سپریم کورٹ کیسز کی سماعت کے دوران فیض آباد تحریک لبیک پاکستان دھرنے کاتذکرہ

اسلام آباد(صباح نیوز)سپریم کورٹ آف پاکستان کے سینئر جج جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا ہے کہ پولیس ملزم کے خلاف ہوکر مدعی کے ساتھ مل جاتی ہے۔ ایف آئی آر میں پورے خاندان کو شامل کردو،اس سے اصل ملزم بھی چھوٹ جاتا ہے۔ کیا جس نے بھی ہو خاندان کے سربراہ کوپکڑو تاکہ پورا خاندان مفلوج ہو۔یہ ٹرینڈ بن گیا ہے کہ سارے وکیل روسٹرم پرآجاتے ہیں، پیشے کا وقار اوراحترام ہے، اتنی گرمی میں ہم نے ٹائی کوٹ کیوں پہنا ہے، یہ ڈیکورم ہے۔جبکہ جسٹس ملک شہزاد احمد خان نے ریمارکس دیئے ہیں کہ ہربندے کو کوئی نہ کوئی بیماری ہوتی ہے، آج کل ہربندے کو شوگر ہے یا بلڈ پریشر ہے۔ جبکہ کیسز کی سماعت کے دوران فیض آباد پر جاری تحریک لبیک پاکستان کے دھرنے کاتذکرہ بھی ہوا اور جسٹس ملک شہزاد احمد خان نے خاتون وکیل سیدہ بی ایچ شاہ سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ آپ نے جاکررضوی صاحب کو سمجھانا تھا۔

جسٹس جمال خان مندوخیل کی سربراہی میں جسٹس ملک شہزاداحمد خان پر مشتمل 2رکنی بینچ نے جمعہ کے روز مختلف فوجداری مقدمات کی سماعت کی۔ بینچ نے 1کلو گرام کے قریب آئس ہیروئن برآمدگی کیس میں 10سال قید بامشقت پانے والے ملزم محمد قاسم کی سزا کے خلاف دائراپیل پر سماعت کی۔ درخواست گزار کی جانب سے نورعالم خان بطور وکیل پیش ہوئے جبکہ خیبرپختونخواحکومت کی جانب سے ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل نوروز خان پیش ہوئے۔ دوران سماعت درخواست گزار کے وکیل کی جانب سے پراسیکیوشن کی انگریزی کی غلطیاں نکالنے پر جسٹس جمال خان مندوخیل کاکہنا تھا کہ ہماری اپنی انگریزی کمزور ہے دوسروں کی کیا ٹھیک کریں گے۔

جسٹس جمال خان مندوخیل کاکہنا تھا کہ جو چیزبرآمد ہوئی وہ ممنوعہ ہے۔ جسٹس ملک شہزاد احمد خان کاکہنا تھا کہ جس ہیٹر میں آئس ہیروئن چھپائی ہوئی تھی وہ ہیٹر پیش کیا گیا کہ نہیں، ہم نے یہ بھی دیکھنا ہے کہ وہ ہیٹر میں آبھی سکتی تھی کہ نہیں۔ سرکاری وکیل کاکہنا تھا کہ 5گرام آئس تجزیے کے لئے بھجوائی گئی جبکہ باقی 965گرام ہیٹر کے ہمراہ جمع کروائی گئی۔ سرکاری وکیل کاکہنا تھا کہ چرس ہوتی توبھی اوربات تھی یہ توآئس ہیروئن ہے جس نے پورے ملک کا بیڑہ غرق کیا ہے۔ عدالت نے درخواست گزار کی سزا کے خلاف درخواست خارج کردی۔ بینچ نے سعید احمد کی جانب سے پراسیکیوٹرجنرل سندھ کے توسط سے ریاست پاکستان کے خلا ف دائر درخواست پر سماعت کی۔

