جناب فاروقی کی پاکیِ داماں۔۔۔۔تحریر شکیل احمد ترابی


میرے عزیز صحافی دوستوں نے اپنے وی لاگ”ٹاک شاک ” میں ایک سابق اعلیٰ سرکاری ملازم (Civil Servant)جناب سلیمان فاروقی کی یادداشتوں” ڈئیر مسٹر جناح ”کا تذکرہ کیا۔
جناب فاروقی میرے لئے قابل احترام ہیں مگر افسوس کے وہ اور ان کا خاندان ملازمت کے دوران نیک نامی کما سکا اور نہ وقت پیری جب انسان اپنی غلطیوں کا شمار کرکے رب سے معافی اور ازالے کی کوشش کرتا ہے،وہ ایسا کرسکے۔
فاروقی نے یادداشتوں پر مشتمل کتاب میں”ثنا ء نیوز ایجنسی”جس کا میں اس وقت مدیر اعلیٰ تھا ،بارے کہا کہ نیوز ایجنسی نے میمو گیٹ اسیکنڈل میں ان کو ناجائز ملوث کیا اور یہ کہ پریس نوٹ ان کے گھر پر بھیجا۔ذرائع ابلاغ کے ادارے لوگوں کا موقف جاننے کیلئے رابطہ توکرتے ہیں پریسرکسی کے گھر نہیں بھیجتے۔
فاروقی بااثر اعلیٰ سرکاری ملازم تھے،کاش وہ اس بات کی تہہ تک پہنچتے کہ بقول ان کے جو پریس نوٹ ان کے گھر آیا،وہ کون دیکر گیاتھا؟
اس خبر کی کہانی بہت دلچسپ ہے،”ثنا ء ”کی اخبارات کو جاری کردہ خبر اور فاروقی کے مطابق”ثنا ء ”کا جو پریس نوٹ انکے گھر پہنچایا گیا،دو مختلف کہانیاں تھیں۔ ہماری اصل خبر کی بجائے”پیادہ” جو مسودہ ان کے پاس لیکر گیا،اسے سچ جان کر وہ خائف ہوئے،سرکاری مشینری کو حرکت میں لائے اور پاکستان کے سب سے بڑے اخبار میں اسکے مقامی ایڈیٹر کے نام سے”ثنا ء ”کیخلاف میموگیٹ سکینڈل بارے بے بنیاد خبر چھپوائی ۔
میں نے اس بڑے میڈیا ہاؤس کے مدیر اعلیٰ و مالک سے بات کی کہ جناب یہ کونسی اخلاقیات ہیں کہ آپ نے”ثنا ”کی اصل خبر شائع کی اور نہ دیکھی اورفاروقی کے کہنے پر بے بنیاد پروپیگنڈہ پر مشتمل خبر میرے ادارے کیخلاف شائع کردی۔
اس ادارے کے مدیر اعلیٰ کے ظرف کی داد دیتا ہوں کہ انہوں نے نہ صرف معذرت کی بلکہ اگلے دن صفحہ اول پر عین اس جگہ پر ہمارا موقف بھی شائع کردیا جہاں جناب فاروقی کی خبر لگائی گئی تھی۔
اصل واردات تو”پیادہ ”نے کی،جن سے ان دنوں ہماری اچھی راہ و رسم تھی۔وہ کسی وقت جناب فاروقی کے اچھے دوست تھے۔مگر بعد میں ان پر فاروقی کا گیٹ بند ہوگیا،وہ یا ان کا کوئی کارندہ ”ثنا نیوز ”کی نہیں بلکہ ”ثنا ”کے حوالے سے من گھڑت خبر (Fabricated) لیکر،جناب فاروقی کے پاس پہنچے ۔
میموگیٹ کی من گھڑت خبر نے ”پیادہ ”کیلئے فاروقی کے گیٹ ہمیشہ کیلئے کھول دیئے۔ گیٹ ہی نہ کھلے بلکہ جناب زرداری کے بارے ہرجگہ خرافات بیان کرنے والے ”پیادہ”نے کئی کالم جناب زرداری کے حق میں لکھے ،فاروقی اور دیگر اعلیٰ سرکاری ملازمین کی کوششوں سے انعام کے طور پر ”پیادہ ”کو صدارتی تمغہ امتیاز کا اعلیٰ اعزاز جناب صدر زرداری سے دلوایا گیا۔
