مارکیٹ میں بِکتے سودے میں نظر انداز ہوتے دہشت گردی کے محرکات … تحریر : نصرت جاوید


خیبرپختونخواہ کے چند صحافی دوست جن کی دیانت اور قوت مشاہدہ کو میں سنجیدگی سے لیتا ہوں گزشتہ کئی ہفتوں سے بہت پریشان ہیں۔ دہشت گردی کے خلاف مختلف آپریشنوں کے دوران ان سے روابط استوار ہوئے تھے۔ وہ اس امر کو سراہتے کہ جوانی کے ایام گزرجانے کے باوجود میں اسلام آباد سے نکل کر ان مقامات تک پہنچ جاتا جوخطرناک تصور ہوتے تھے۔ برسر زمین موجود رہ کر وہاں کے حالات کو ان دوستوں کی معاونت ہی سے سمجھ پایا۔ وہ نہ ہوتے تو شاید بے شمار غیر ملکی صحافیوں کی طرح دہشت گردی کی زد میں آئے علاقوں میں چند دن گزارنے کے بعد سطحی علم تک محدود رہتا۔ ان دوستوں نے دہشت گردی کے کلیدی اسباب کے علاوہ اس کے مختلف پہلو بھی سمجھنے میں مدد دی۔
تمہید لمبی ہوگئی۔ مختصر بات یہ ہے کہ مذکورہ دوست پریشان تھے۔ فون پر رابطے کے بعد لمبی گفتگو کا موقعہ ملتا تو فکرمندی سے اصرار کرتے کہ ان کے صوبے میں دہشت گردعناصر ایک بار پھر متحرک ہورہے ہیں۔ اب کی بار ان کی دانست میں گزرے دنوں کے قبائلی علاقوں کے برعکس دہشت گردوں کی توجہ خیبرپختونخواہ کے جنوبی اضلاع پر مرکوز دکھائی دیتی ہے۔بنوں اور ڈیرہ اسماعیل خان کا اس تناظر میں خصوصی ذکر ہوتا۔ میرے دوست جو خدشات بیان کرتے رہے ان کا ذکر مگراس کالم میں تین سے چار بار ہی کرپایا۔
یہ لکھنے کے بعد واضح طورپر یہ بیان کرنا بھی لازمی ہے کہ مجھے نوائے وقت کی مدیر کی جانب سے ایسی کوئی ہدایت نہیں ملی تھی کہ میں خیبرپختونخواہ میں دہشت گردی کی واپسی کی بابت بڑھتے ہوئے خدشات کا ذکر نہ کروں۔صحافیوں کو ایک اور مرکز سے بھی رہ نمائی ملتی۔ میں بدنصیب مگر اس سے کبھی فیض یاب نہیں ہوپایا۔اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ عمر کے جس حصے میں پہنچ چکا ہوں وہاں انسان خود کو بندے کا پتر بنانے کے قابل نہیں رہتا۔ ویسے بھی یہ فرض کرلیا گیا ہے کہ ان دنوں عوام کی ذہن سازی اخبارات کے لئے محتاط زبان میں لکھنے والے فرسودہ قلم گھسیٹوں کے بس کی بات نہیں رہی۔ لوگوں کے موبائل فونوں تک یوٹیوب وغیرہ کے ذریعے براہ راست پہنچنے والے صحافیوں کے خیالات ہی قابل توجہ گردانے جاتے ہیں۔
سوال اٹھتا ہے کہ اگر میرے یا کسی ریاستی ادارے نے مجھے خیبرپختونخواہ میں دہشت گردی کی واپسی کے امکانات بیان کرنے سے نہیں روکا تو میں ان کے ذکر سے کنی کیوں کتراتا رہا۔مذکورہ سوال کا دیانتدارانہ جواب یہ ہے کہ نام نہاد تجربے نے سیلف سنسر شپ کو مائل کردیا ہے۔ اس سے بھی اہم تر یہ حقیقت رہی کہ اپنے لکھے کی ستائش کے بارے میں بے اعتنائی کا ڈھونگ رچانے کے باوجود میں ہفتے کے پانچ دن صبح اٹھنے کے بعد لاشعوری طورپر ان موضوعات پر ہی یہ کالم لکھنا شروع ہوجاتا ہوں جو مارکیٹ میں بک رہے ہوتے ہیں اور گز شتہ کئی دنوں سے نظر بظاہر ہمارے قارئین وناظرین کی اکثریت محض یہ جاننا چاہ رہی تھی کہ تحریک انصاف کو قومی اور صوبائی اسمبلیوں میں خواتین اور غیر مسلم پاکستانیوں کے لئے مختص حصہ میں سے اِس کے کم ازکم اس جثے کی مناسبت سے نشستیں مل پائیں گی یا نہیں جو 8فروری 2024 کے انتخابات کے بارے میں سنائے نتائج کے ذریعے نمایاں ہوا۔ منہ کا ذائقہ بدلنے کے لئے اگرچہ ایک دوبار امریکی صدارتی انتخابات کا ذکر بھی کردیا۔
