹل آنے والوں کے لئے تقریبا سیل کر دیا گیا۔ جب صحافیوں نے اجلاس سخت گرمی میں جی ٹی روڈ پر کرنے کا فیصلہ کیا تو بات حکومتی ایوانوں تک پہنچ گئی اور اس سے پہلے کے معاملہ مزید بگڑتا سارے آرڈر واپس لے لئے گئے۔

میں صرف یہ سوچ رہا تھا کہ ہماری حکومتیں اور انتظامیہ ہم سے کتنا تعاون کرتی ہیں کیسے خبر بنواتی ہیں ایک نارمل ایونٹ کو فرنٹ پیچ یا بریکنگ نیوز بنا دیتی ہیں۔ بعد میں وزیر اطلاعات پنجاب محترمہ عظمی بخاری اور مرکزی وزیر اطلاعت عطا تارڑ دونوں نے اس بات کی سختی سے تردید کی کہ حکومت کی طرف سے ایسے کوئی احکامات جاری ہوئے۔ اس جواب نے نئے سوالات کو جنم دے دیا کہ اگر ایسا تھا تو کوئی مقامی افسر معطل کیوں نہیں ہوا۔ وزیراعلی نے نوٹس لیا تو کیا جواب آیا اور اگر شاہ سے زیادہ شاہ کے وفادار کی بات تھی تو کوئی توایکشن ہوتا۔

بظاہر یہ ایک معمولی سا واقعہ تھا۔ مگر یہ بہت کچھ بتا گیا کہ طاقت کا توازن کس کے پاس ہے۔ اس وقت حکومت یا مسلم لیگ (ن) سب سے کمزور وکٹ پر ہے اور یہی وجہ کہ ان سے غلط شاٹ لگ رہے ہیں۔ عمران عمران کی رٹ نے خود عمران کو مزید مقبول کر دیا ہے اگر وہ اس کے بجائے عوام کے ریلیف کے لئے اقدامات کرتے تو اس کا توڑ بھی مل جاتا اور خود پارٹی بھی اس بحران سے باہر نکل آتی۔ حالیہ سالوں میں ملک کی اعلی عدلیہ جو تاریخی طور پر نظریہ ضرورت پر چلی ہے کہ کچھ فیصلوں نے طاقت کا توازن بگاڑ دیا ہے۔ ماضی کی ٹرائیکا میں وزیر اعظم کے مقابلے میں صدر اور مقتدرہ ایک طرف ہوتے تھے اعلی عدلیہ ان کے ساتھ۔ اسی لیے 1988سے 1999 تک چار وزرائے اعظم گئے۔ بعد میں بھی کوئی خاص تبدیلی نہیں آئی حکومتوں نے میعاد پوری کی مگر تین وزیر اعظم پھر بھی گھر گئے۔ یوسف رضا گیلانی نواز شریف اور عمران خان۔

8 فروری کے بعد طاقت میں توازن نہیں رہا عوام نے بیلٹ کے ذریعہ ریاستی اشرافیہ کی روایتی سیاست کو ووٹ کے ذریعہ شکست دی اور اب بات اعلی عدلیہ تک پہنچ گئی ہے۔ یہ ماضی سے ذرا مختلف ہے جس سے بحران حل بھی ہو سکتا ہے عوام کے فیصلے کو ماننے سے اور شدید بھی ہو سکتا ہے تصادم کی صورت میں ۔ تصادم سڑکوں پر نہیں ہو گا بس انتظار کریں کہ اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے۔

بشکریہ روزنامہ جنگ