آئین سے ماورا عدالتی فیصلے … تحریر : مزمل سہروردی


ملک میں سیاسی اور آئینی بحران سنگین ہوتا جا رہا ہے۔ سیاسی محاذ آرائی میں بھی کمی نہیں آرہی ہے۔ اداروں کے درمیان تصادم بھی بڑھتا جا رہا ہے۔ اس تناظر میں لوگ مختلف قسم کی پیش گوئیاں بھی کر رہے ہیں۔ کسی کو مارشل لا نظرآ رہا ہے۔ کسی کو ایمرجنسی نظرآ رہی ہے۔ کسی کو یہ نظام چلتا نظر نہیں آرہا۔ تا ہم فی الحال کسی کے پاس کوئی پکا روڈ میپ نہیں ہے کہ آگے کیا ہوگا۔ لیکن ہر کسی کو یہ اندازہ ضرور ہے کہ کچھ بڑا ہوگا۔ کچھ ماورا آئین ہونے کی بھی توقع کی جا رہی ہے۔

اگر کوئی بھی ماورا آئین قدم اٹھائے گا تو سپریم کورٹ اس کو روکنے کے لیے موجود ہے۔ سپریم کورٹ ملک کو آئین وقانون کے مطابق چلانے کی چوکیدار ہے۔ اس لیے یہ کہا جا سکتا ہے کہ سپریم کورٹ ہر ماورا آئین کام کو روکے گی اور ملک میں جمہوریت کے تسلسل کو قائم رکھے گی۔ ملکی مسائل کا حل جمہوریت کی بساط لپیٹنے میں نہیں ہے۔ بلکہ جمہوریت کو مضبوط کرنے میں ہے۔ تا ہم اب ایک نئی بحث کا آغاز بھی ہو گیا ہے بحث کا بنیادی نقطہ یہ ہے ۔

ایک طرف ہم یہ کہتے ہیں کہ ملک کے آئین کو قائم رکھنا سپریم کورٹ کی ذمے داری ہے۔ لیکن دوسری طرف یہ سوال بھی موجود ہے کہ اگر سپریم کورٹ آئین سے تجاوز کر کے فیصلے دینا شروع کر دے تو کیا کیا جائے؟ یہاں یہ امر واضح کرنا چاہتا ہوں کہ آئین اور قانون کے تحت سپریم کورٹ کے فیصلوں پر تبصرہ اور تجزیہ کرنے کا حق شہریوں کو حاصل ہے۔

سپریم کورٹ ہی نہیں عدلیہ کے کسی بھی فیصلہ پر تبصرہ اور تجزیہ کرنا کوئی توہین عدالت نہیں ہے۔ آج ملک میں یہ بحث شروع ہے کہ کوئی بھی ادارہ آئین سے تجاوز کرے تو سپریم کورٹ اسے روک سکتا ہے۔ لیکن اگر سپریم کورٹ اپنے کسی فیصلے سے آئین سے تجاوز کرے یا تشریح کے اختیار کاسہارا لے کر نیا آئین لکھنے کی کوشش کرے تو کیا کیا جائے؟ پھر کسی کے پاس کوئی راستہ ہی نہیں ہے۔

اگر ماضی قریب میں دیکھا جائے تو ایک نہیں کئی ایسے فیصلے ہیں جن کے بارے میں یہ مضبوط رائے موجود ہے کہ ان فیصلوں میں آئین سے تجاوز کیا گیا ہے۔ ویسے تو سپریم کورٹ کی جانب سے جنرل باجوہ کی مدت ملازمت میں توسیع کے کیس میں جب پارلیمنٹ کو قانون سازی کرنے کے لیے چھ ماہ کی مہلت دی گئی تھی اور اس دوران جنرل باجوہ کو بطور آرمی چیف کام جاری رکھنے کی اجازت دی گئی تھی۔ یہ چھ ماہ کی مہلت کی آئین میں کوئی گنجائش نہیں تھی۔ اس لیے اسے بھی ماورائے آئین ہی کہا جاتا ہے۔

اسی طرح جب آئین کے آرٹیکل 63کی تشریح کی بات ہوئی تو سپریم کورٹ نے قرار دیا کہ پارٹی پالیسی کے خلاف ووٹ ڈالنے والے ارکان اسمبلی صرف نا اہل نہیں ہونگے بلکہ ان کے ووٹ بھی شمار نہیں کیے جائیں گے۔ جب آئین میں لکھا ہے کہ رکن اسمبلی ووٹ ڈالے گا پھر نا اہل ہو گا تو ووٹ شمار نہ کرنے کی بات کہاں سے آگئی۔

اب سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد آئین کی نئی شکل بن گئی ہے کہ ووٹ بھی شمار نہیں ہوگا اور نا اہل بھی ہوگا۔ اب ایک طرف سپریم کورٹ کا فیصلہ ہے دوسری طرف آئین ہے دونوں ایک دوسرے سے متصادم ہے۔ اسی طرح ضمنی انتخابات کے لیے وزیر اعلی کا انتخاب روکنا بھی آئین کے مطابق نہیں تھا۔ ایسا کہیں آئین میں نہیں لکھا ہوا کہ ضمنی انتخابات کے لیے وزیر اعلی یا وزیر اعظم کا انتخاب روکا جائے گا۔ منتخب وزیر اعلی کو نگران بنا دینا بھی کوئی آئینی فیصلہ نہیں تھا۔