ملک کی اعلی ترین عدالت میں مذکورہ قضیہ طے کرنے کے لئے ٹی وی سکرینوں پر براہ راست دکھائی کارروائی شروع ہوئی تو عدالتی کارروائی پرکڑی نگاہ رکھنے والوں نے ایک سازش دریافت کرلی۔ ہمیں خبر ملی کہ شہباز حکومت تحریک انصاف کو اس کا حق فراہم کرنے کو ہرگز تیار نہیں۔ الیکشن کمیشن نے خواتین اور غیر مسلم پاکستانیوں کے لئے مختص نشستیں حکمران جماعت اور اس کے اتحادیوں میں بانٹ دی تھیں۔ اس بندر بانٹ کے نتیجے میں شہباز حکومت کو دو تہائی اکثریت میسر ہوگئی۔ جان کی امان پاتے ہوئے یہ لکھنا بھی ضروری ہے کہ تواتر سے کہانی یہ پھیلی کہ دو تہائی اکثریت کا فائدہ اٹھاتے ہوئے شہباز حکومت آئین میں ایسی ترامیم کرنا چاہ رہی ہے جس کا اولین فائدہ موجودہ چیف جسٹس صاحب کو ان کی میعادِملازمت میں توسیع کی صورت ملے گا۔ ان کے ساتھی ججوں کی اکثریت مگر بتدریج مبینہ طورپر اس گیم کو ناکام بنانے کو ڈٹ گئی اور بالآخر 8عزت مآب ججوں کے یکجا ہونے کی وجہ سے گزشتہ جمعہ کو جو فیصلہ سنایا گیا اس نے حکومت کو حواس باختہ بنادیا۔ اب مذکورہ فیصلے پر عملدرآمد نہ کرنے کے منصوبے بنائے جارہے ہیں۔ حتی کہ تحریک انصاف کو وطن دشمن جماعت ٹھہراکر اس کے خلاف پابندی لگانے کی تیاریاں بھی ہیں۔
1975 سے اسلام آباد میں مقیم ہوں۔ دس سال گزرجانے کے بعد غیر جماعتی انتخابات کے ذریعے جمہوریت بحال ہونے کا ناٹک لگا۔ اس کے بعد محلاتی سازشوں کی بدولت حکومتیں آتی اور جاتی رہیں۔ اکتوبر1999 میں جنرل مشرف کا مارشل لا بھی آگیا۔ وہ 2008 تک ہمارے طاقت ور ترین صدر رہے۔ موصوف بالآخر اپنے عہدے سے مستعفی ہوکر دوبئی چلے گئے۔ ان کے بعد محلاتی سازشیں بھی بتدریج ہماری سیاست میں لوٹ آئیں۔ ضرورت سے زیادہ متحرک رپورٹر ہوتے ہوئے میں اکثر ان سازشوں کی خبردینے میں دیگر ساتھیوں سے بازی لیتا نظر آتا۔ بالآخر تھک گیا۔ اپنے گھر تک محدود ہوچکا ہوں۔ صحافت مگراحمد فراز کی بتائی محبت کی طرح وہی انداز پرانے کی طلب گار ہوتی ہے۔ہر تھکے ہارے شخص کی طرح روز کی روٹی روز کمانے کے چکر میں مارکیٹ میں بکتے سودے کے بارے میں وکھری نوعیت کی توجیہات ڈھونڈنے کی کوشش کرتا ہوں۔
خیبرپختونخواہ سے پرخلوص دوستوں کی مہربانی کے طفیل جو اطلاعات آرہی تھیں انہیں اس کالم میں بنیادی طورپر کاہلی اور مارکیٹ میں بکتے سودے میں اپنا حصہ ڈالنے کے لالچ میں تفصیلات سے بیان نہیں کرپایا اور حال ہی میں بنوں میں دہشت گردی کا جو واقعہ ہوا ہے اس نے شدید احساس جرم میں مبتلا کردیا ہے۔ اپنی کاہلی اور کسی حد تک صحافیانہ غیر ذمہ داری کے اعتراف کے باوجود یہ سوال اٹھانا بھی مگر لازمی ہے کہ ہمارے نام نہاد مین سٹریم کے سٹار کہلاتے کتنے صحافیوں نے خیبرپختونخواہ میں دہشت گردی کی بڑھتی لہر پر کماحقہ توجہ مبذول کی ہے۔مان لیتے ہیں کہ پیمرا کے قواعد وضوابط میں جکڑے مین سٹریم میڈیا کی حد محدود سے محدود تر ہورہی ہے۔ یوٹیوب پر حق وصداقت کا برملا اظہار کرنے والے جی دار بھی لیکن اس موضوع کو کیوں نظرانداز کئے ہوئے ہیں؟

بشکریہ روزنامہ نوائے وقت