پاکستان فلاحی ریاست کیوں نہ بن پایا؟ …تحریر : نعیم قاسم


تحریک پاکستان کا بنیادی مقصد پاکستان کو ایک فلاحی ریاست بنانا تھا جہاں تمام طبقات زندگی کو سماجی اور معاشی ترقی کے یکساں مواقع میسر آتے مگر بدقسمتی سے سول اور فوجی آمروں کے ہوس اقتدار اور ریشہ دوانیوں نے اس کو سیکورٹی اسٹیٹ بنا دیا علامہ اقبال نے بھی قائد اعظم کو کہا تھا کہ ریاست کی اولین ترجیح عوام کو روٹی اور بنیادی ضروریات کی فراہمی ہونی چاہیے مگر بدقسمتی سے 76 سال بعد بھی ہمارے حکمران عوام کو سستے داموں روٹی، کپڑا، معیاری تعلیم اور صحت کی سہولیات نہ فراہم کر سکیں ہیں جبکہ حکمران طبقہ نو دولتیاں کلاس سے بین الاقوامی ایلیٹ کی صف میں شامل ہو چکا ہے مگر یہ الگ بات ہے کہ وہ اپنی” ھل من مزید” کی ہوس سے نسلوں کی بھوک اور اپنا حسب و نسب دنیا پر آشکار کر دیتے ہیں قیام پاکستان کے وقت پوری مغربی دنیا میں ویلفیئر سٹیٹ کا تصور تیزی سے پزیرائی حاصل کر رہا تھا جب دوسری جنگ عظیم کا اختتام ہوا تو برطانیہ میں میں ہونے والے انتخابات میں عوام نے قومی ہیرو چرچل کی قدامت پسند جماعت کی جگہ لیبر پارٹی کو کامیاب کرایا کیونکہ ان کے خیال میں لیبر پارٹی عدل اجتماعی اور ویلفیئر اسٹیٹ کی بڑی علمبردار ہے اور آج بھی ایسا ہی ہے حال ہی میں 17 سال بعد لیبر پارٹی دوبارہ برسر اقتدار آئی ہے وزیر اعظم سر کیئر سٹامر نے حلف اٹھانے کے بعد جو پہلا انسان دوست فیصلہ کیا ہے وہ یہ کہ ان 12 ہزار غیر قانونی تارکین وطن کی روانڈا منتقلی کو روک دیا ہے جو قدامت پسند پارٹی کے دور میں ہونا تھی _مغرب میں سوشل جسٹس کے ایجنڈے پر عمل پیرا ہونے کے لیے وہاں کی حکومتیں امرا پر بھاری ٹیکس عائد کرتے ہیں اور حاصل شدہ آمدنی کو تمام شہریوں کے لیے مفت بنیادی ضروریات زندگی کی فراہمی پر خرچ کیا جاتا ہے جبک ہمارے ہاں اس کے برعکس ہوتا ہے موجودہ بجٹ میں عام عوام پر 4200 ارب روپے کے ٹیکس عائد کیے گئے مگر حکمران طبقے کی 3900 ارب روپے کی مراعات میں کوئی کمی نہیں لائی گئی عالمی بنک کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں امرا کو سالانہ 17 ارب ڈالرز کی مراعات میسر ہیں قرآن پاک میں زکوا کے متعلق بتایا گیا ہے کہ یہ مالداروں سے لی جاتی ہے اور غریبوں کو لوٹائی جاتی ہے اگر چہ مغربی ممالک کے فلسفہ زندگی کا اسلامی تعلیمات سے کوئی شغف نہیں ہے لیکن حیران کن طور پر اس کے حیات اجتماعی کے متعدد گوشوں کو اسلامی تعلیمات کے مطابق ڈھالا گیا ہے جبکہ ہمارے حکمرانوں کو نہ تو عدل اجتماعی کے مقاصد سے کبھی کوئی دلچسپی رہی اور نہ ہی ان کے ذاتی، گروہی اور اداراتی مفادات نے ان کو ان خطوط پر کام کرنے کی اجازت دی جس سے اسلامی فلاحی ریاست کا تصور جنم لیتا اگر چہ پچاس اور ساٹھ کی دہائی میں پاکستان میں معاشی ترقی کی شرح نمو قابل اطمینان تھی دوسرے پانچ سالہ منصوبے (651960) کے اختتام پر شرح نمو 5.5 فیصد تھی جو اقوام متحدہ کے مطابق تمام ترقی پزیر ممالک کے مقابلے میں زیادہ تھی مگر بدقسمتی سے اس کا فائدہ عام آدمی تک نہ پہنچ پایا اس کی بڑی وجہ یہ تھی کہ ایوب خان کے طویل دور حکومت میں دولت کو چند ہاتھوں میں مرتکز ہونے دیا گیا ورلڈ بینک کے نمائندہ وزیر خزانہ محمد شعیب نے ایوب خان کے دماغ میں یہ بات بٹھا دی تھی کہ دنیا میں جہاں بھی تیز رفتار صنعتی ترقی ہوتی ہے وہاں عوام کی کم از کم ایک نسل کو محرومی کا شکار رہنا پڑتا ہے اور جب دولت مند افراد کے پاس ضرورت سے زیادہ دولت آتی ہے تو وہ مزید سرمایہ کاری کرتا ہے جس سے ٹریکل ڈان ایفیکٹ کے ذریعے دولت نچلے طبقے تک سراہیت کرتی ہے مگر شعیب نے ایوب کو اس معاشی حکمت عملی کے مضر سیاسی اثرات سے آگاہ نہیں کیا تھا مشرقی پاکستان میں محرومی کے اثرات سے علیحدگی کی تحریک کامیاب ہو گئی اور دولت کی غیر منصفانہ تقسیم کے خلاف بھٹو صاحب نے روٹی کپڑا اور مکان، فیکٹریوں کے مالک کارکن اور زمینوں کے مالک کسان کے نعرے بلند کر کے الیکشن جیتا اور پرائیویٹ انڈسٹریز کو قومیا لیا بھٹو نے پاکستان کو ویلفیئر سٹیٹ بنانے کی کوشش کی مگر وہ بین الاقوامی اور ملکی فوج اور مخالف سیاستدانوں کے گٹھ جوڑ کا مقابلہ نہیں کر سکے اس کے بعد ضیا، بے نظیر، نواز شریف، مشرف کے سیاسی ادوار میں نو لبرل ازم کے ایجنڈے نے ملک کو بین الاقوامی سرمایہ داروں اور لوکل سرمایہ داروں کے کارٹلز میں پھنسا دیا خوب قرضے لیے گئے کک بیکس اور پارٹنرشپس پر آئی پی پیز اور ملک کی منافع بخش انڈسٹریز اور مالیاتی اداروں کو سیھٹوں کے حوالے کر دیا گیا منی لانڈرنگ کے ذریعے ہمارے صاحب اقتدار اور طاقتور طبقات نے اربوں ڈالرز کے اثاثے بیرونی دنیا میں قائم کر کے ریاست کو کھوکھلا کر دیا ہے اب ویلفیئر سٹیٹ بننا تو دور کی بات پاکستان معاشی طور پر قرضوں کے بوجھ تلے اسقدر دب چکا ہے کہ وہ قرض دہندہ اداروں اور ممالک کا معاشی غلام بن چکا ہے آزادانہ معاشی فیصلے کرنے کی ہمیں اجازت نہیں ہے جو آئی ایم ایف، چین، گلف ممالک اور مغربی ممالک چائیں گے وہی کچھ ہمیں کرنا ہو گا اس ملک میں 71 فیصد قرضے اور 20 ہزار میگاواٹ بجلی کے پیداواری زائد یونٹس پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ ن نے لگائے خیا ل تھا کہ پاکستان چھ سے سات فیصد معاشی شرح نمو کے ساتھ پھلتا پھولتا رہے گا لہذا پاکستان آسانی سے غیرملکی قرضے واپس کر دے گا مگر نہ ہی ایکسچینج ریٹ مستحکم رہا، نہ ہی معاشی ترقی کی مطلوبہ شرح نمو حاصل ہوئی حکمران کھرب پتی ہوگئے ان کے آبا اجداد جو ننگ دھڑنگ تھے اب ان کی تیسری کدو نما نسل لندن دوبئی اور امریکہ کے محلوں میں رہ رہی ہے اور پاکستان کے دس کڑور افراد بمشکل دو ڈالرز روزانہ کی کمائی پر زندہ ہیں چالیس لاکھ نوجوان پر سال بیروزگاری کے جہنم میں گر رہے ہیں 2کڑوڑ 53 لاکھ 70 ہزار بچے سکولوں سے باہر ہیں 80 فیصد پاکستانیوں کو پینے کا صاف پانی اور ٹوائلٹ کی سہولیات میسر نہیں ہیں بجلی گیس، ٹرانسپورٹ اور روٹی علاج معالجہ کرانا عام آدمی تو درکنار اچھے خاصے سفید پوش افراد کے لیے ممکن نہیں رہا ہے کیا ہم نے اس دن کے لیے آزادی حاصل کی تھی؟ ہمارے چالیس لاکھ بزرگوں نے اپنی جانوں کا نذرانہ اس لیے تحریک آزادی میں پیش کیا تھا کہ یہ ملک ہندوں اور انگریزوں سے آزادی حاصل کرکے اولیگارکی کے چنگل میں پھنس جائے آج پاکستان ایک معاشرہ نہیں ہے اس معاشرے کے اندر کئی جزیرے آباد ہیں کوئی مانے یا نہ مانے معاشی، سماجی عدم مساوات اور عدل اجتماعی کا فقدان ہی پاکستان کی سالمیت کے لیے سب سے بڑا داخلی خطرہ ہے مگر حکمرانوں کے لیے ایک ہی ایجنڈا ہے کہ کسی طرح تین کڑور پڑھے لکھے افراد کی نمائندہ جماعت کا قلع قمع ہو جائے تو ان کا اقتدار سدا بہار قائم رہے گا ایسا ہم نے عوامی لیگ اور اس کے سربراہ کے متعلق بھی سوچا تھا مگر تاریخ کا یہ سبق ہے اس سے کوئی کچھ نہیں سیکھتا ہے 66 فیصد آبادی کے لیے نہ سیاست نہ ملازمت، نہ کاروبار، نہ انصاف، نہ عزت __تو پھر وہ جائیں تو جائیں کہاں ___ایک ہی راستہ ہے جو انتہا پسندی کو جاتا ہے