اسلام آباد(صباح نیوز)سپریم کورٹ آف پاکستان نے فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل کے خلاف دائر نظرثانی درخواستوں پر سماعت غیر معینہ مدت تک ملتوی کردی۔ جبکہ بینچ کے سربراہ جسٹس امین الدین خان نے کہا ہے کہ بینچ کی دستیابی پر دوبارہ کیس سماعت کے لئے مقرر کیا جائے گا۔ جبکہ بینچ نے قراردیا ہے کہ فوجی عدالتوں کی تحویل میں ملزمان کے ساتھ غیر انسانی سلوک نہیں ہونا چاہیئے۔جبکہ جسٹس جمال خان مندوخیل نے ریمارکس دیئے ہیں کہ ملزمان کو سزاہوتی یا بری ہوتے ہیں تاہم ان سے سلوک توانسانوں کی طرح ہونا چاہیئے۔ ایک اپیل کافی ہوتی ہے 50اپیلیں دائر کردیں۔جبکہ جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیئے ہیں کہ یہ پہلا کیس نہیںجس میں وفاقی حکومت نے پہلی مرتبہ پرائیویٹ وکیل کیاہواس سے پہلے بھی وفاقی حکومت کے ادارے ایسا کرتے رہتے ہیں۔ اگر فرد جرم عائد ہونے کے بعد بھی فوجی عدالتوں کی تحویل میں دیا جاتا توفرد جرم دوبارہ عائد ہوجاتی۔جبکہ جسٹس شاہد وحیدنے ریمارکس دیئے ہیں کہ کیا ہرکسی کو اپیل کاحق دے دیا جائے چاہے وہ متاثر ہویا نہ ہو،عام لوگ بھی آجائیں گے ہمیں بھی سنا جائے۔ جبکہ جسٹس عرفان سعادت خان نے ریمارکس فوجی عدالتوں کی تحویل میں موجودافراد سے انسانوں کے ساتھ غیر انسانی سلوک نہیں ہونا چاہیئے۔
سپریم کورٹ کے سینئر جج جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں 7رکنی لارجر بینچ فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل کے معاملے پر سپریم کورٹ کے فیصلے کے خلاف دائر نظرثانی درخواستوں پر سپریم کورٹ کے کورٹ روم نمبر 5میںسماعت کی۔ بینچ کے دیگر ارکان میں جسٹس جمال خان مندوخیل ، جسٹس محمد علی مظہر ،جسٹس سید حسن اظہررضوی،جسٹس شاہد وحید، جسٹس عرفان سعادت خان اور جسٹس شاہد بلال حسن شامل ہیں۔ بینچ شہداء فائونڈیشن بلوچستان بوساطت پیٹرن ان چیف نوابزادہ جمال خان رئیسانی،کوئٹہ کینٹ، صوبہ پنجاب بوساطت سیکرٹری پنجاب ، لاہور، وفاق پاکستان بوساطت سیکرٹری برائے قانون وانصاف، صوبہ بلوچستان بوساطت چیف سیکرٹری سروسزاینڈ جنرل ایڈمنسٹریشن ڈیپارٹمنٹ کوئٹہ، وفاق پاکستان بوساطت سیکرٹری وزارت دفاع ،راولپنڈی، وفاق پاکستان بوساطت سیکرٹری وزارت داخلہ، اسلام آباد اوردیگر کی جانب سے دائر43درخواستوں پر سماعت کی۔ درخواستوں میں سابق چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس (ر)جواد ایس خواجہ،بیرسٹر چوہدری اعتزازاحسن، کرامت علی،جنید رزاق،سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن آف پاکستان،زمان خان وردگ اوردیگر کوفریق بنایا گیا ہے۔