بڑے اخبار میں ”ثنا” کیخلاف خبر شائع ہوئی تو میرے وجدان میں ”پیادہ ”آئے ۔حساس ادارے کے سیکٹر کمانڈر بریگیڈیئر زاہد کے دفتر اس خبر کے حوالے سے اجلاس میں ”پیادہ ”کو دیکھ کر مجھے یقین ہو گیا کہ یہ باریک واردات کِس نے ڈالی ہے۔؟
بریگیڈیئر کے دفتر میں میرے علاوہ پرنسپل انفارمیشن آفیسر سلیم بیگ، لوکل ڈیٹ کے انچارج کرنل ،دو ڈپٹی ڈائیریکٹرز وغیرہ موجود تھے۔
”پیادہ ”کسی صورت متعلقہ آدمی نہیں تھے مگر وہ ہم سے پہلے بریگیڈئیر کے کوہسار کمپلیکس میں موجود تھے۔بریگیڈیئر کے دفتر میں منعقدہ اجلاس سے تین دن قبل ڈیٹ انچارج نے مجھ سے رابطہ کیا اور لاہور سے فوری واپس اسلام آباد پہنچنے کا کہا مگر میں نے اس کی بات نہ مانی اور اپنے پروگرام کے مطابق واپس آیا۔
واپسی پر بریگیڈیئر سے ملاقات سے قبل اسلام آباد کے پنج ستارہ ہوٹل میں صدر زرداری کے معاون خصوصی ڈاکٹر عبدالقیوم سومرو نے عشائیے پر ملاقات کی جس میں معروف اینکر ڈاکٹر شاہد مسعود بھی موجود تھے۔
وضع دار اور دھیمے مزاج کے سومرو نے خبر کا سورس جاننا چاہا مگر میں نے کہا کہ اخبار نویس سورس کو بے نقاب کرکے خبر کے سوتے بند نہیں کرتا۔
خوشگوار ماحول میں عشائیہ اختتام پذیر ہوا۔ پارکنگ میں ڈاکٹر شاہد مسعود نے دوستی کا حوالہ دیکر تفصیل جاننا چاہی مگر میں خاموش رہا۔
بریگیڈیئر زاہد نے گستاخانہ لہجے میں مجھ سے پوچھا کہ کون اعلیٰ فوجی افسرتمہارا سورس ہے؟ میں نے جواب دیا کہ کوئی فوجی نہیں، نہ ہی خبروں کے حوالے سے میرے کسی فوجی سے کوئی روابط ہیں۔ میں نے کہاکہ جناب میں ایسے لہجے میں بات کرتا،نہ سننے کا عادی ہوں۔بریگیڈیئر میرے پراعتماد لہجے کو دیکھ کر ہونق ہو کر بیٹھ گیا۔چائے ودیگر لوازمات دھرے رہ گئے۔میں اٹھ کر دفتر سے نکل آیا۔کوہسار کمپلیکس کی پارکنگ میں جناب سلیم بیگ اور ”پیادہ”بھی پہنچ گئے اور میری جرات کی تعریف کی جسکی مجھے ہر گز حاجت نہ تھی۔
میموگیٹ کی خبر کے حوالے سے سلیم بیگ سے میری صرف بریگیڈیئر کے دفتر ملاقات ہوئی۔پہلے اور نہ بعد میں انہوں نے مجھ سے کوئی رابطہ کیا۔
قدآورسیکریٹری اطلاعات سے اچھے مراسم تھے اور بیگ صاحب سے تو شاندار تعلقات تھے اور آج بھی ہیں۔
اگر واقعی پرنسپل انفارمیشن افسرسلیم بیگ نے وفاقی سیکریٹری اطلاعات کے ذریعے جناب فاروقی کو کوئی رپورٹ بھیجی کہ شکیل ترابی نے اپنا سورس کسی میجر جنرل کو قرار دیا ہے تو یہ مکمل طور پر لغو ہے۔ کرنلوں اور میجر جنرلوں کی ”مراد ”کے ہم کبھی طلبگار نہ رہے۔
ایسا ہوتا تو اپنے ملک کی ایجنسیاں مجھے دو بار نہ اٹھاتیں ،ایک بار مجھے اور دوسری بار میرے پندرہ سالہ بیٹے پر سکول گیٹ پر تشدد نہ کرتیں۔
میرے معصوم بیٹے پر تشدداور دیگر کارروائیاں اسے ہم سے دور لے گئیں اور ساڑھے چودہ سال سے وہ ہم سے جدا ہے۔
