سپریم کورٹ آف پاکستان کی جانب سے تحریک انصاف کو مخصوص نشستیں دیئے جانے کے اکثریتی فیصلے کے بعد میرے ذہن میں نوبل انعام یافتہ آئرش شاعر ڈبلو بی ییٹس (W B YEATS) کی ایک نظم دی سیکنڈ کمنگ (THE SECOND COMING) کی یاد تازہ ہوگئی ہے۔ آئرش تحریک آزادی کا زبردست حامی YEATS کہتا ہے۔
“THINGS FALL APART; CENTRE CAN NOT HOLD ;MERE ANARCHY IS LOOSED UPON THE WORLD”
’’چیزیں ٹوٹ کر الگ ہونا شروع ہیں، اب مرکز کے لئے انہیں سنبھالنا مشکل ہے، اب تو دنیا میں افراتفری اور انتشار ہی کی کار فرمائی ہوگی۔‘‘
YEATSکی دنیا طلسمات، عجائبات، دیو مالائی کرداروں، تاریخی علامتوں اور پیش گوئیوں سے بھری تھی وہ بیک وقت شاعر، عاشقِ صادق، ڈرامہ نگار اور سیاسی کارکن تھا۔ اسے آئرش تحریک آزادی کی کارکن MAUD GONNE سے عشق تھا اس کی شاعری اور تخلیق کا سوتا بھی اسی عشق سے پھوٹتا رہا، کئی دہائیوں پر پھیلی اس محبت کو منزل تو نہ مل سکی مگر اس محبت نے شاعری، فلسفہ اور دیو مالائی چشموں سے سیراب ہو کر کئی شاہکار ضرور تخلیق کئے۔
YEATS ادب اور سیاست کو ملا کر دنیا کو دیکھتا تھا، اگر ہم بھی آج کے تضادستان کو اسی نظر سے دیکھیں تو 8فروری کے انتخابات نے طاقتوروں کی حکمت عملی کو ناکام بنا دیا تھا، ادبی زبان میں طاقت کو رومانس نے شکست دے دی تھی، تلخ زمینی حقیقتوں کے مقابلے میں دیومالائی اور جادوئی جذبے جیت گئے تھے، یہ سلسلہ رکا نہیں اب عدالت عظمیٰ نے بھی تاریخ میں پہلی بار طاقتوروں کی مرضی اور منشا کے خلاف فیصلہ سنا دیا ہے، عدالت عظمیٰ کی گرتی ہوئی ساکھ کو تو اس سے سہارا مل گیا ہے مگر طاقت وروں کی کم ہوتی ہوئی طاقت کو ایک زبردست دھچْکا اور لگ گیا ہے، اگر YEATS کے نقش قدم پر چل کر مستقبل کو پڑھا جائے تو ایسا لگتا ہے کہ یہ معاملہ مزید آگے بڑھے گا گزشتہ الیکشن کے بارے میں فیصلے آئیں گے موجودہ شہباز حکومت کو بھی عدالت عظمیٰ کی غالب اکثریت اب ٹف ٹائم دے گی اور مقتدرہ کے میدان کوسکیڑنے کی بھی کوششیں ہوں گی۔
اس ساری صورت حال میں دو منظر نامے ممکن ہیں۔ ایک منظر نامہ تو سپریم کورٹ کے فیصلے کے سامنے جھکنا ہے ، آئین کا حلف اٹھانے والوں کیلئے لازم ہے کہ سپریم کورٹ کے فیصلوں کو مان کر ان پر عملدرآمد کیا جائے لیکن تضادستان میں عام طور پر ایسا نہیں ہوتا۔ دوسرا منظر نامہ عدلیہ اور مقتدرہ کے درمیان شدید محاذ آرائی کا ہے جس کا نتیجہ نظام کے لپیٹے جانے سے لے کر موثر جمہوریت تک کوئی بھی نکل سکتا ہے، مقتدرہ بھاری پڑی تو عدالتوں کو زک پہنچائے گی،عدلیہ کا زور چلا تو وہ مقتدرہ کے کردار کو کم کردے گی۔
YEATSکی اسی شاہکار نظم میں ایک اور دلچسپ فقرہ ہے۔
“THE FALCON CAN NOT HEAR THE FALCONER”
’’عقاب اپنے سکھانے والے استاد کے احکامات بھی نہیں سن سکتا۔‘‘
یہ تبصرہ بھی آج کے تضادستان پر پوری طرح صادق آتا ہے۔ 8فروری کو عقابوں نے اپنے پرانے آقا اور استاد کی ہدایات کو نظر انداز کردیا حالانکہ کئی دہائیوں سے عقاب وہی کرتے تھے جو انہیں شکار کی تربیت دینے والا سکھاتا تھا۔ سپریم کورٹ کے عقابوں نے بھی 12جولائی کو سنائے جانے والے فیصلے میں ماضی کے آقاؤں سے اپنا ناطہ توڑ لیا۔ اب ایسا لگ رہا ہے کہ اس فیصلے کے بعد سے نونی حکومت کی عمر اتنی لمبی نہیں ہوگی جتنی امید کی جارہی تھی یہ بھی صاف نظر آ رہاہے کہ اب عمران خان کو زیادہ دیر تک جیل میں رکھنا مشکل ہو جائے گا۔ معاملہ سپریم کورٹ پہنچے گا تو اسے رہائی مل جائے گی اور اگر تھوڑے تخیل سے کام لیں تو بآسانی یہ پیش گوئی کی جاسکتی ہے کہ اگر کوئی حادثہ پیش نہ آیا تو تحریک انصاف کو حکومت بھی ملے گی اور نونی حکومتوں کو گھر بھی جانا پڑیگا اور وہ شاید اگلا انتخاب بھی نہ جیت سکے۔ نونی حکومت کا ہدف پانچ سال کی حکومت ہے کیونکہ وہ پہلے معیشت کو ٹھیک کرنا چاہتے ہیںاور پھر وہ آخری دو سال اپنے ووٹ بینک کو مضبوط کریں گے لیکن اگر ان کی حکومت کی عمر مختصر ہوگئی اور یہ سارا سیٹ اپ لپیٹا گیا تو نون کوئی کرشمہ نہیں دکھا پائے گی اور اقتدار خود بخود تحریک انصاف کی جھولی میں جا گریگا۔
