نظریہ ضرورت کا نیا ایڈیشن … تحریر : الطاف حسن قریشی


12 جولائی 2024 ہماری قومی زندگی میں اِس لیے غیرمعمولی اہمیت اختیار کر گیا ہے کہ اس روز ہماری عدالتِ عظمی نے 8اور 5کی نسبت سے ایک ایسا فیصلہ صادر کیا ہے جس سے چیف جسٹس محمد منیر کا نظریہ ضرورت ایک نئی شکل میں زندہ ہو گیا ہے۔ ایک طبقہ فکر اِسے جمہوریت کی فتح قرار دے رہا ہے اور ان آٹھ معزز جج صاحبان کو مبارک باد پیش کر رہا ہے جنہوں نے مقتدرہ کے خلاف بغاوت کر دی ہے۔ اِس فیصلے کے حق میں یہ دلیل دی جا رہی ہے کہ جج صاحبان نے قانون کے الفاظ کے بجائے اس کی روح اور منشا کے عین مطابق فیصلہ دیا ہے۔ اِس مقدمے میں پی ٹی آئی درخواست گزار نہیں تھی مگر معزز جج صاحبان نے جمہوری تقاضوں کو محسوس کرتے ہوئے جو حق تحریکِ انصاف کا بنتا تھا، وہ اسے دے دیا ہے۔ اِس طرح وہ اِبہام کلی طور پر ختم ہو جائے گا جو تحریکِ انصاف کو بلے کے انتخابی نشان سے محروم کرنے کے باعث پیدا ہوا تھا۔

اِس چونکا دینے والے عدالتی فیصلے پر بہت لے دے بھی ہو رہی ہے کہ اِس میں الیکشن کمیشن کو ایک طرح سے چارج شیٹ کیا گیا ہے جو ایک آزاد آئینی ادارہ ہے۔ اس نے الیکشن ایکٹ کے تحت پاکستان تحریکِ انصاف کی قیادت کو باربار یاددہانی کرائی تھی کہ قانون کی رو سے وہ شفاف انٹراپارٹی الیکشن منعقد کرائے تاکہ سیاست میں جمہوریت مستحکم ہوتی جائے، مگر اس نے اِس طرف کوئی توجہ نہیں دی اور عجلت میں جو اِنتخابات کرائے، وہ کسی طور شفاف نہیں تھے، چنانچہ جب نئے عام انتخابات کا مرحلہ قریب آیا، تو الیکشن کمیشن نے تحریکِ انصاف کو اس کا انتخابی نشان بلا الاٹ کرنے سے انکار کر دیا۔ تحریکِ انصاف نے پشاور ہائی کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹایا جس کے پانچ رکنی بینچ نے متفقہ فیصلہ دیا کہ الیکشن کمیشن کا فیصلہ درست ہے۔ اِس کے خلاف تحریکِ انصاف سپریم کورٹ میں چلی گئی۔ فاضل چیف جسٹس جناب قاضی فائز عیسی نے مقدمے کی غیرمعمولی اہمیت کے پیشِ نظر فل کورٹ اجلاس طلب کر لیا جس کی مکمل کارروائی ٹیلی ویژن پر دکھائی جاتی رہی۔ اس میں چیف جسٹس صاحب تحریکِ انصاف کے وکلا سے پوچھتے رہے کہ کوئی ایسی دستاویز دکھائی جائے جس سے انٹراپارٹی انتخابات کے شفاف ہونے کا ثبوت دستیاب ہو، مگر وہ ایک بھی ثبوت پیش نہ کر سکے۔ ٹیلی ویژن پر ایک دنیا دیکھ رہی تھی کہ انٹراپارٹی انتخابات بالکل بوگس تھے، چنانچہ سپریم کورٹ نے 13 جنوری 2024 کو یہ فیصلہ صادر کیا کہ تحریکِ انصاف کو بلے کا انتخابی نشان الاٹ نہیں کیا جا سکتا۔ یہ فیصلہ ہر نوع کے ابہام سے پاک تھا، چنانچہ الیکشن کمیشن نے اِس پر دیانت داری سے عمل درآمد کیا۔ اب 12 جولائی کے اکثریتی فیصلے میں الیکشن کمیشن پر یہ الزام عائد کیا گیا ہے کہ اس نے سپریم کورٹ کے فیصلے کی غلط تشریح کی ہے۔