لاہور ہائی کورٹ کی جانب سے الیکشن کمیشن سے مشاورت کے بغیر جو الیکشن ٹربیونل بنائے گئے۔ آئین میں اسے یہ اختیار حاصل نہیں ہے۔ سپریم کورٹ نے اس کیس میں بھی درمیانی راستہ ہی نکالا۔ لاہور ہائی کورٹ کے آئین سے تجاوز کرنے کے بارے میں کچھ نہیں کہا گیا۔ بس فیصلہ معطل کیا گیا۔

اس طرح ماورا آئین فیصلے کرنے کی حوصلہ افزائی ہوتی ہے۔ سمجھا جاتا ہے کہ کچھ بھی نہیں ہوگا۔ یہ تو لاہور ہائی کورٹ کا معاملہ تھا جو سپریم کورٹ سے معطل ہوگیا لیکن سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد تو کسی کے پاس کوئی آپشن ہی نہیں ہوتا۔ اب مخصوص نشستوں کے فیصلے میں آئین میں ارکان کو وفاداری کا فیصلہ کرنے کے لیے تین دن دیے گئے ہیں۔ لیکن عدالتی فیصلے میں مدت تین دن سے بڑھا دی گئی ہے۔

یہ رائے مضبوط ہے کہ مدت بڑھانے کا اختیار سپریم کورٹ کے پاس نہیں تھا۔ اس لیے یہ فیصلہ ماورا آئین ہے۔ یہ درست ہے کہ سپریم کورٹ سے توقع ہے کہ اس نے مکمل انصاف کرنا ہے۔ لیکن مکمل انصاف کی خاطر کیا آئین وقانون سے باہر جایا جا سکتا ہے؟ جب ایک سیاسی فریق کو مکمل انصاف دینے کے لیے آئین وقانون سے باہر نکل کر فیصلہ کیا جائے تودوسرا سیاسی فریق متاثر ہوتا ہے اور وہ سمجھتا ہے کہ عدالتی سہولت کاری کی گئی ہے جس سے ملک کے سیاسی منظر نامہ میں عدم استحکام پیدا ہوا ہے۔ سنی اتحاد کونسل کے کیس میں تحریک انصاف کو ریلیف ملنے کے حوالے سے بھی ایسی ہی توجیحات سامنے آرہی ہیں۔

سوال یہ ہے کہ کیا مکمل انصاف یا حقیقی زمینی حقائق کو سامنے رکھتے ہوئے سپریم کورٹ آئین وقانون سے باہر نکل کر کوئی فیصلہ کر سکتی ہے؟ میں سمجھتا ہوں عدالتوں کو زمینی سیاسی حقائق سے کوئی تعلق نہیں ہونا چاہیے۔ انصاف اندھا ہوتا ہے کی ضرب المثل کا مطلب یہی لیا جاتا ہے کہ ان کا باہر کی دنیا سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔

ججز نے صرف اپنے سامنے کیس اور آئین و قانون کو دیکھنا ہوتا ہے۔ جب جج صاحب کہتے ہیں کہ مجھے سب پتہ ہے تو و ہ جج نہیں رہتے۔ اگر انھیں کیس کے بارے پہلے سے کچھ معلوم ہے تو وہ مدعی فریق یا گواہ ہو سکتے ہیں جج نہیں ہو سکتے۔ جج نے صرف کیس کو سن کر اور آئین وقانون کے مطابق فیصلے کرنے ہیں۔ اگر آئین وقانون سے متجاوز فیصلہ کتنا بھی انصاف پر مبنی ہو اسے انصاف نہیں کہا جا سکتا وہ ماورا آئین ہی ہوگا۔

آج ملک کے سیاسی منظر نامہ میں سیاسی سٹیک ہولڈرز کے سامنے سوال یہ ہے کہ اگر سپریم کورٹ آئین سے متجاوز فیصلے دینا شروع کر دے تو آئین میں اسے روکنے کا کوئی قابل عمل میکنزم نہیں ہے۔ آپ کہیں گے نظر ثانی کی اپیل دائر کریں لیکن یہ آئین سے تجاوز کی سزا تو نہیں ہے۔ جس نے آئین سے تجاوز کیا ہے۔ اس کے پاس دوبارہ جانا بھی غیر منطقی سی آپشن لگتی ہے۔ شاید آئین سازوں کے ذہن میں آج کا منظرنامہ نہیں تھا اسی لیے ایسی صورت حال کا کوئی حل سامنے نہیں رکھا گیا۔عدالتی فیصلوں پر آرٹیکل چھ بھی نہیں لگ سکتی۔ اورپھر اس کا مقدمہ بھی عدالتوں نے ہی سننا ہے۔ اس لیے اس حوالے سے سب بند گلی میں ہیں۔

بشکریہ روزنامہ ایکسپریس