درخواست گزار نے قتل کیس میںضمانت قبل ازگرفتاری کے لئے سپریم کورٹ سے رجوع کیاہے۔ درخواست گزارکی جانب سے رزاق اے مرزا جبکہ مدعا علیحان کی جانب سے عبدالرشید کلواڑاور ایڈیشنل پراسیکیوٹر جنرل سندھ پیش ہوئے۔ درخواست گزار کے وکیل کاکہنا تھا کہ ایک قتل ہوا ہے ، بشیر سے کلاشنکوف برآمد ہوئی اور 7گولیاں کلاشنکوف سے میچ کرگئیں،مقدمہ 24گھنٹے بعد درج ہوا۔ جسٹس ملک شہزاد احمد خان کاکہنا تھا کہ ایک بندے کے قتل میں سات ملزم نامزدکردیئے۔ جسٹس جمال خان مندوخیل کاکہنا تھا کہ ایف آئی آر میں پورے خاندان کو شامل کردو،اس سے اصل ملزم بھی چھوٹ جاتا ہے۔ جسٹس جمال خان مندوخیل کاکہنا تھا کہ کیا جس نے بھی ہو خاندان کے سربراہ کوپکڑو تاکہ پورا خاندان مفلوج ہو۔

جسٹس ملک شہزاداحمد خان کاکہناتھا کہ یہ نہیں لکھا کہ کتنے خول اورکس بور کے برآمد ہوئے۔ اس پر ایڈیشنل پراسیکیوٹر جنرل سندھ کا کہنا تھا کہ برآمد ہونے والے خول کلاشنکوف اور 30بورپستول کے تھے۔ مدعاعلیہ کے وکیل کاکہنا تھا کہ زخمی کو ایک زخم اور مرنے والے کوتین زخم لگے۔ اس پر جسٹس ملک شہزاداحمد خان کہنا تھا کہ خود ہی مشکوک کردیا، کیا پتا چلے گا کہ چار زخم کس کے اسلحہ سے لگے ہیں۔ جسٹس جمال خان مندوخیل کاکہنا تھا کہ یہ تونہیں پتا چلا کہ گولی کس کی لگی۔ وکیل کا کہنا تھا مرنے والے کو بشیر کی گولی لگی ہے۔ جسٹس ملک شہزاد احمد خان کاکہنا تھا کہ اگر مدعی کابیان ہو اور پولیس کی فائنڈنگ ہوتو پھر یہ مزید انکوائری کاکیس ہے توٹرائل کورٹ اس کو دیکھے گی۔ جسٹس جمال خان مندوخیل کاکہنا تھا کہ پولیس ملزم کے خلاف ہوکر مدعی کے ساتھ مل جاتی ہے۔ مدعا علیہ کے وکیل عبدالرزید کلواڑ کاکہنا تھا کہ گواہ درخواست گزار کے مزارع اور ہاری ہیں اوران کاتعلق میرپورماتھیلو سے ہے نہ کہ کراچی سے۔

