تضادستان پر گہرے باد ل چھائے ہوئے ہیں اور بقول فیض احمد فیض داغ داغ اجالا ہے۔حالات کے تیور پڑھیں تو صاف لگ رہا ہے کہ مقتدرہ اور تحریک انصاف کے درمیان اگر کبھی مفاہمت پر ہل چل ہوئی بھی تھی تو اب وہ کوششیں دم توڑ چکی ہیں، مقتدرہ اور اسکے ساتھ شریک بڑی جماعت کو کوئی فوری خطرہ نظر نہیں آ رہا وہ کوئی سیاسی بیانیہ بنائے بغیر صرف اور صرف معاشی ترقی پر فوکس کر رہے ہیں اور ان کا خیال ہے کہ اگر اس حوالے سے کامیابی ملی تو اسے ہی بیانیے کے طور پر پیش کیا جائے گا یہی وجہ ہے کہ کابینہ کی ساخت بھی سیاسی نہیں بلکہ پروفیشنل اور ٹیکنوکریٹک ہے ،سب سے اہم وفاقی وزیر احد چیمہ ہیں جو بیورو کریٹ ہیں لیکن شہباز شریف کا ساتھ دینے کی وجہ سے لمبی سزا بھگت چکے ہیں، وہ اچھے منیجر ہوں گے مگر انہوں نے نہ سیاست کا ذائقہ چکھا ہے اور نہ ہی انہوں نے آئندہ کبھی حلقے کی سیاست کرنی ہے ۔ محسن نقوی ، مصدق ملک اور اعظم نذیر تارڑ ایوان بالا کے رکن ہیں گویا روزمرہ کی سیاست سے دورہیں۔ عطا اللہ تارڑگو سیاسی بیان بازی میں طاق ہیں مگر وہ بھی بنیادی طور پر ٹیکنو کریٹ ہیں۔ وزیر خزانہ اورنگزیب رمدے کا تعلق سیاسی خاندان سے ضرور ہے مگر وہ بھی ٹیکنو کریٹ ہیں، آ جا کے پنجاب سے خواجہ آصف، رانا تنویر، اویس لغاری اور ریاض پیرزادہ بچتے ہیں جو زمینی سیاست کرتے ہیں اور اپنے حلقے کے ووٹرز کو جوابدہ ہیں۔ کابینہ کی ساخت سے ہی اندازہ ہوگیا تھا کہ شہباز شریف سیاسی اور عوامی نہیں ٹیکنوکریٹ کابینہ بنا کر چلانا چاہتے ہیں اسی ٹیم کی وجہ سے ابھی تک کوئی سیاسی بیانیہ نہیں بنا۔ اس کابینہ کو طاقت صرف اورصرف تیر اور تلوار سے مل رہی ہے، بیانیہ نہ ہو تو اخلاقی اور سیاسی بنیادیں تشکیل نہیں پاتیں، حکومت چلتی رہتی ہے مگر اخلاقی اور سیاسی خلا رہ جاتا ہے اب بھی ایسا ہی ہے اسی لئے اجالا داغ داغ ہے۔
پڑوسی ملک بھارت میں انتخابات کے بعد پارلیمان کی کارروائی دیکھیں تو یہاں اور وہاں کی جمہوریت میں آزادیوں کافرق صاف نظر آ جاتا ہے۔ امریکی انتخابات میں جس طرح ٹرمپ اور بائیڈن کا مباحثہ ہوا ہے اور پھر اس کے حوالے سے بائیڈن پر جو تنقید ہو رہی ہے اس سے بہت کچھ سیکھا جاسکتا ہے۔ برطانیہ میں لیبر پارٹی نے 15سال اپوزیشن میں گزارے لیکن بالآخر اسے اقتدار مل رہا ہے، ان ملکوں کے انتخابات ، مباحثے اور لوگوں کی شرکت دیکھ کر رشک آتا ہے اور پھر یہ سمجھ آتی ہے کہ وہ اجالے میں کیوں چلے گئے ہیں اور ہمارا اجالا ابھی تک داغ داغ کیوں ہے؟۔
مفاہمت کی کوششیں دم توڑنے کی ایک وجہ تو طاقت کا نشہ ہے۔ دوسری وجہ پی ٹی آئی کا رویہ بھی ہے بقول منیر نیازی:
کجھ سانوں مرن دا شوق وی سی