دوران سماعت اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان، وزارت دفاع کے وکیل خواجہ حارث احمد، وزارت داخلہ کے وکیل سکندر بشیر مہمند ، جبکہ مدعا علیحان چوہدری اعتزازاحسن اوریگر اپنے وکلاء خواجہ احمد حسین، فیصل صدیقی، حامد خان ایڈووکیٹ، سردار لطیف خان کھوسہ ، عابد شاہد زبیری اوردیگر کے ہمراہ کمرہ عدالت میںموجود تھے۔سماعت کے آغاز پر اٹارنی جنرل منصورعثمان اعوان نے پیش ہوکربتایا کہ فوجی عدالتوں کی تحویل میں موجود ملزمان سے ان کے اہلخانہ کی آج ملاقات ہورہی ہے،صرف لاہور میں ملاقات کا مسئلہ بنا تھا،حفیظ اللہ خان نیازی کے بیٹے حسان خان نیازی لاہور میں ہیں، متعلقہ حکام کو تجاویز دے دی ہیں۔ جسٹس محمد علی مظہر کاکہنا تھا کہ ملاقات کے حوالہ سے کسی آرڈر کی ضرورت نہیں۔ جسٹس جمال خان مندوخیل کاکہنا تھا کہ اگر تفتیش مکمل ہوگئی تو جوڈیشل کسٹڈی میں کیوں ہیں؟ پھر تو معاملہ ہی ختم ہوگیا۔اس پراٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ ملٹری کورٹس میں جوڈیشل ریمانڈ نہیں دیا جاتا۔ جسٹس جمال خان مندوخیل کاکہنا تھا کہ ملزمان کو سزاہوتی یا بری ہوتے ہیں تاہم ان سے سلوک توانسانوں کی طرح ہونا چاہیئے۔
جسٹس عرفان سعادت خان کاکہنا تھا کہ انسانوں کے ساتھ غیر انسانی سلوک نہیں ہونا چاہیئے۔جسٹس امین الدین خان نے اٹارنی جنرل سے سوال کیا کہ زیرِ حراست افراد کی اہلخانہ سے ملاقات کیوں نہیں کرائی جارہی؟اس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ متعلقہ حکام کو بتایا تھا کہ ملاقات کرانے کا حکم عدالت کا ہے، تسلیم کرتا ہوں کہ ملاقاتوں کا سلسلہ نہیں رکنا چاہیے تھا، آج دو بجے زیرِ حراست افراد کو اہلخانہ سے ملوایا جائے گا، جیلوں میں منتقلی میں کچھ قانونی مسائل بھی ہیں۔جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ آپ پہلے بتاتے تھے ہر ہفتہ ملزمان کی فیملی سے ملاقات ہوتی ہے، آپ اس سلسلے کو جاری کیوں نہیں رکھتے؟ اٹارنی جنرل آپ کا بیان عدالتی رکارڈ کا حصہ ہے۔اس دوران سینئر وکیل سردار محمدلطیف خان کھوسہ نے پیش ہوکر بتایا کہ ایک ملزم عباد فاروق کو فیملی سے نہیں ملنے دیا گیا، اس کا 5 سال کا بچہ انتقال کرگیا۔اس پر جسٹس عرفان سعادت خان کا لطیف کھوسہ سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ کھوسہ صاحب تشریف رکھیں اس کیس کوشروع توکرنے دیں۔ اس موقع پر بینچ کی جانب سے پوچھا گیا کہ فوج کی طرف سے کوئی آیا ہے۔ اس پرکمرہ عدالت میں موجود ڈائریکٹر لاء برگیڈیئر عمران روسٹرم پر آگئے۔
