تم قتل کرو ہو کہ کرامات کرو ہو : تحریر ڈاکٹر صغریٰ صدف


حق و باطل کے معرکے میں حق کے سرخرو ہونے کا مہینہ ہے ، پیغام بڑا مختصر ہے کہ حق اور سچ کے رستے سے کبھی ادھر اْدھر نہیں ہونا چاہیے ، ہر حالت میں نتیجے کی پروا کئے بغیر حق قول و فعل میں نظر آنا چاہیے ۔باطل کو رائج کرنے میں خاموش رہ کر مددگار بننے کی بجائے سب کچھ نثار کر کے نظریے کی حفاظت کرنی چاہیے ، زندگی تو ختم ہونے والی ہے ، نظریہ اگر سمجھوتے ، دنیاداری ، مفاد پرستی اور خوف کی بھینٹ چڑھ جائےتو معاشرے میں غیرانسانی اور باطل روئیے اور روایتیں جنم لینے لگتی ہیں جو دنیا کی خوبصورتی کو گہنانے اور روحوں کو مضمحل کرنے لگتی ہیں ۔ مجھے لگتا ہے ہمیں کسی وقت رک کر اپنے لفظوں ،سوچ اور عمل کا موازنہ کرنا چاہیے ۔دیکھنا چاہیے کہ جن سنہری اصولوں کی پاسداری کا عہد کرتے رہتے ہیں وہ ہماری عملی زندگی میں ہمارے ہمراہ ہیں یا الماری میں سجے ہیں ،یہ کام عالمگیر سچائیوں کے ضابطے کی کتاب میں رقم اصولوں سے مطابقت اور مخالفت پر نشان لگا کر بھی کیا جا سکتا ہے ۔اس کے بعد آئینے کے سامنے کھڑے ہو کر اپنی آنکھوں کو غور سے دیکھیں ، اپنے چہرے پر پھیلی بے چینی یا گہرے اطمینان کا تاثر تلاش کریں ، آپ کا اصل آپ کے سامنے آجائے گا ، اگر معاملات متضاد ہوں تو اسی وقت محاسبے کا تہیہ کرلیں زندگی سنور جائے گی ۔پسند ناپسند کو ایک طرف رکھ کر عالمی سچائی کو اوڑھ لیں ، کمپیوٹر جس انسان کی ایجاد ہے وہ اپنے وجود میں پہلے سے موجود سسٹم کو وقت کی زبان اور رفتار کے مطابق بہتر ڈھال سکتا ہے ، خیر کو متحرک اور شر کو خاموش کرکے واقعتاً نیک اور مثبت زندگی جی سکتا ہے ۔لیکن کنٹرول والا بٹن اس کی رسائی میں ہونا چاہیے، کسی اور کے ہاتھ میں نہیں،جب انسان اپنے نظام سے کٹ جاتا ہے تو دوسروں کا محتاج ہوتا جاتا ہے۔ غور کریں اس وقت ہم بحیثیت قوم شدید محتاجی اور غلامی کے کربناک دور سے گْزر رہے ہیں، حْب الوطنی کے دعویدار سامان پیک کر کے اْڑنے کو بے تاب، جہاں سخت اور ناپسندیدہ کام کرلیں گے مگر اپنی زمین میں چھپے موتی تلاشنے کے لئے ہل نہیں بنائیں گے۔ شاید مائیں مٹی سے جڑت اور اپنائیت کی گْڑھتی دینا بھول گئیں یا تربیت میں کوتاہی ہوگئی ۔ایک نسل ٹریک سے ہٹی تو پھر سب ایسے ہجوم کا حصہ بنتے گئے جہاںمادیت کا راج ہے ، قدریں اور اصول ثانوی حیثیت رکھتے ہیں۔ اب ہم دنیا میں ایک ایسی قوم کے طور پر متعارف ہو چکے ہیں جن کے قول و فعل میں تضاد ہے جہاں جہالت کو پروان چڑھانے کی کھلی اجازت ہے، لوگوں نے عقیدے، علاقے اور زبان کے خیمے تلے مختلف ریاستیں قائم کر رکھی ہیں، نوجوان نئے علوم سے بہرہ ور ہو کر تحقیق و ایجادات کرنے کی بجائے نئے صوبے اور الگ ملک بنانے کی تگ و دو میں بھٹک رہے ہیں ، زیادہ تر لوگ فارغ ہیں اس لئے دوسروں کو برابھلا کہنے کو کام سمجھ کر کرتے ہیں، حق و باطل کے معرکے سے ہر شخص نے اپنے لئے حسین رضی اللہ عنہ اور مخالف کے لئے یزید کا کردار منتخب کر رکھا ہے۔ مخالفت برداشت کرنے کا رواج ہی نہیں ، ہجوم کی حکمرانی کا رواج ہے وہ بھرے بازار میں کسی نہتے کو قتل کرنا، املاک جلانا ، رستے بلاک ، ہسپتال بند کرانا چاہے تو کوئی ان کے لئے رکاوٹ نہیں بن سکتا، ہر گھڑی کسی نہ کسی کے ہاتھوں یرغمال رہنے اور سمجھوتے کرنے والی ریاست ماں کھڑکی سے سب دیکھ رہی ہے مگر کسی کو روک نہیں سکتی ۔ وہ صرف مالدار ملکوں سے قرض کے حصول اور بجلی پانی کے بلوں کی وصولی پر مامور ہے۔لوگوں کی تفریح اور دھیان باندھے رکھنےکے لئے اعلیٰ سرکس مختلف کرتب دکھاتا سب کو حیران کرتا رہتا ہے۔بڑا دیالو ہے کسی کو مایوس نہیں ہونے دیتا ، بہرحال ہم حق پر بات کر رہے تھے تو اس حوالے سے یہ غزل پڑھیں ، شاعر کلیم عاجز نے محبوبیت کا رنگ اوڑھے شکووں بھری یہ غزل 15 اگست 1975 کو دلی میں وزیراعظم اندرا گاندھی کے سامنے پڑھی ۔ہم بھی یہ غزل اْن کے لئے سمجھ لیتے ہیں جو ازل سے محبوبیت کے درجے پر فائز ہیں اور ہمارے شکوے کا بالکل برا نہیں مناتے۔

میرے ہی لہو پر گزر اوقات کرو ہو

مجھ سے ہی امیروں کی طرح بات کرو ہو

دن ایک ستم ایک ستم رات کرو ہو

وہ دوست ہو دشمن کو بھی تم مات کرو ہو

ہم خاک نشیں تم سخن آرائے سر بام

پاس آ کے ملو دور سے کیا بات کرو ہو

ہم کو جو ملا ہے وہ تمہی سے تو ملا ہے

ہم اور بھلا دیں تمہیں کیا بات کرو ہو

یوں تو کبھی منہ پھیر کے دیکھو بھی نہیں ہو

جب وقت پڑے ہے تو مدارات کرو ہو

دامن پہ کوئی چھینٹ نہ خنجر پہ کوئی داغ

تم قتل کرو ہو کہ کرامات کرو ہو

بکنے بھی دو عاجزکو جو بولے ہے بکے ہے

دیوانہ ہے دیوانے سے کیا بات کرو ہو

بشکریہ روزنامہ جنگ