12 جولائی کے فیصلے سے متعلق کچھ اور سوالات بھی اٹھائے جا رہے ہیں جن سے اِس تاثر کو تقویت مل رہی ہے کہ قانون اور آئین سے کہیں زیادہ کچھ دوسرے عوامل غالب رہے ہیں جن کے سبب یہ عدالتی فیصلہ حددرجہ حیران کن دکھائی دے رہا ہے۔ آٹھ معزز جج صاحبان جنہوں نے اکثریتی فیصلہ تخلیق کیا ہے، انہوں نے تحریکِ انصاف کی غلطیوں کا بھی مداوا کر دیا ہے اور یہ واضح تاثر دیا ہے کہ ان کی تمام تر ہمدردیاں اسی سیاسی جماعت کے ساتھ ہیں اور وہ اس کی عوامی مقبولیت سے خوفزدہ ہیں۔ سنجیدہ تجزیہ نگاروں کی نظر میں ان کی یہ روش قوم کو نئے بحرانوں سے دوچار کر سکتی ہے۔ پاکستان کی سب سے اعلی عدالت کا اِس طرح تقسیم ہو جانا کسی طرح بھی نیک شگون محسوس نہیں ہوتا۔ فاضل چیف جسٹس کے خلاف ایک محاذ بن گیا ہے۔ اِس تقسیم کے برے اثرات نیچے تک جا سکتے ہیں اور پورا عدالتی ڈھانچہ مفلوج ہو سکتا ہے۔ خدشہ یہ ہے کہ جو حلقے اِس عدالتی فیصلے کو اپنی فتح قرار دے رہے ہیں، ان کی طرف سے دوسرے اداروں پر بھی دباو بڑھنا شروع ہو جائے گا جو اِقتدار کی اندھی جنگ میں بھی تبدیل ہو سکتا ہے۔

اِس عدالتی فیصلے کے خلاف مسلم لیگ نواز کے کارکنوں کا ردِعمل اسی وقت سامنے آ گیا تھا جب عدالتِ عظمی میں اکثریتی فیصلہ سنایا جا رہا تھا۔ انہوں نے اسلام آباد ہائی وے بند کر دی تھی، مگر قیادت نے قدرے تحمل کا ثبوت دیتے ہوئے فوری ردِعمل ظاہر کرنے سے گریز کیا اور مشاورت کے بعد نظرثانی کی درخواست دائر کرنے کا فیصلہ کیا۔ پہلے خبر آئی کہ نوازشریف یہ درخواست دائر کریں گے، مگر اب یہ اعزاز وفاقی وزیرِاطلاعات کے حصے میں آ رہا ہے۔ انہوں نے اپنی پریس کانفرنس میں قومی سلامتی کی خاطر چار اقدامات کا بھی اعلان کیا ہے جن میں تحریکِ انصاف پر پابندی لگانے کا فیصلہ بھی شامل ہے۔ اِس پر سیاسی حلقوں میں ایک نئی بحث شروع ہو گئی ہے۔ بیشتر سیاسی جماعتوں نے تحریکِ انصاف پر پابندی عائد کرنے کو جمہوریت اور ملکی بقا کیلئے ناموزوں قرار دِیا ہے، تاہم اِس طرح کی آوازیں بھی سننے میں آ رہی ہیں کہ تحریکِ انصاف اور پاکستان ساتھ ساتھ نہیں چل سکتے۔ ایک زمانے میں یہی بات پیپلزپارٹی کے بارے میں کہی جاتی تھی۔ یہ سوچ انتہاپسندی کی علامت ہے۔

وزیرِاطلاعات نے حکومت کی طرف سے یہ عندیہ بھی دیا ہے کہ سپریم کورٹ کے ایک فیصلے پر عمل درآمد کرتے ہوئے سابق وزیرِاعظم عمران خان، سابق صدرِ مملکت جناب عارف علوی اور سابق ڈپٹی اسپیکر قومی اسمبلی قاسم سوری کے خلاف آئین کی شق 6 کے تحت بغاوت کا مقدمہ چلایا جائے گا۔ غالبا اربابِ حکومت اِس حقیقت سے نظریں چرا رہے ہیں کہ سپریم کورٹ اب انتظامیہ کے کسی سخت اقدام کی تائید نہیں کرے گی۔ اِس تبدیلی کی بدولت ہمارے بعض معروف تجزیہ نگار یہ دیکھ رہے ہیں کہ اب کوئی حادثہ ہی عمران خاں کی رہائی اور انہیں اقتدار میں آنے سے روک سکے گا۔ اِن تجزیوں کو پڑھنے کے بعد ایک دانش مند بزرگ سے ملاقات ہوئی۔ وہ کہہ رہے تھے جس پارٹی نے شہدا کی یادگاریں مسمار کیں اور لابنگ کے ذریعے امریکی ایوانِ نمائندگان کی طرف سے پاکستان کے خلاف ایک بھاری بھر قرارداد منظور کرائی، اس کا جذباتیت کی لہروں پر سوار ہو کر اِقتدار میں آنا خود ایک بہت بڑا سانحہ ہو گا۔

بشکریہ روزنامہ جنگ