برگیڈیئر عمر ان نے بتایا کہ میں 24گھنٹے دستیاب ہوں،میں فوکل پرسن ہوں۔ جسٹس سید حسن اظہررضوی نے استفسار کیا کہ کیا رشتہ داروں کی لسٹ ہے، کیا کوئی واٹس ایپ گروپ اورنمبرز ہیں۔جسٹس سید حسن اظہر رضوی کاکہنا تھا کہ جن کابچہ فوت ہوا ہے ان کو ترجیح دی اورن کی اہلخانہ سے ملاقات کروائیں۔ جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ سپریم کورٹ کا کام کیا ہے؟ کسی بھی فیصلے میں غلطی کو دیکھنا ہے، آپ نے اپیل میں جاری کیے گئے فیصلے میں غلطی بتانی ہے، ملزمان سے ملاقات کا کیا طریقہ کار ہے۔جسٹس شاہد وحید کاکہنا تھا کہ ہم نے اپیل میں غلطی کودرست کرنا ہے۔جسٹس محمد علی مظہر کاکہنا تھا کہ کئی ماہ سے معاملہ زیر التواہے اب تک ہم تکنیکی باتوں میں الجھے ہوئے ہیں۔ جسٹس شاہد وحید کاکہنا تھا کہ میں دوسوال کئے تاہم اٹارنی جنرل نے ان کاجواب نہیں دیا۔ جسٹس محمد علی مظہر کاکہنا تھا کہ کہ سی پی سی اور سی آرپی سی سپریم کورٹ پرلاگو نہیں ہوتی۔ جسٹس جمال خان مندوخیل کاکہنا تھا کہ کیا ہم اپیل میں فیصلہ کو تبدیل کرسکتے ہیں کہ نہیں۔ جسٹس شاہد وحید کاکہنا تھا کہ اوریجنل بینچ نے جو رائے دی کیا نظرثانی میں مختلف رائے دی جاسکتی ہے،اٹارنی جنرل دوسری ممکنہ رائے لے رہے ہیں۔
جسٹس محمد علی مظہر کاکہنا تھا کہ اپیل میں ساری چیزیں اوپن ہوتی ہیں۔ اٹارنی جنرل کاکہنا تھا کہ بینچ نظرثانی کرسکتا ہے۔ جسٹس جمال خان مندوخیل کاکہنا تھا کہ اگر قانون کے مطابق رائے ہے توکیانظرثانی میں اسے تبدیل کیا جاسکتا ہے۔ جسٹس شاہد وحید کاکہنا تھا کہ کیا اپیل میں بیٹھ کر ہم کیس کوریمانڈ بھی کرسکتے ہیں۔ جسٹس محمد علی مظہر کاکہنا تھا کہ ریمانڈ بھی ہوسکتا ہے، کالعدم بھی ہوسکتا ہے اور منظوربھی ہوسکتاہے۔ جسٹس محمد علی مظہر کاکہنا تھا کہ سپریم کورٹ پریکٹس اینڈپروسیجر بل 2023میں اپیل کے دائرہ کارکوبہت زیادہ وسیع کردیا گیا ہے۔ جسٹس محمد علی مظہر کاکہنا تھا کہ ہم اس کو اپیل سمجھ کرہی سنیں گے۔ اٹارنی جنرل کاکہناتھا کہ خواجہ حارث کے توسط سے وفاق نے اپیلیں دائر کی ہیں۔ اٹارنی جنرل کاکہنا تھا کہ کیس دائر کرنے یا دفاع کے لئے وفاقی کابینہ کی منظور ی کی ضرورت نہیں۔ اٹارنی جنرل کاکہناتھا کہ وفاقی حکومت قانون کادفاع کرنے آئی ہے۔ اٹارنی جنرل کاکہنا تھا کہ صوبے اپنی پوزیشن کاخوددفاع کریں گے،وفاقی قانون کالعدقراردیا گیا۔جسٹس شاہد وحید کاکہناتھا کہ کیا ہرکسی کو اپیل کاحق دے دیا جائے چاہے وہ متاثر ہویا نہ ہو، عام لوگ بھی آجائیں گے ہمیں بھی سنا جائے۔جسٹس محمد علی مظہر کاکہنا تھا کہ ماضی میں آئین کے آرٹیکل 184-3کے تحت لوگوں اورمحکوں کوسنے بغیر فارغ کردیا گیا اورآرٹیکل کادائرہ کاروسیع کردیا گیا اس لئے اپیل کاحق دیا گیا ہے۔
