قائمہ کمیٹی برائے صنعت میں سٹیل ملزمیں درکار 7 ہزار ملازمین کی بجائے 20ہزاربھرتی ہونے کا انکشاف

اسلام آباد (صباح نیوز)ایوان بالا کی قائمہ کمیٹی برائے صنعت و پیدا وارکے اجلاس کی کاروائی کے دوران انکشاف ہوا ہے کہ جبکہ پاکستان سٹیل ملزمیں  درکار 7 ہزار ملازمین کی بجائے 20ہزار ملازمین بھرتی کئے گئے اثاثوں کا تخمینہ 860ارب روپے سے زائد ہے ۔بدھ کو اجلاس چیئرمین کمیٹی سینیٹر عون عباس کی زیر صدارت پارلیمنٹ ہاؤس میں منعقد ہوا۔ سی ایف او پاکستان سٹیل ملز محمد عارف شیخ نے کمیٹی کو آگاہ کیا کہ ادارے منقولہ اور غیر منقولہ اثاثہ جات860.99 ارب روپے کے ہیں جن میں سے 2.12 ارب کے اثاثہ جات منقولہ اور 858 ارب کے غیر منقولہ اثاثہ جات ہیں۔ منقولہ اثاثہ جات میں 1.45 ارب کی مشینری اور گاڑیاں ہیں۔

ادارے کی زمین کا تخمینہ 2021 میں لگایا گیا تھا اور کمپنی نے تمام قانونی تقاضوں کے مطابق یہ تخمینہ لگوایا۔ادارے کی 500 گاڑیاں ہیں جن میں بسیں، کاریں اور سیکورٹی وینز وغیرہ شامل ہیں جن میں سے 350 ورکنگ حالت میں ہیں اور باقی ناکارہ ہو چکی ہیں۔ ادارے کی 1500 ایکڑ زمین سی پیک میں استعمال ہو گی اور اس ادارے کی کل زمین 18 ہزار ایکڑ پر مشتمل ہے جس میں سے 8 ہزار ایکڑ پر رہائشی کالونیاں قائم ہیں باقی پر پلانٹ لگے ہیں۔  ادارے کی زمین622 ارب کی ہے جبکہ وہ زمین جو سرمایہ کاری کے لئے رکھی گئی ہے وہ 63 ارب کی ہے فیکٹری بلڈنگ کے اثاثہ جات 43 ارب کے ہیں نان فیکٹری بلڈنگ2 ارب کی ہے،2.2 ارب کی سٹرکیں، ریلوے ٹریک اور پلیں ہیں۔ قائمہ کمیٹی نے ریلوے ٹریک اور ریلوے انجن کی تفصیلات آئندہ اجلا س میں طلب کر لیں۔ قائمہ کمیٹی کو بتایا گیا کہ ادارے کا پلانٹ اور مشینری 115.7 ارب روپے کے ہیں۔ گیس اور بجلی انسٹالیشن2.7 ارب کی ہے۔پانی، سیوریج سسٹم 1.99 ارب کا ہے۔قائمہ کمیٹی کو بتایا گیا کہ ادارے کے 200 ملین گیلن فی ماہ پانی استعمال ہوتا ہے۔

سیوریج سسٹم بہت بہتر ہے۔کمیٹی کو یہ بھی بتایا گیا کہ 30 جون2024 کے بعد گیس سپلائی بند کر دی گی ہے۔ادارے کی آمدن کے حوالے سے کمیٹی کو بتایا گیا کہ مالی سال 2022-23 میں ادارے کی آمدن 5.65 ارب روپے تھی جس میں سے2.71ارب روپے سکریپ فروخت کر کے حاصل کی گئی جبکہ اخراجات 33.11 ارب روپے رہے،25ارب کا مالی سال 2022-23 میں خسارہ رہا۔انتظامی اخراجات کے حوالے سے کمیٹی کو بتایا گیا کہ لیبر کاسٹ2.1 ارب روپے کی ہے جو گزشتہ برس 2.9 ارب کی تھی اور اس سے قبل برس 4.9 ارب کی تھی۔ ادارے کو صرف6 ارب کی گرانٹ ملی تھی۔ چیئرمین کمیٹی سینیٹر عون عباس کے سوال کے جواب میں بتایا گیا کہ حکومت سے 104 ارب اور نیشنل بنک پاکستان سے 38 ارب کا قرض لیا گیا۔ 103 ارب کا مارک اپ ادا کر چکے ہیں۔ کمیٹی کو یہ بھی بتایا گیا کہ 13 جون2024 کو ساڑھے پانچ سو سے زائد ڈیلی ویجز اور کنٹریکٹ ملازمین کی ملازمت میں توسیع نہیں کی گئی۔ قائمہ کمیٹی نے ان کی تفصیلات طلب کر لیں۔

