وکالت کرنا ہمارا کام نہیں۔ قانون میں ترمیم کے بعد نظرثانی میں نیا وکیل کیا جاسکتا ہے،پارٹی خود بھی دلائل دے سکتی ہے۔چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ

اسلام آباد(صباح نیوز)چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا ہے کہ وکالت بھی ہم کریں اورفیصلے بھی ہم کریں ، وکالت کرنا ہمارا کام نہیں۔ قانون میں ترمیم کے بعد نظرثانی میں نیا وکیل کیا جاسکتا ہے اور پارٹی خود بھی دلائل دے سکتی ہے۔ ہم نے پہلے ہی آرڈر کیا ہوا ہے کہ پرانے کیس جلد لگائیں، 2008کے پرانے کیس لگانے شروع کئے جو 2014تک پہنچ گئے ہیں۔مودبانہ گزارش کہنے سے کچھ نہیں ہوتا کوئی پوائنٹ بتائیں ، کچھ توبتائیں۔چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں جسٹس نعیم اخترافغان او رجسٹس عقیل احمد عباسی پر مشتمل 3رکنی بینچ نے بدھ کے روز مختلف کیسز کی سماعت کی۔ بینچ نے شیر محمد کی جانب سے محمد عمر( مرحوم) کے لواحقین اوردیگر کے خلاف دائر نظرثانی درخواست پر سماعت کی۔

دوران سماعت وکیل ارشدنذیر مرزا نے پیش ہوکر بتایا کہ انہوں نے مئوکل کو بتایا تھا کہ یہ نظرثانی کا کیس نہیں ، انہوں نے نہ نظرثانی درخواست خود دائر کی ہے اور نہ ہی نظرثانی درخواست دائر کرنے کے حوالہ سے کوئی ہدایات جاری کی ہیں۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کیسے نظرثانی دائر درخواست دائر ہوئی۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ میں لکھا تھا کہ پانچویں مرتبہ التوا لیا ہے، ایڈووکیٹ آن ریکارڈ محمد شریف جنجوعہ کو بتادیں ہم التوا نہیں دے رہے۔ کورٹ ایسوسی ایٹ حنا امتیاز نے بتایا کہ محمد شریف جنجوعہ بیمار ہیں اس لئے انہوں نے التوا کی درخواست دائرکی ہے۔چیف جسٹس کا حکم لکھواتے ہوئے کہنا تھا کہ 6فروری2022کے سپریم کورٹ کے فیصلے پر نظرثانی درخواست دائر کی گئی ہے۔ ارشد نذر مرزانے پیش ہوکربتایا کہ انہوں نے درخواست گزار کو مشورہ دیا کہ یہ نظرثانی کا فٹ کیس نہیں۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ یہ پانچواں التوا ہے، عام طور پر ہم التوانہیں دیتے کیونکہ اے اوآر بیمار ہیں اس لئے التوادے رہے ہیں، آئندہ سماعت پر التوا نہیں دیاجائے گا۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ قانون میں تبدیلی کے بعد نظرثانی میں نیا وکیل کیا جاسکتا ہے اور پارٹی خود بھی دلائل دے سکتی ہے۔ عدالت نے حکمنامہ کی کاپی اے اوآر اور درخواست گزار کو بھجوانے کا حکم دیا۔ بینچ نے ممبر بورڈ آف ریونیو /چیف سیٹلمنٹ کمشنر ، پنجاب لاہور اوردیگر کی جانب سے میاں عبدالرحیم اوردیگر کے خلاف دائر درخواست پر سماعت کی۔ مدعا علیہ کا کہنا تھا کہ کیس کی سماعت جلد مقررکی جائے۔ اس پر چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ہم نے پہلے ہی آرڈر کیا ہوا ہے کہ پرانے کیس جلد لگائے جائیں، یہ معاملہ 2012کا ہے اس لئے جلد سماعت کے لئے مقرر کیاجائے۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ہم نے پرانے کیس لگانے شروع کئے جو2008سے2014تک پہنچ چکے ہیں۔

بینچ نے مسمات شاہینہ بانو اوریگر کی جانب سے محمد ادریس اوردیگر کے خلاف زمین کی ملکیت کے حوالہ سے دائر دعویٰ پر سماعت کی۔ چیف جسٹس کا درخواست گزار خاتون کے والد سے مکالمہ کرتے ہوئے اس کیس کو10سال ہو گئے ہیں، کیس کو لٹکا کررکھ رہے ہو، کیس چلاتے کیوں نہیں، یہ طریقہ نہیں کہ کیس پھینک دو اور چلائو نہ۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ آئندہ تاریخ دینے کاذکر بھی نہ کرنا ، سپریم کورٹ میں وکیل کریں یا خود کیس چلائیں۔ عدالت نے درخواست گزار خاتون کے والد کو وکیل کرنے کی مہلت دیتے ہوئے مزید سماعت ملتو ی کردی۔ بینچ نے ایم ڈی ایس این جی پی ایل اوردیگر کی جانب سے عبدالقادر خان خٹک کے خلاف دائر درخواست پر سماعت کی۔ درخواست گزار کی جانب سے حاجی محمد ظاہر شاہ بطور وکیل پیش ہوئے۔ چیف جسٹس کا وکیل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہناتھا کہ ایس این جی پی ایل کا آدمی کدھر ہے آپ توبحث ہی نہیں کررہے۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ مودبانہ گزارش سے کچھ نہیں ہوتا کوئی پوائنٹ بتائیں، کچھ توبتائیں۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ پشاور ہائی کورٹ میں17ماہ کی تاخیر سے درخواست دائر کی گئی۔ عدالت نے درخواست ناقابل سماعت قراردیتے ہوئے خار ج کردی۔ بینچ نے شیرزادہ اوردیگر کی جانب سے امیر زمان اوردیگر کے خلاف زمین کے تنازعہ پر دائر درخواست پر سماعت کی۔ چیف جسٹس کادرخواست گزار کے وکیل آفتاب خان سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ وکالت بھی ہم کریں اور فیصلے بھی ہم کریں، وکالت کرنا ہمارا کام نہیں۔ عدالت نے مدعا علیہ کو نوٹس جاری کرتے ہوئے کیس کی مزید سماعت غیر معینہ مدت تک ملتو ی کردی۔