نئی دہلی ،سری نگر: بھارتی حکومت نے مقبوضہ کشمیر اسمبلی میں ہندو بالادستی کے نتیجے میں ہندو وزیر اعلی لانے کے منصوبے کے تحت وادی کے مقابلے میں جموں کی اسمبلی نشستوں میں چھے کا اضافہ کرنے کے علاوہ بھارتی پارلیمنٹ کے ایوان زیریں میں جموں کو ایک اضافی نشست دینے کا بھی فیصلہ کیا ہے اخبار ایکسلسیر کے مطابق بھارتی حد بندی کمیشن نے مقبوضہ کشمیر اسمبلی میں جموں کے لیے 6 اور وادی کے لیے ایک نشست کے اضافے کی کی تجویز کے علاوہ بھارتی پارلیمنٹ کے ایوان زیریں میں جموں کو ایک اضافی نشست دینے کا فیصلہ کیا ہے ۔ تاکہ دونوں ڈویژنوں جموں اور وادی کے درمیان برابری لائی جا سکے کیونکہ اس وقت وادی کشمیر میں لوک سبھا کی تین ،جموں کی دو اور لداخ کی ایک سیٹ ہے ۔
بھارتی حد بندی کمیشن کی مدت 6 مارچ 2022 کو ختم ہو رہی ہے۔ کمیشن 6 مارچ 2020 کو قائم کیا گیا تھا اور اسے 6 مارچ 2021 کو ایک سال کی توسیع دی گئی تھی۔ منصوبے کے تحت مقبوضہ کشمیر اسمبلی میںجموں ضلع میں تین اور سانبہ، کٹھوعہ، رامبن میں ایک ایک اضافی نشست دی جائے گی ۔بھارت کے زیر انتظام کشمیر کی بیشتر سیاسی جماعتوں نے ریاستی اسمبلی کی نشستوں کی از سر نو حد بندی کرنے والے کمیشن کی ڈرافٹ رپورٹ کو ناقابل قبول قررار دیتے ہوئے شدید نکتہ چینی کی ہے۔ رہنماں نے رپورٹ پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے حد بندی کمیشن پر حکمراں جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی کے مفاد کے لیے کام کرنے کا الزام عائد کیا ہے۔جموں و کشمیر کی اسمبلی کی سیٹوں کی از سر نو حد بندی کرنے والے کمیشن نے کئی ماہ کی شد و مت کے بعد اپنی مسودہ رپورٹ میں جموں خطے کے لیے چھ سیٹوں جبکہ وادی کشمیر کے لیے صرف ایک سیٹ کے اضافے کی تجویز پیش کی۔کے پی آئی کے مطابق 114 رکنی مقبوضہ کشمیر اسمبلی میں پاکستان کے زیر انتظام آزاد کشمیر کے لیے 24 نشستیں مختص ہیں ۔
اگر یہ تجویز تسلیم کر لی جاتی ہے تو پھر جموں علاقے میں اسمبلی کی سیٹیں 37 سے بڑھ کر 43 ہو جائیں گی جبکہ وادی کشمیر میں 46 سے بڑھ کر 47 ہو جائیں گی۔ جموں و کشمیر اسمبلی کی مجموعی طور پر ابھی 83 سیٹیں ہیں۔ اس سے قبل لداخ سمیت جموں و کشمیر کی اسمبلی کی کل سیٹیں 87 ہوتی تھیں تاہم 2019 میں لداخ کو جموں سے الگ علاقہ بنا دیا گیا جس کی وجہ سے لداخ کی چار نشستیں اس سے جدا ہو گئیں۔اب اگر حد بند کمیشن کی تجاویز کو تسلیم کر لیا جاتا ہے تو جموں و کشمیر کی اسمبلی کی مجموعی سیٹیں 90 ہو جائیں گی تاہم اس میں سے ایک درجن سے زیادہ نشستیں مختلف اقلیتی طبقوں کے لیے مخصوص ہوں گی۔