عالمی ادارہ صحت نے خطہ کشمیر اور لداخ  کے نقشے بارے بھارتی موقف تسلیم کرنے سے انکار کر دیا


 جنیوا،نئی دہلی:عالمی ادارہ صحت نے خطہ کشمیر اور لداخ  کے نقشے بارے بھارتی موقف تسلیم کرنے سے انکار کر دیا ہے ۔بھا رتی حکومت کا جاری کردہ نقشہ اپنی سائٹ پر لگانے سے  انکار کر دیا گیا ہے ۔

مغربی نشریاتی ادارے کے مطابق عالمی ادارہ صحت نے کی ویب سائٹ پر کورونا وائرس سے متعلق ڈیش بورڈ پر بھارت کا جو نقشہ پیش کیا گیا تھا اس میں متنازعہ خطے جموں و کشمیر اور لداخ کو بھارتی نقشے میں شامل نہیں ہے۔

عالمی ادارہ صحت نے اپنی ویب سائٹ پر ایک وضاحتی بیان کہا  ہے کہ اس کے اس نقشے کا مطلب کسی ملک کی سرحد کا تعین نہیں ہے ۔مغربی نشریاتی ادارے کے مطابق بھارتی پارلیمان کے بجٹ اجلاس کے پہلے ہی روز متنازعہ خطے جموں و کشمیر کے مبینہ طور پر غلط نقشے پر گہری تشویش کا اظہار کیا گیا ہے۔ وزیراعظم نریندر مودی کی حکومت میں شامل ایک سرکردہ وزیر جیوتی رادتیہ سندھیا نے سوال پوچھا کہ آخر عالمی ادارہ صحت کی ویب سائٹ پر بھارتی سرحدوں کو غلط انداز سے کیوں پیش کیا جا رہا ہے۔

کے پی آئی  کے مطابق  بھارتی وزیر مملکت برائے خارجہ وی مرلی دھرن نے کہا، عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) کی ویب سائٹ پر بھارتی نقشے کی غلط تصویر کشی کا معاملہ اعلی سطح پر ادارے کے حکام کے ساتھ سختی سے اٹھایا گیا ہے۔وزیر کا مزید کہنا تھا کہ ڈبلیو ایچ او نے جنیوا میں بھارتی مشن کو مطلع کیا ہے کہ انہوں نے اس معاملے میں اپنے پورٹل پر وضاحت پیش کرتے ہوئے اپنی دستبرداری کی بھی نشاندہی کی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ چند خصوصی عہدیداروں کی جانب سے پیش کردہ مواد کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ڈبلیو ایچ او کی جانب سے کسی ملک، علاقے یا خطے کی سرحدوں کو قانونی حیثیت دی گئی ہو یا سرحدوں یا حدود کی حد بندی کے بارے میں کسی رائے کا اظہار کیا گیا ہو۔ نقشوں پر نقطے دار اور ڈیشڈ لائنیں اندازا ان سرحدی لکیروں کی نمائندگی کرتی ہیں جن کے بارے میں ابھی تک کوئی مکمل معاہدہ نہیں ہو سکا ہے۔

واضح رہے کہ ڈبلیو ایچ او کی مختلف ویب سائٹوں پر بھارت کا جو نقشہ اس وقت موجود ہے اس میں بھارت کے زیر انتظام خطہ کشمیر اور لداخ کو بھارت کا حصہ دکھانے کے بجائے، ایک الگ علاقہ دکھایا گیا ہے اور اسی پر بھارت کو سخت اعتراض ہے۔چند روز قبل ہی ترنمول کانگریس سے تعلق رکھنے والے رکن پارلیمان سانتنو سین نے اس نقشے کے حوالے سے گہری تشویش کا اظہار کرتے ہوئے اپنی ایک ٹویٹ پوسٹ میں حکومت سے اس معاملے پر فوری اقدام کا مطالبہ کیا تھا۔

انہوں نے وزیر اعظم نریندر مودی کو ٹیگ کرتے ہوئے ڈبلیو ایچ او کی سائٹ کے متنازعہ نقشے کا لنک بھی پوسٹ کیا تھا۔ انہوں نے لکھا، جموں و کشمیر کو بھارت سے مختلف رنگ میں الگ دکھایا گیا ہے۔ اگر اس پر کووڈ کے لیے کلک کریں تو بھارت کے بجائے پاکستان اور چین کا ڈیٹا دکھائی دیتا ہے۔

انہوں نے وزیر اعظم مودی کے نام اپنے ایک مکتوب میں یہ بھی لکھا ہے کہ متنازعہ ریاست اروناچل پردیش کے بھی ایک حصے کو بھارت سے بالکل الگ پیش کیا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ حکومت کو عوام کے سامنے اس بات کی وضاحت پیش کرنی چاہیے کہ آخر اتنی مدت سے اس غلطی کو درست کیوں نہیں کیا گیا۔

گزشتہ برس ڈبلیو ایچ او کی ویب سائٹ پر کورونا وائرس سے متعلق ڈیش بورڈ پر بھارت کا جو نقشہ پیش کیا گیا تھا اس میں متنازعہ خطے جموں و کشمیر اور لداخ کو بھارتی نقشے سے بالکل مختلف رنگ میں پیش کیا گیا۔ اس کے برعکس اکسائی چن سمیت خطے کے دیگر متنازعہ علاقوں کو چین کے نقشے میں دکھایا گیا ہے۔ بھارت کو اسی پر سخت اعتراض ہے اور اسی لیے اس نے حالیہ مہینوں میں تین بار اس معاملے کو ڈبلیو ایچ او کے ساتھ اٹھایا۔ بھارت نے اس معاملے پر ڈبلیو ایچ او کے سربراہ ٹیڈروس اڈہانوم گیبیریئس کے نام ایک سخت مکتوب بھی بھیجا تھا اور تب سے جنیوا میں بھارتی حکام اس نقشے کو ہٹا کر دوسرا نقشہ لگانے کا مطالبہ کرتے رہے ہیں۔

بھارت کا موقف ہے کہ عالمی ادارے کو بھارتی حکومت کا جاری کردہ نقشہ اپنی سائٹ پر لگانا چاہیے۔ لیکن ادارے نے ایسا کرنے کے بجائے اپنی ویب سائٹ پر ایک وضاحتی بیان شائع کر کے یہ کہا کہ اس کے اس نقشے کا مطلب کسی ملک کی سرحد کا تعین نہیں ہے۔

بھارت اور پاکستان کے زیر انتظام خطہ کشمیر ایک متنازعہ علاقہ ہے جس پر دونوں ملک اپنا اپنا دعوی کرتے ہیں۔ بھارت اسے اپنا اٹوٹ حصہ بتاتا ہے جبکہ پاکستان کا موقف ہے کہ بھارت اس علاقے پر غیر قانونی طور پر قابض ہے اور اس کے حل کے لیے استصواب رائے کی وکالت کرتا ہے۔جی 20 سربراہی اجلاس کی میزبانی کرنے پر بطور یادگار سعودی عرب نے اپنا بیس ریال کا جو نیا کرنسی نوٹ جاری کیا تھا اس میں بھی پورے خطہ کشمیر کو بھارت اور پاکستان سے الگ رکھا گیا ہے۔ بھارت نے اس پر بھی سخت اعتراض کیا تھا۔