ایک تو تضادستانیوں کے گلے میں غم، مایوسی اور مہنگائی کا طو ق پڑا ہے دوسری طرف اس کے سب سے مقبول لیڈر کو اصلاحِ احوال کی کوئی جلدی نظر نہیں آتی۔ تحریک انصاف کی لیڈر شپ کا خیال ہے کہ جتنا وقت گزرے گا حکومت اور معیشت اتنی ہی کمزور ہوتی چلی جائے گی، ان کی سوچ یہ ہے کہ بین الاقوامی دباؤ، مہنگائی اور بے چینی بالآخر تحریک انصاف کا راستہ ہموار کردے گی اور حکومت ان کی جھولی میں آ گرے گی۔ یہی وجہ ہے کہ تحریک انصاف کوئی مصالحتی فارمولا تسلیم کرنے کے بجائے انتظار کرو کہ سب کچھ گرنے والا ہے کی حکمت عملی پر کاربند ہے۔ ایک طرف طاقت ور کو ناز ہے کہ طاقت اور اختیار اس کے پاس ہے اور اس کے چیلنج ہونے کا امکان بھی نہیں، دوسری طرف جیل والے کو یقین ہے کہ معیشت اور سیاسی گورننس کا یہ ماڈل چل نہیں سکے گا۔ دونوں اپنے اپنے موقف پر قائم ہیں لیکن اس ملک کے 24کروڑ عوام کا کیا قصور ہے کہ وہ بے چارے اس وقت تک ظلم ، غربت، استحصال اور محرومیوں کی چکی میں پستے رہیں جب تک ان میں سے کوئی ایک فریق فتح یاب نہیں ہو جاتا۔؟
لِکھ لِکھ ماریوین کے مصداق بار بار یہ کہا جاچکا ہے کہ سیاسی مصالحت اور مفاہمت اس بحران سے نکلنے کا واحد پرامن حل ہے باقی سب حل خونیں ہیں، جن کے بارے میں سوچنا بھی نہیں چاہیے۔ محمود خان اچکزئی والا راستہ تحریک انصاف اور حکومت دونوں کیلئے بہترہے لیکن یہ راستہ بھی تبھی اختیار ہو سکے گا جب حکومت کچھ سیٹوں کی قربانی دینے کو تیار ہو اور تحریک انصاف موجودہ حکومت کو دل و جان سے تسلیم کرنے پر رضا مند ہو۔ بظاہر اس حوالے سے کوئی پیش رفت نظر نہیں آتی۔
تحریک انصاف نے ایک زبردست چال ضرور چلی ہے ،آپریشن عزم استحکام کی مخالفت کرکے انہوں نے حکومت اور مقتدرہ کے پیٹ کے نازک حصے پر ضرب لگائی ہے،تحریک انصاف جائز طور پر سمجھتی ہے کہ کے پی میں اس کی حکومت کے ہوتے ہوئے اس کی مرضی کے بغیر آپریشن نہیں ہوسکتا، دوسرا پی ٹی آئی آپریشن کے خلاف عوامی جذبات کا ہدف بھی نہیں بننا چاہتی۔ تحریک انصاف کا خیال ہے کہ آپریشن کے معاملے میں حکومت اور مقتدرہ کو لچک دکھانا پڑے گی بلکہ جھکنا پڑے گا، دیکھیں ایسا ہو پاتا ہے یا نہیں؟
افغانستان کے ساتھ تعلقات کا معاملہ بھی گھمبیر ہوتا جا رہا ہے ایک طرف افغانستان کے اندر پاکستانی طالبان پر حملے کی تیاری ہو رہی ہے تو دوسری طرف افغانستان سے سڑک گزار کر وسطِ ایشیا تک جانے کے منصوبے کو قطر میں زیر بحث لایا گیا ہے۔ میری ناقص رائے میں افغانستان سے تجارتی روٹ بالخصوص وسطِ ایشیا تک زمینی راستے کا کھلنا بالآخر افغان سوچ کو بدل دے گا۔ جنگ شاید اتنی فائدہ مند نہ ہو جتنا یہ تجارتی روٹ ہوگا۔ پاکستانی طالبان کی حمایت میں مولانا فضل الرحمن اور عمران خان کی سوچ ایک نظر آ رہی ہے گویا پختونخوا کی غالب اکثریت اس وقت پاکستانی طالبان سے جنگ کے خلاف رائے دے گی، ایسے میں جب تک رائے عامہ ہموار نہیں ہوتی، سیاسی مصالحت نہیں ہوتی اس وقت تک افغانستان کے اندر گھس کر کوئی بھی آپریشن کرنا فائدہ مند نہیں ہوگا ،پہلے گھر کے اندر کے معاملات کو سلجھایا جائے پھر باہر کی حکمت عملی بنائی جائے۔
تضادستان سے تضاد ختم کرنے، اندھیرے کو اجالے میں بدلنے اور اجالے سے داغوں کو مٹانے کا واحد راستہ آئینی اور جمہوری روش ہے جتنی جلدی سب ادارے اور سیاسی جماعتیں اس آسان راستے کو دل و جان سے مان لیں اتنی جلدی ملک و قوم کی تقدیر سنور سکتی ہے وگرنہ اناؤں کی جنگ جاری رہی، ایک دوسرے کے گرنے کا انتظار رہا تو تضادستان ٹھوکریں ہی کھاتا رہے گا۔
بشکریہ روزنامہ جنگ