پنجابی جیالا بنام صدر زرداری !! : تحریر سہیل وڑائچ


کچی آبادی، بھٹو نگر

پیارے صدر زرداری صاحب!

میں ایک گم نام جیالا ہوں۔ نہ کبھی پارٹی کا عہدیدار رہا، نہ کبھی کوئی منصب طلب کیا، نہ ہی کسی مفاد کا خواہش مند ہوں، فخرِ ایشیا ذوالفقارعلی بھٹو نے جس پامردی سے جان دی اس نے مجھے جیالا بنا ڈالا۔ بے نظیر بھٹو اپنےباپ کی تصویر تھی اس نے اپنے مخالفوں اور باپ کے قاتلوں سے انتقام لئے بغیر انتخابی سیاست میں انہیں شکست دیکر ثابت کیا کہ جمہوریت ہی بہترین انتقام ہے۔ یہ خط لکھنے کا مقصد صرف حالات حاضرہ پر آپ کو اپنا تبصرہ پیش کرنا ہے۔

جناب صدر!

پچھلے دنوں آپ نے لاہور کا دورہ کیا، میں تصویریں دیکھ کر حیران رہ گیا کہ ملک کے آئینی سربراہ کا استقبال اس کی اتحادی جماعت کی وزیراعلیٰ نے خود نہیں کیا بلکہ اپنے صرف ایک صوبائی وزیر کو بھیج دیا۔ انہوں نے بعد میں آپ کے قیام کے دوران آپ کو کرٹسی کال کرنا بھی مناسب نہ سمجھا۔ مجھے یاد ہے کہ جب نوازشریف نے بطور وزیراعظم سندھ کا دورہ کیا تھا تو وزیراعلیٰ سندھ ان کے ساتھ ساتھ تھے آپ کی ہدایت پر بلاول بھٹو نےخاص طور پر خود جا کر نوازشریف کا استقبال کیا تھا۔ مجھے علم ہے کہ آپ کا دل بہت بڑا ہے اور آپ نے پنجاب حکومت کی اس بے اعتنائی کا برا بھی نہیں منایا ہوگا مگر اس طرز عمل سے میرا دل کھٹا ہوگیا ہے۔ ہونا تو یہ چاہئ تھا کہ ساری صوبائی کابینہ ایئرپورٹ پر جاکر آپ کا استقبال کرتی آپ کو بحیثیت اتحادی پنجاب حکومت کی کارکردگی پر بریفنگ دی جاتی مگر ایسا کچھ بھی نہ کیا گیا بلکہ آپ ناراض نہ ہوں تو کہہ دوں کہ آپ کو نظرانداز کیا گیا ہے۔

مجھے اندازہ ہے کہ وفاقی بجٹ پر آپ اور آپ کی جماعت سے کوئی مشورہ نہیں کیا گیا، پیپلزپارٹی چاہتی تھی کہ زراعت اور زرعی صنعتی شعبے کو ترقی دی جائے مگر وفاقی حکومت کی ترجیح صنعت ہے۔ زرعی ٹیکس پر بھی آپ کےتحفظات تھے مگر آپ نے اسے بھی کڑوی گولی خیال کرتے ہوئے نگل لیا۔ نج کاری کے حوالے سے بھی آپ کے نونی حکومت سے اختلافات ہیں آپ پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ کو نج کاری سے بہتر قرار دیتے ہیں اور سندھ حکومت پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ کے تحت کئی کامیاب منصوبے مکمل کر چکی ہے حتیٰ کہ بہت ساری سڑکیں بھی نجی شعبے نے تعمیر کی ہیں اور اس کے بعد نجی شعبہ ٹال ٹیکس کے ذریعے اپنی وصولی کر رہا ہے۔

جناب زرداری صاحب!