میں حلفاًاس بات کا اظہار کرتا ہوں کہ فاروقی کو دی گئی سٹوری من گھڑت تھی۔ ہماری سٹوری چابک دست جناب حسین حقانی سے متعلق تھی اور کچھ تذکرہ جناب فاروقی کا بھی تھا۔مجھے بریگیڈیئر ،سومرو یا سلیم بیگ نے کبھی فاروقی صاحب کا موقف شائع کرنے کا نہیں کہا۔ایسا ہوتا تو اپنے موقف پر قائم رہتے ہوئے ہم ان کا موقف بھی شائع کرتے۔
کیا ہی اچھا ہوتا کہ فاروقی اپنی یادداشتوں میں اپنے اس” بڑے پن ”کا ذکر بھی کرتے کہ انھوں نے طیش میں آکر وفاقی سیکریٹری اطلاعات کو بلا کر کہا کہ ”ثنا نیوز”کو سبق سکھائیں۔ فاروقی کے کہنے پر سیکریٹری نے پارلیمان سے خبر رساں اداروں کیلئے منظور شدہ بجٹ سے ”ثنا ”کی اقساط روکیں اورڈی لسٹ کردیا۔
بااخلاق سیکریٹری اطلاعات نے اپنے دفتر بلا کر مجھے ایک اور ادارے کے ایڈیٹرکی موجودگی میں اپنی مجبوریوں سے آگاہ کیا اور”ثنا” کیلئے تیارشدہ چیک دکھایامگر جاری نہ کرنے بارے اپنی بے بسی بیان کی۔
بعد میں آنے والے سیکریٹری اطلاعات نے ”ثنا ”کا ایک ہزار کا اکاؤنٹ کھول کر دوبارہ لسٹ میں شامل کیا۔ ”ثنا” کے بجٹ کا رکا ہوا چیک معیاد پوری کرچکا تھا۔ اس لیے چھ لاکھ کانیا چیک ”ثنا ”کے اکاؤنٹینٹ کو دیا مگر وہ ”مہربان وفاقی سیکریٹری ”بھی ہمارے ساتھ ہاتھ کر گئے۔
جناب حامد میر اور جناب ابصار عالم کی خفیہ فنڈ کی درخواست پر سپریم کورٹ کی ویب سائٹ پر چھ لاکھ خفیہ فنڈ لینے والوں میں شکیل ترابی کانام بھی شامل تھا۔جناب میر کی پٹیشن میں ایکCMA میں نے بھی داخل کی ، میری طرح دو خواتین صحافیوں جنہوں نے خفیہ فنڈ نہ لیا تھا فریحہ ادریس اور منیزے جہانگیر کے وکیل بھی جسٹس جواد ایس خواجہ کی عدالت میں پیش ہوتے رہے۔
مجھ سے جسٹس خواجہ نے پوچھا آپ کا کونسل کون ہے ؟ جواب دیا میں خود۔ تو منصفی سے دور مگر زبان و کلام پر عبور رکھنے والے خواجہ نے بھری عدالت میں کہا کہ”ابو تراب سے نسبت والے شکیل ترابی کو وکیل کی کیا ضرورت؟۔
”خواجہ بڑا ڈائیلاگ بول گئے مگر دو منٹ میں حل ہونے والے کیس کا فیصلہ انہوں نے کیا ،نہ بعد والوں نے۔ میریCMAآج بھی انصاف کا منہ چِڑا رہی ہے مگر کیا کہئیے،آوے کا آوہ بگڑا ہوا ہے مگر منصف تو بگاڑ پیدا کرنے والوں میں سرفہرست ہیں۔
کہانیاں تو اور بھی بہت ہیں مگر خاموش رہنے میں ہی بہتری ہے کہ سچ کی قیمت بہت بھاری ہے۔
میں نے بہت بھاری قیمت ادا ہی نہیں کی بلکہ کررہا ہوں۔
بریگیڈیئر زاہد ہی نے ایک اور موقع پر مجھے کہا تھا کہ انکار کا انجام (consequences)جانتے ہو۔؟
جواب دیا تھا بہت اچھی طرح، سب آزما چکے ہو ،اب موت باقی ہے اور وہ دینے کے تم لوگ مکلف نہیں ہو۔ رب نے نہ لکھی ہوتو کوئی مار نہیں سکتا اور اس نے لکھی ہو تو کوئی بچا نہیں سکتا۔
کاش جناب فاروقی پاکیِ داماں بیان کرنے سے پہلے اپناداماں درست کرتے۔