کمیٹی کو بتایا گیا کہ گزشتہ دس برسوں میں 12 ہزار382 ملازمین ادارے سے فارغ ہو چکے ہیں جن میں سے 5701 ریٹائرڈ ہوئے،128 نکالے گئے،359 نے استعفی دیا،39 میڈیکل گراؤنڈ پر گئے،397 سکیم کے تحت رضا کارانہ چھوڑ گئے،577 انتقال کر گئے وغیرہ شامل تھے۔ 12 ہزار382 ملازمین سے 4 ہزار588 افسران جبکہ 7794 ورکرز تھے۔پاکستان سٹیل ملز کے موجودہ ملازمین کی تعداد 2286 ہے جن میں سے 166 افسران اور2120 ورکرز ہیں۔ 2286 ملازمین کی سالانہ تنخواہ 1.67 ارب روپے ہے۔گزشتہ دس برسوں میں ملازمین کو 32 ارب روپے کی تنخواہ ادا کی گئی اور گزشتہ 10  برسوں میں 7 ارب کی گیس ادارے میں استعمال کی گئی۔ چیئرمین کمیٹی سینیٹر عون عباس کے سوال کے جواب میں سی ایف او عارف شیخ نے کمیٹی کو بتایا کہ انہوں نے 2011 میں پاکستان سٹیل ملز کو جوائن کیا تب یہ مل تقریبا بند ہو چکی تھی صرف 36 فیصد کپیسٹی پر چل رہی تھی۔2000 سے2008 تک یہ ملز اوسطا 80 فیصد کپیسٹی کے ساتھ منافع دے رہی تھی۔ 2009 میں بین الاقوامی مسئلہ آیا جو دنیا کے بڑے بنکوں کی وجہ سے تھا۔

30 جون2009 کو یہ ملز 36 فیصد کپیٹی پر آ گئی اور 26 ارب کا نقصان ہوا جس کی انکوائری نیب اور سپریم کورٹ دونوں نے کرائی۔ قائمہ کمیٹی نے پاکستان سٹیل ملز کے حوالے سے ہونے والی تمام انکوائری رپورٹس طلب کر لیں۔ کمیٹی کو بتایا گیا کہ  2009 میں ادارے نے حکومت سے کمرشل قرض 15 فیصد پر حاصل کیا اور 6.5 ارب کی ایل سی کی ادائیگی کی۔ کم فنڈز کی وجہ سے پیداواری کپیٹی کم سے کم ہوتی گئی۔ کمیٹی کو بتایا گیا کہ اس ادارے کے 27 ہزار ملازمین تھے جبکہ 2008
میں ملازمین کی تعداد 20 ہزار تھی اس وقت بھی ادارے کی ضرورت کل 7 ہزار ملازمین کی تھی۔ چیئرمین کمیٹی کے سوال کے جواب میں بتایا گیا کہ 2010 میں ساڑھے 4 ہزار ڈیلی ویجز اور کنٹریکٹ ملازمین کو ریگولر کرنے کی حکومت نے ہدایا ت دیں۔ادارے کی جانب سے فنڈز کی کمی کا کہا گیا تو حکومت کی جانب سے فنڈز کی ادائیگی کی یقین دہانی کرائی گئی۔ ان ملازمین کا بوجھ ادارے پر  12 ارب روپے کا پڑا۔ چیئرمین کمیٹی سینیٹر عون عباس نے کہا کہ اتنا منافع دینے والے ادارے کو مناسب حکمت عملی کے تحت چلانا چاہیے تھے ایک حکم نامے کے ذریعے اتنے ملازمین ریگولر کرنا ادارے کا تباہ کرنے کے مترادف تھا۔