مجھے آپ سے بھی گلہ ہے کہ آپ کو مفاہمت کا بادشاہ کہا جاتا ہے۔ آج کل ملک بحرانوں میں گھرا ہے، آپ ہمہ وقت سرکاری مصروفیات میں شریک رہتے ہیں لیکن بحرانوں کے حل کےحوالے سے آپ مکمل طور پر خاموش ہیں، کیا پاکستان کو اس وقت مفاہمت کی ضرورت نہیں ہے؟ اگر ہے تو آپ کو کس چیز نے اس معاملے میں پہل کرنے سے روک رکھا ہے؟ آپ سے یہ گزارش بھی کرنی ہے کہ مہنگی بجلی نے عوام کا کچومر نکال دیا ہے جس طرح آپ کے پچھلے دور حکومت میں لوڈشیڈنگ نے لوگوں کو آپ سے ناراض کر دیا تھا اس بار نون لیگ مہنگی بجلی کی وجہ سے تیزی سے غیر مقبول ہو رہی ہے، غریب کی اتنی تنخواہ نہیں جتنا اس کا بجلی کا بل آ رہا ہے؟ مڈل کلاس نے جیسے تیسے کرکے سولر لگا لئے ہیں لیکن آج تک سولر کے حوالے سے کوئی واضح پالیسی نہیں بنائی جا سکی۔ سولر لگانے والے گھروں سے بہت سستی بجلی خریدی جاتی ہے اور انہیں مہنگی بجلی مہیا کی جا رہی ہے، حد تو یہ ہے کہ ایسی کوئی امید بھی نہیں دلائی جا رہی کہ بجلی کب سستی ہو گی؟ اور وہ کونسے ایسے اقدامات ہیں جو حکومت ،بجلی سستی کرنے کیلئے، کر رہی ہے؟۔

جناب صدر!!

آپ کو آپ کے نظریاتی مخالف ڈاکٹر مجید نظامی نے بہادری اور پامردی سے جیل کاٹنے کی وجہ سے ’’مردِ حر‘‘ کا خطاب دیا تھا۔ جس طرح آپ اور نواز شریف کو جیلیں کاٹنا پڑیں آج اسی طرح عمران خان اس عذاب میں مبتلا ہے، جناب آپ مردِ حر ہیں، آپ کو تو یہ احساس ہونا چاہئے کہ جو ظلم آپ کے ساتھ ہوتارہا وہ آپ ہی کی حکمرانی میں کسی اور سیاستدان کیساتھ کیوں ہو رہا ہے، آپ کی خاموشی جرم کے مترادف ہے آپ کو اس حوالےسے انسانی ہمدردی، جمہوریت اور انسانی حقوق کا خیال رکھتےہوئے اپنے تئیں بھرپور کوشش کرنی چاہیے اور یہ کوشش نظربھی آنی چاہیے تاکہ کل کو عمران خان کو جیل میں تادیر بند رکھنے کا الزام آپ پر نہ آئے۔ برسوں تک پیپلزپارٹی مقتدرہ کا نشانہ رہی، اسلئے اسے مظلوم سمجھا جاتا تھا اب یہی صورتحال تحریک انصاف کی ہے آج کی مظلوم پارٹی وہ ہے اور پنجاب کے عوام مظلوموں کیلئےہمیشہ سےہمدردی رکھتےرہے ہیں۔

محترم زرداری صاحب!

