چار صحافیوں کی عظیم ماں : تحریر : محمد اظہر حفیظ


میری ملاقات ماں جی سے نہیں ہوئی پر ان کے وجود کے حصوں سے بیشتر ملاقات رہی۔ اسد ساہی بھائی جس کی ساری دنیا کو تعریف کرتے ہی سنا اور ہر انسان کا وہ بڑا بھائی تھا اللہ تعالیٰ انھیں غریق رحمت فرمائے آمین ماں جی کی زندگی میں ہی اسد بھائی اگلے جہاں کوچ کرگئے۔ ماں جی نے اس دکھ کو برداشت کیا اور چند سالوں بعد اسد ساہی بھائی کی زوجہ محترمہ ہماری بھابھی بھی ان کے پاس اگلے جہاں چلی گئیں اللہ تعالیٰ دونوں کیلئے آسانی فرمائے آمین ۔ جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے آمین
ماڑی پیٹرولیم کی ایک اسائنمنٹ تھی ہماری ٹیم میں نوخیز ساہی نامی ایک نوجوان بھی تھا بہت تمیز سے محبت سے ملا جب پتہ چلا اسد ساہی بھائی کا بھائی ہے تو سینے سے لگا لیا۔ ٹھنڈ اسد ساہی بھائی والی ہی تھی۔
نوخیز کی گفتگو اور اٹھنا بیٹھنا ماں باپ کی تربیت کا پتہ بتا رہا تھا۔ ہر چیز ترتیب میں تھی۔ بات چیت میں ناپ تول کیا بات ہے۔
میجر عامر جو ماڑی پیٹرولیم کے میڈیا کو دیکھتے تھے ہمارے مشترکہ بھائی اور دوست تھے۔
انکی بیٹی کی شادی تھی تو وہاں نوخیز کی جگہ عون ساہی بھائی سے طویل ملاقات رہی۔ سارے ڈاکخانے ایک ہی تھے ماسوائے گھر کے ایڈریس کے۔ انکل آئی اے رحمن، بھائی اشعر رحمن اور بہت سے تعلق مشترکہ تھے۔ اب اکثر ملاقات رہنے لگی۔ ان دنوں وہ چینل 24 کے بیورو چیف تھے پھر عون بھائی نےطبعیت کی خرابی کی وجہ سے چیننل چھوڑ دیا اکثر رابطہ رہتا۔ پھر اللہ نے صحت دی اور پھر ملاقاتیں شروع ہوگئیں۔انکی محبت انھوں نے اسد بھائی اور اشعر رحمن بھائی کی وجہ سے ہمیشہ بڑے بھائی کی طرح محبت اور عزت دی۔ وقت گزر رہا تھا اور ایک دن عون ساہی بھائی نے پاکستان ٹیلی ویژن جوائن کر لیا۔ وہ مختلف عہدوں پر رہے۔ انکی والدہ محترمہ صاحبہ کی اچھی تربیت تھی کہ کبھی بھی ہمارے بھائی چارے اور دوستی میں عہدے حائل نہیں ہوئے۔ اسد ساہی بھائی، عون ساہی بھائی ، نوخیز ساہی بھائی سب کے سب لباس اور زبان میں ہمیشہ نستعلیق ہی دیکھے یہ سب انکی والدہ مرحومہ کی تربیت تھی جو ہمیشہ نظر آتی ہے علی ساہی بھائی سے کبھی شرف ملاقات حاصل نہیں ہوسکا۔
پاکستان ٹیلی ویژن میں میں نے جب بھی عون ساہی بھائی سے درخواست کی انکی محبت جلد یا بدیر انھوں نے اس کو عملی جامہ پہنایا۔ جن سے عون بھائی کا اختلاف ہوتا کئی دفعہ میں کہہ دیتا بھائی بندہ ویسا نہیں ہے جیسا آپ سمجھ رہے ہیں۔ اور اکثر وہ بعد میں مجھ سے اتفاق کرتے۔
کچھ اہم پوسٹوں کیلئے میں نے دو لوگ تجویز کیے ۔ ایک دن ہنس کر کہنے لگے بھائی جان بندے دونوں 1122 ہیں چوبیس گھنٹے دستیاب اور حاضر ۔
زندگی کے تمام پہلوؤں پر اکثر ہم گفتگو کرتے تھے شرارت بھی کرتے تھے سب چل رہا تھا۔ پھر پاکستان ٹیلی ویژن سے عون ساہی بھائی چلے گئے لیکن ہمارے رابطے اسی طرح استوار ہیں الحمدللہ کچھ ماہ پہلے ہم نے ساتھ کھانا کھایا آغا اقرار کی دعوت تھی فیضی بھائی، عون ساہی بھائی اور شکیل اعوان بھائی ہم ساتھ تھے خوب مزے دار ڈنر ہوا اور گفتگو کمال ہوئی۔
دو دن پہلے عون بھائی نے کوئٹہ کی تصاویر شئیر کیں۔ میں دیکھ رہا تھا کہ آغا اقرار بھائی کا فون آیا کہ یار عون ساہی صاحب دی والدہ محترمہ انتقال فرما گئیں ہیں دلی افسوس ہوا ۔
انا للہ وانا الیہ راجعون ۔
یار تو جانا اے ڈسکہ بھائی دل تو بہت ہے پر میری صحت اجازت نہیں دیتی ۔ کوشش پھر بھی کروں گا۔ پر نہیں جاسکا۔
مجھے تاحیات دکھ رہے گا کہ اتنی عظیم ماں جس نے پاکستان کو چار اعلیٰ درجہ کے صحافی دئیے میں ان کے جنازے میں شریک نہیں ہوسکا۔
اللہ تعالیٰ ماں جی کو جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے آمین اور لواحقین کو صبر جمیل عطا فرمائے آمین
سب دوستوں سے دعاؤں کی درخواست ہے ۔
ماں جی آپ کو ہم سب بیٹوں کا دعاؤں بھرا سلام