سیکرٹری صنعت و پیدا وار نے قائمہ کمیٹی کو بتایا کہ نگران حکومت نے اس ادارے کی نجکاری کے حوالے سے کچھ ترامیم کی تھیں۔مارکیٹ میں ابھی پاکستان سٹیل ملز کا کوئی خریدار نہیں ہے حکومت اس کو سکریپ کرنے اور زمین کو دوسرے مقصد میں استعمال میں لانے کا فیصلہ کر چکی ہے اور وفاقی کیبنٹ نے بھی اس کی منظوری دی ہے۔ زمین وفاق کی ہے یا سندھ حکومت کی اس کے لیز کاریکارڈ موجود نہیں ہے۔ اس زمین کو اسٹیٹ لینڈ کے طور پر دیا گیا تھا۔ اس ادارے کی زمین کے دوسرے استعمال کے لئے صوبائی حکومت سے اجازت لینا ضروری ہے۔ اس کی زمین پر ایکسپورٹ پروموشن زون / صنعتی زون کے استعمال میں لانے کا بھی فیصلہ کیا گیا ہے۔ کمیٹی کو بتایا گیا کہ نگران صوبائی حکومت نے نگران وفاقی حکومت کو اس کی زمین استعمال کرنے کی اجازت دی تھی۔ موجودہ حکومت نے نگران حکومت کے فیصلے کو رویو کیا ہے۔ سندھ حکومت ایک نئی سٹیل ملز قائم کرے گی اگر سندھ حکومت نئی سٹیل ملز بناتی ہے تو 7 سو ایکڑ پر قائم کی جائے اور باقی پاکستان سیٹل ملز کے نام زمین رہے گی۔ سندھ کیبنٹ کے فیصلے کا انتظار ہے۔ چیئرمین کمیٹی کے سوال کے جواب میں بتایا گیا کہ اعلی معیار کے لوہے کو سی کیٹگری کے طور پر فروخت کرنے کی کوشش کی گئی تھی مگر فروخت نہیں ہوا۔ کمیٹی اجلاس میں سٹیل ملز سے تعلق رکھنے والے یونین کے نمائندے نے کمیٹی سے درخواست کی کہ ہمیں بتایا جائے کہ پاکستان سٹیل ملز کے ملازمین 12 فیصد کے حقدار ہیں یا نہیں اور کیا یہ مل بحال ہو سکتی ہے یا نہیں ایک جامع رپورٹ دی جائے۔

انہوں نے کہا کہ جو اعداد شمار بتائے گئے ہیں وہ بھی درست نہیں ہیں اور ایکسپورٹ پرومن زون کے لئے اس ادارے کی زمین استعمال نہیں ہو سکتی۔ قائمہ کمیٹی نے آئندہ اجلاس میں تفصیلات طلب کر لیں۔ سینیٹر سیف اللہ سرور خان نیازی نے کہا کہ اس ادارے کا ابھی تک سی ای او کا تقرر نہیں کیا جاسکا۔چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ اس ادارے کے بورڈ آف گورنر کا کیا اسٹیٹس ہے۔ ممبران بورڈ کی مکمل تفصیلات آئندہ اجلاس میں فراہم کی جائیں۔ چیئرمین کمیٹی سینیٹر عون عباس نے کہا کہ قائمہ کمیٹیاں پارلیمنٹ کا اہم حصہ ہیں۔ وفاقی وزرا پارلیمنٹ کی کمیٹیوں میں اپنی حاضری یقینی بنائیں ہم ہر طرح کی سہولت اور تعاون فراہم کریں گے جس سے ملک وقوم کو فائدہ ہو اور عوام کی حالت میں بہتری آئے۔ وزرا کی موجود گی میں کمیٹی اجلاسوں میں ہونے والے فیصلوں پر عملدرآمد یقینی ہو جاتا ہے۔ سینیٹر دوست علی جیسر نے کہا کہ سٹیل ملز کی گیس بند نہیں کرنی چاہیے ورنہ پلانٹ چلانے کے لئے مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔چیئرمین کمیٹی نے یہ بھی ہدایت کی کہ سیکرٹری وزارت صنعت و پیدا وار پاکستان سٹیل ملز یونین کے نمائندوں سے ملیں اور معاملات کو بہتر بنائیں۔