سندھ میں آپ کی پارٹی کی حکومت 15سال سے چل رہی ہے۔ سندھ پارٹی قیادت کے مستقبل کیلئے شوکیس کی حیثیت رکھتا ہے، اگرسندھ میں بہترین کارکردگی ہوگی تو پنجاب اور دوسرے صوبوں میں مثال دی جا سکے گی کہ پیپلزپارٹی نے سندھ میں کمال کر دکھایا ہے اور اگر موقع ملا تو پنجاب اور دوسرے صوبوں میں بھی ایسا ہی پرفارم کرے گی۔ سندھ کے وزیر اعلیٰ مراد علی شاہ بہت ہی قابل ہیں انہوں نے صحت کے شعبے میں سب صوبوں سے زیادہ بہتر کام کیا ہے۔ سندھ پاکستان کا وہ واحد صوبہ ہے جس نے اس سال تعلیم کیلئے 20 ارب سے زیادہ رقم مختص کی ہے، روڈ نیٹ ورک بھی بہت بہتر ہوگیا ہے، امن و امان کی بہتری پر بھی کنٹرول کیا گیا ہے مگر تمام تر قابلیت اور اہلیت کے باوجود مراد علی شاہ کا میڈیا کے ساتھ رابطہ بالکل عثمان بزدار کی طرح کا ہے۔ بزدار میڈیا سے ڈرتے تھے، سوالات کا سامنا کرنے سے کتراتے تھے بالکل یہی حال مراد علی شاہ کا ہے۔ سندھ حکومت بہت سے کام کرنے کےباوجود گونگی ہے کیونکہ مراد علی شاہ میڈیا میں رول ماڈل نہیں بن سکے۔ اگر پیپلز پارٹی نےسندھ سے باہر جگہ بنانی ہے تو مراد علی شاہ کو اپنی گونگی پالیسی تبدیل کرنا ہوگی اور بزدار کی بجائے عمران خان کے میڈیا ماڈل کو اپنانا ہوگا۔

اب آتے ہیں پنجاب کی سیاست کی طرف، اس وقت تو پنجاب میں تحریک انصاف اور نون لیگ میں ہی براہ راست مقابلہ ہے اسلئے سنٹرل اور نارتھ پنجاب میں پیپلز پارٹی کی جگہ ہی نہیں بن رہی اگر تو مڈٹرم الیکشن ہوئے تو تب بھی مقابلہ انہی دو جماعتوں میں ہوگا پیپلز پارٹی کو جنوبی پنجاب سے وہی نشستیں مل جائیں گی جو اس کے پاس ہیں تاحال نون لیگ ڈیلیور کرنے میں ناکام ہے اس لئے الیکشن ہوا تو تحریک انصاف کیلئے واک اوور ہوگا۔ یہ تلخ بات بھی کہنے دیجئے کہ 2008ءکےبعد سے پنجاب میں پیپلز پارٹی کو ایک بھی نیا ووٹر نہیں ملا ،سب ووٹر پہلے سے پیپلز پارٹی کیساتھ ہیں۔ بلاول بھٹو کیلئے گڈول موجود ہے نفرت نہیں بلکہ اس کیلئے محبت بھی ہے مگر روٹی کپڑا اور مکان کا صرف نعرہ اب نہیں چل سکتا، لوگ مکمل منصوبہ جاننا چاہتے ہیں، بلاول کیا تبدیلی لائے گا اس کے بارے میں کوئی بھی قابل قبول اور متاثرکن وژن سامنے نہیں آسکا۔ بلاول ذہین ہے، قابل ہے لیکن ابھی تک ورکرز سے وہ ربط پیدا نہیں کرسکا جو بھٹو اور بے نظیر کا تھا۔ وہ جیالوں، غریبوں اور محروموں کیلئے گرم جوشی دکھاتے تھے بلاول بھٹو تمام ترخوبیوں کے باوجود ایسا نہیں کر پاتے۔ کئی سال سے پنجاب میں پارٹی کی تنظیم ہی نہیں ہے وکلا اور پڑھے لکھے طبقات میں پارٹی نفوذ کر سکتی ہے مگر کوشش ہی نہیں ہو رہی۔ بھٹو صاحب تو خود خط لکھ کر اور ملاقاتیں کرکے پڑھے لکھے نوجوانوں اور پروفیشنل لوگوں کو پارٹی میں لاتے تھے اب ایسا کیوں نہیں؟

فقط :جیالا پنجابی

بشکریہ روزنامہ جنگ