YEATSسے میرا تعارف کلاس روم میں ہوا تھا، انگریزی ادب کے لیجنڈری استاد پروفیسر سراج الدین کی صاحبزادی شائستہ سونو ہمیں YEATS کی شاعری پڑھاتی تھیں جب وہ شاعر کے کلام کو پڑھتیں تو کلاسیکی شاعری اور دیومالائی علامتوں کے حوالے دے کر سمجھاتیں کہ شاعر کس طرح تاریخ، سیاست اور ادب کے امتزاج سے اپنا پیغام دے رہا ہے۔ YEATS کی شاعری میں SPHINX یاابو لہول کے دیو مالائی کردار کا بھی ذکر آتا ہے۔ یونانی، رومن اور مصری تہذیب میں SPHINXکی دیومالائی طاقت کو تسلیم کیا جاتا تھا مصری تہذیب کا ابولہول اب بھی گزا کے اہرام مصر میں قائم اور موجود ہے۔ شیر کے جسم اور انسانی چہرے کا مالک ابولہول شیر جیسی طاقت اور انسان جیسی ذہانت کا حامل تصور کیا جاتا تھا۔ فراعنہ مصر کے اہراموں کے پاس اس کی موجودگی کا مطلب ان آثار کی روحانی نگرانی تھا۔ تضادستان کا ’’ابولہول‘‘ ہمارا سب سے طاقتور ادارہ ہے، جو دفاع سیاست اور بین الاقوامی امور کی مسلسل نگرانی کے رتبے پر فائز ہے۔8فروری کے انتخابات ہوں یا 12جولائی کا فیصلہ ان دو بڑے واقعات سے YEATS کے آفاقی الفاظ THINGS FALL APART کو بآسانی سمجھا جاسکتا ہے، جب بڑی تبدیلیاں آتی ہیں ، دو اداروں کی محاذ آرائی ہوتی ہے یا پھر عوامی انقلاب برپا ہوتا ہے تو یہ نتیجہ نکالنا بہت آسان ہوتا ہے کہ ان ممکنات کے نتیجے میں کچھ نہ کچھ تبدیلی ضرور آئیگی لیکن یہ پتہ نہیں چلتا کہ یہ نتیجہ اچھا ہوگا یا برا۔ کیا اس سے تضادستان کا بھلا ہوگا یا پہلے سے بھی برا حال ہو جائیگا۔ بہر حال ان واقعات کے بعد کھلی محاذ آرائی کو روکنا مشکل ہو جائیگا ،اب کچھ نہ کچھ ہو کر رہے گا، یہ کب ہوگا؟ کیسے ہوگا؟ اور حتمی نتیجہ کیا ہوگا اس کا اندازہ فی الحال مشکل ہے۔
YEATSہو، دنیا کے ادیب ہوں یا شاعریا پھر اکثریتی عوام سب کی خواہش یہی ہے کہ ریاست فلاح کا راستہ اپنائے، انصاف کو فروغ دے، عدلیہ کے احکامات کو مانے اور جدید رجحانات کو دیکھ کر پالیسی بنائے۔ ماضی میں انا کے بتوں، حسد کے نام نہاد خداؤں اور دشمنی کے شیاطین کی جو پیروی کی جا تی رہی ہے اس کو ترک کیا جائے، مقتدرہ نہ ہو تو ریاست کا امن و امان ٹھیک نہیں رہ سکتا، عدلیہ نہ ہو تو مظلوم کو انصاف نہیں ملتا، عوامی اور جمہوری آدرشوں کو نظر انداز کیاجائے تو آمریت اور فاشزم کا عفریت جنم لے لیتا ہے، آزاد صحافت نہ ہو تو حکومت اور دوسرے اداروں کی غلطیوں کی نشاندہی نہیں ہوسکے گی انسانی حقوق کی پاسداری نہ ہو تو ظلم کا ہاتھ روکا نہ جا سکے گا، اقلیتوں اور محروم طبقات کا خیال نہ کیا جائے تو معاشرہ جنگل کا منظر پیش کرتا ہے۔ ادب، شاعری اور تخلیق پر پابندیاں ہوں تو معاشرے ترقی نہیں کرپاتے پسماندگی کا شکار ہو جاتے ہیں، مذہب کی انتہا پسندانہ تشریحات اور پیشوائیت سے معاشرے DARK AGES میں چلے جاتے ہیں، علم اور ٹیکنالوجی کو فروغ نہ دیا جائے تو ملک کبھی خوشحال نہیں ہو پاتے۔
یہ سچ ہے کہ ٹوٹ پھوٹ ہو رہی ہے مگر خواہش یہ ہے کہ اس ٹوٹ پھوٹ سے ایک پرامن آئینی، فلاحی اور جمہوری ریاست کا راستہ ہموار ہو۔ ہماری واحد آپشن یہی ہے۔
بشکریہ روزنامہ جنگ