اٹارنی جنرل کاکہناتھاکہ لاء ڈویژن نے ایڈوائس کیا ہے کہ اپیل دائر کریں۔ اٹارنی جنرل کاکہنا تھا کہ لاء ڈویژن کی درخواست پر اٹارنی جنرل کے ساتھ مشاورت کے بعد کسی بھی کیس میں حکومت پرائیویٹ وکیل مقررکرسکتی ہے۔ جسٹس محمد علی مظہر کاکہناتھا کہ اپیل کرنا دنیا میں حق ہے۔ اٹارنی جنرل کاکہنا تھا کہ وزارت دفاع کے زریعہ خواجہ حارث احمد وفاقی حکومت کی نمائندگی کررہے ہیں۔ اس دوران مدعا علیحان کے وکیل فیصل صدیقی نے کراچی سے ویڈیو لنک کے زریعہ دلائل دیتے ہوئے کہا کہ میں نے وفاقی حکومت کی جانب سے پرائیویٹ وکیل مقرر کرنے کے معاملہ کو چیلنج کیاہے میری درخواست کو نمٹا دیا یا وہ غیر مئوثر ہوجائے گی۔جسٹس محمد علی مظہر کاکہناتھا کہ یہ پہلا کیس نہیںجس میں وفاقی حکومت نے پہلی مرتبہ پرائیویٹ وکیل کیاہواس سے پہلے بھی وفاقی حکومت کے ادارے ایسا کرتے رہتے ہیں۔ جسٹس جمال خان مندوخیل کا فیصل صدیقی سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ اگر اٹارنی جنرل اورایڈووکیٹ جنرلز آجائیں اوروہ معاونت کریں توآپ کو کوئی اعتراض ہے۔ فیصل صدیقی کاکہنا تھا کہ خواجہ حارث کو صوبوں ،وزارت دفاع اوروزارت داخلہ کی جانب سے وکیل کیا گیا ہے۔ جسٹس سید حسن اظہر رضوی کاکہنا تھا کہ وزارت دفاع چاہتی ہو گی کہ فوجداری معاملات کاماہر وکیل ان کی نمائندگی کرے۔جسٹس شاہد وحید کاکہنا تھا کہ فیصل صدیقی چاہتے ہیں کہ ان کی درخواست پر کیس کومیرٹس پر سننے سے قبل فیصلہ کیا جائے۔ اس پر فیصل صدیقی نے ہاں میں جواب دیا۔جسٹس محمد علی مظہر کاکہناتھا کہ ایسا کرنے کے کیا کرنا چاہیے تھا، کون سا پروسیجر اٹارنی جنرل کی جانب سے پرائیویٹ وکیل مقرر کرنے کے اپنانا چاہیئے تھا۔ فیصل صدیقی کاکہنا تھا کہ اٹھارٹی کا مسئلہ نہیں مسئلہ یہ ہے کہ تھارٹی کس طرح استعمال ہوئی۔ جسٹس جمال خان مندوخیل کاکہناتھا کہ ایک اپیل کافی ہوتی ہے 50اپیلیں دائر کردیں۔
اٹارنی جنرل کاکہنا تھا کہ وفاق کی جانب سے میں جواب دے رہا ہوں، صوبوں کی جانب سے میں جواب نہیں دے سکتا۔ اٹارنی جنرل کاکہنا تھاکہ آرمی ایکٹ 1952کے سیکشن 2-1(d)کو کالعدم قراردیا گیا جس کہ وجہ سے اپیل دائر کرنے پر مجبور ہوئے۔فیصل صدیقی کاکہنا تھا کہ اٹارنی جنرل کودلائل دینے کاحق ہے۔جسٹس سید حسن اظہر رضوی کاکہنا تھا کہ خواجہ حارث کوئی فیس نہیں لے رہے اس لئے اگر ان کو سن لیا جائے تووہ عدالت کی معاونت کریں گے۔فیصل صدیقی کاکہنا تھا کہ یہ جھوٹوں کا پورا معمہ ہے، خواجہ شمس الاسلام نے وزارت داخلہ کی جانب سے اپیلیں دائر کیں۔ فیصل صدیقی کاکہناتھا کہ بلوچستان حکومت نے پرائیویٹ وکیل مقررکرنے کے حوالہ سے کوئی دستاویزا ت پیش نہیںکیں۔ فیصل صدیقی کاکہنا تھا کہ کیا وزارت داخلہ مقدس گائے کہ وہ پرائیویٹ وکیل مقرر کرے، اٹارنی جنرل ان کی نمائندگی کریں۔ جسٹس شاہد وحید کاکہنا تھا خواجہ حارث مفت پیش ہورہے ہیں باقی بھی مفت پیش ہورہے ہیں کہ نہیں۔ اس پر اٹارنی جنرل کاکہناتھاکہ میں وزارت داخلہ سے پوچھ کربتادوں گا۔اس کے بعد خواجہ حارث احمد نے بینچ کی اجازت کے بعد کیس کے میرٹس پر دلائل کاآغاز کیا۔ جسٹس محمد علی مظہر کاکہنا تھا کہ میں ایف آئی آر پڑھنا چاہتا ہوں، مجسٹریٹ کا ملزمان کو فوجی تحویل میں دینے کاآرڈر بھی ہونا چاہیئے، دونوں پیش کریں۔ خواجہ حارث کا کہنا تھا کہ انسداددہشت گردع عدالت نے ملزمان کوفوجی عدالتوں کی تحویل میں دینے کاحکم دیا۔جسٹس شاہد وحید کاکہنا تھا کہ فرد جرم عائد ہونے کے بعد ملزمان کو فوجی عدالتوں کی تحویل میں دیا گیا یا پہلے۔ اس پرخواجہ حارث کا کہنا تھا کہ پہلے۔ جسٹس محمد علی مظہر کاکہنا تھا کہ اگر فرد جرم عائد ہونے کے بعد بھی فوجی عدالتوں کی تحویل میں دیا جاتا توفرد جرم دوبارہ عائد ہوجاتی۔
جسٹس جمال خان مندوخیل کا کہناتھا کہ آرمی ایکٹ 1952کے سیکشن 2-1(d)کے دائرہ کار میں جرم آتاہے تو پھر ملزمان فوجی عدالتوں کی تحویل میں دیئے جائیں گے۔ جسٹس جمال خان مندوخیل کاکہنا تھاکہ پاکستان آرمی ایکٹ کس مقصد کے لئے نافذکیا گیا۔ خواجہ حارث کاکہنا تھاکہ سویلینز کواستثنیٰ حاصل نہیں اوران کاٹرائل فوجی عدالتوں میں ہوسکتا ہے۔ جسٹس امین الدین کاکہنا تھا کہ ہمارا وقت ختم ہو گیااور معاملات بھی ہیں ۔ جسٹس امین الدین خان کاحکم لکھواتے ہوئے کہنا تھا کہ اٹارنی جنرل نے فوجی عدالتوں کی تحویل میں موجود افراد کی اپنے اہلخانہ سے ملاقاتوںکا بتایا اور کہا کہ آج ملاقات ہورہی ہے۔ فیصل صدیقی نے وفاقی حکومت کی جانب سے پرائیویٹ وکیل مقرر کرنے کے خلاف دائر درخواست پر دلائل دیئے۔جبکہ خواجہ حارث احمد نے کیس کے میرٹس پر دلائل کاآغاز کردیا ہے۔
کیس کی سماعت غیر معینہ مدت تک ملتوی کررہے ہیں، ججز کی دستیابی پردوبارہ کیس سماعت کے لئے مقررکیاجائے گا۔ سماعت کے آخر میں مدعاعلیحان کے وکیل سلمان اکرم راجہ نے بینچ سے استدعا کہ کیس جلد سماعت کے لئے مقرر کیا جائے ، یہ لوگوں کی آزادیوں کا معاملہ ہے، اگر کیس جلد سماعت کے لئے مقرر نہیں کرنا توپھر فوجی عدالتوں کی تحویل میں موجود سویلینز کو سویلین تحویل میں دینے کا حکم دیا جائے۔ تاہم بینچ نے استدعا پر کوئی توجہ نہ دی اور ججز اٹھ کر چلے گئے۔