سرکاری وکیل کاکہنا تھا کہ قتل منصوبہ بندی کے ساتھ کیا گیا، دونوں فریقین کی پرانی دشمنی ہے۔ درخواست گزار کے وکیل کاکہناتھا کہ ان کے مئوکل ابھی ضمانت قبل ازگرفتاری پر ہیں۔ جسٹس ملک شہزاداحمد خان کاکہنا تھا کہ مرنے والے کو 3زخم لگے، 7بندے ایف آئی آر میں نامزد کردیئے ہم کیسے تعین کریں گے کہ کس نے گولیاں ماریں۔ مدعا علیہ کے وکیل کاکہنا تھا کہ ہم پولیس کے تفتیشی افسر کے خلاف درخواست دی ہے کہ وہ پیسے لے کر کام کررہا ہے۔ جسٹس جمال خان مندوخیل نے فریقین کے وکلاء کی جانب سے بیک وقت بولنے پر اظہار ناراضگی کیا اور وکلاء کو ہدایت کی کہ ایک کے علاوہ باقی سب اپنی نشستوںپر بیٹھ جائیں۔ درخواست گزار کے وکیل رزاق اے مرزا کاکہنا تھا کہ آئی جی سندھ خود کیس کی تفتیش کرلے۔ اس پر جسٹس جمال خان مندوخیل کاکہنا تھا کہ آئی جی پولیس کواورکوئی کام نہیں۔ جسٹس جمال خان مندوخیل نے سرکاری وکیل کوہدایت کہ وہ کیس کے تفتیشی افسر کو آئندہ ہفتے لے کراسلام آباد پیش ہوں۔ عدالت کاکہنا تھا کہ درخواست گزار بھی مزید ریکارڈ جمع کروانا چاہیں توکروادیں۔ عدالت نے کیس کی مزید سماعت 26جولائی تک ملتوی کردی۔ جسٹس جمال خان مندوخیل کاکہنا تھا کہ یہ ٹرینڈ بن گیا ہے کہ سارے وکیل روسٹرم پرآجاتے ہیں، پیشے کا وقار اوراحترام ہے، اتنی گرمی میں ہم نے ٹائی کوٹ کیوں پہنا ہے، یہ ڈیکورم ہے۔ جبکہ کورٹ ایسوسی ایٹ کی جانب سے خرم شہزاد کی جانب سے قتل کیس میں ریاست پاکستان کے خلاف دائر کیس کال کیا گیا ۔ کورٹ ایسوسی ایٹ نے بتایا کہ وکیل سیدہ بی ایچ شاہ نے میسیج کر کے بتایا ہے کہ میں راستے میں ہوں اورعدالت آرہی ہوں۔اس پر جسٹس ملک شہزاد احمد خان کاکہنا تھا کہ فیض آباد میں دھرنا جاری ہے ، راستے کھلے ہیں کہ نہیں۔

بعدازاں خاتون وکیل پہنچ گئیں اور بینچ کو بتایا کہ فیض آباد میں دھرنے کی وجہ سے وہ تاخیر کاشکار ہوئیں۔ اس پر جسٹس ملک شہزاد احمد خان کا خاتون وکیل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ آپ نے جاکررضوی صاحب کو سمجھانا تھا۔ وکیل کاکہناتھا کہ 24اگست2017کا واقعہ ہے، درخواست گزار خرم شہزاد نے بیلچے کے وار کر کے دو افراد عبد الواحد اور محمد اقبال کو زخمی کردیا، عبدالواحد زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے 11ستمبر2017کو انتقال کرگیا۔ جسٹس جمال خان مندوخیل کاکہناتھا کہ ہم ساری زندگی سیکھتے رہتے ہیں۔وکیل کاکہنا تھا کہ مقتول کو شوگر کاعارضہ بھی لاحق تھا۔ اس پرجسٹس ملک شہزاد احمد خان کاکہناتھا کہ ہربندے کو کوئی نہ کوئی بیماری ہوتی ہے، آج کل ہربندے کو شوگر ہے یا بلڈ پریشر ہے۔ جسٹس جمال خان مندوخیل کا کہناتھا کہ درخواست گزار نے مقتول کے سر پر بیلچہ مار ا وہی موت کی وجہ بنا، زخمی کے بیان کو ہم کدرھر کریں۔ اس دوران جسٹس ملک شہزاد احمد نے کمرہ عدالت میں موجود مقتول کے بیٹے کومخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ہمیں اس کیس کو تھوڑا غورسے دیکھنا پڑے گا اس لئے بہتر ہو گاوکیل کرلیں یا پھر ایڈیشنل پراسیکیوٹر جنرل پنجاب مرزاعابدہ مجید کے ساتھ بیٹھ کران کو کیس کی تفصیلات بتادیں۔ عدالت نے کیس کی مزید سماعت غیر معینہ مدت تک ملتو ی کردی۔