پاکستان کے 27ویں چیف جسٹس گلزاراحمد عہدے سے سبکدوش


اسلام آباد(صباح نیوز) پاکستان کے 27ویں چیف جسٹس گلزاراحمد عہدے سے سبکدوش ہوگئے ،ان کی سبکدوشی کے بعد جسٹس عمر عطابندیال آج ملک کے 28ویں منصف اعلی کے عہدے کا حلف اٹھائیں گے ۔صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی ایوان صدر میں منعقدہ تقریب میں چیف جسٹس پاکستان سے عہدے کا حلف لیں گے ۔ آئین کی رو سے سپریم کورٹ آف پاکستان میں ججز کی کل منظور شدہ آسامیوں کی تعداد 17 ہے  چیف جسٹس کی ریٹائرمنٹ کے بعد ایک آسامی خالی ہو گئی ہے اور جسٹس قاضی فائز عیسی سینئر ترین جج بن چکے ہیں ۔

موجودہ چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس عمرعطابندیال کے بعد جسٹس قاضی فائز عیسی، جسٹس اعجاز الاحسن، جسٹس سید منصور علی شاہ، جسٹس منیب اختر اور جسٹس یحی آفریدی اور واحد خاتون جج عائشہ اے ملک بطور چیف جسٹس آف پاکستان خدمات انجام دیں گے۔ موجودہ 16ججز میں سے سات ججز جسٹس عمر عطا بندیال ، جسٹس سردار طارق مسعود ، جسٹس اعجاز الاحسن، جسٹس سید منصور علی شاہ ، جسٹس قاضی محمد امین احمد، جسٹس امین الدین خان اور جسٹس سیدمظاہر علی اکبر نقوی کا تعلق پنجاب سے ہے، جبکہ  چارججز، جسٹس مقبول باقر، جسٹس سید سجاد علی شاہ،جسٹس منیب اختراور جسٹس محمدعلی مظہر کا تعلق صوبہ سندھ سے ہے۔

سپریم کورٹ کے دو ججز جسٹس مظہر عالم خان میاں خیل اور جسٹس یحی آفریدی کا تعلق خیبر پختونخوا، جبکہ جسٹس قاضی فائز عیسی، جسٹس جمال خان مندوخیل کا تعلق بلوچستان سے ہے۔چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس گلزار احمد دو فروری1957کو کراچی میں پیدا ہوئے اور ان کے والد کا نام مرحوم نور محمد ایڈووکیٹ تھا۔

جسٹس گلزار احمد 27اگست 2002کو بطور جج سندھ ہائی کورٹ تعینات ہوئے ۔ جسٹس گلزار احمد 16نومبر 2011کو سپریم کورٹ آف پاکستان کے جج مقرر ہوئے جبکہ وہ21دسمبر2019کو پاکستان کے 27ویں چیف جسٹس مقرر ہوئے ۔ جسٹس گلزار احمد دو فروری 2022کو اپنی 65سالہ ریٹائرمنٹ کی عمر کو پہنچنے پر ریٹائرڈ ہوگئے ہیں ۔

نئے چیف جسٹس عمر عطا بندیال آٹھ ستمبر2023کو اپنی 65سالہ مدت ملازمت مکمل کرنے کے بعد اپنے عہدے سے ریٹائرڈ ہو جائیں گے۔جسٹس عمر عطابندیال نو ستمبر 1958کو لاہور میں پیدا ہوئے۔ جسٹس عمر عطا بندیال کو چار دسمبر 2004کو لاہور ہائی کورٹ کا جج مقرر کیا گیا۔جسٹس عمر عطا بندیال نے تین نومبر2007کے سابق صدر جنرل پرویز مشرف کے پی سی او کے تحت حلف اٹھانے سے انکار کردیا تھا تاہم وہ وکلا تحریک کے نتیجہ میں دوبارہ اپنے عہدے پر بحال ہو گئے۔

جسٹس عمر عطا بندیال یکم جون2012کو لاہور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس مقرر ہوئے اور 16جون2014کو انہیں سپریم کورٹ آف پاکستان کا جج مقرر کیا گیا۔جسٹس عمر عطا بندیا ل کی ریٹائرمنٹ کے بعد جسٹس قاضی فائز عیسی نو ستمبر 2023کو پاکستان کے 29ویںچیف جسٹس بنیں گے۔ جسٹس قاضی فائز عیسی 26اکتوبر 1959کو کوئٹہ میں پیدا ہوئے۔ جسٹس قاضی فائز عیسی کے والد قاضی محمد فائز عیسی تھا جو بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناح کے قریبی ساتھی تھے۔

تین نومبر 2007کو سابق صدر جنرل پرویز مشرف کی جانب سے ایمرجنسی نافذ کرنے اور ججز سے نیا حلف لینے کے بعد قاضی فائز عیسی نے پی سی او کے تحت حلف لینے والے ججز کے سامنے پیش ہونے سے انکار کردیا تھا۔ سپریم کورٹ آف پاکستان کی جانب سے تین نومبر 2007کی ایمرجنسی کے اقدام کو کالعدم قراردینے کے بعد بلوچستان ہائی کورٹ کے تمام ججز کو اپنے عہدوں سے مستعفی ہونا پڑا تھا جس کے بعد جسٹس قاضی فائز عیسی براہ راست پانچ اگست2009کو بلوچستان ہائی کورٹ کے چیف جسٹس مقرر ہوئے۔

جسٹس قاضی فائز عیسی کو پانچ ستمبر 2014کو سپریم کورٹ آف پاکستان کا جج مقرر کیاگیا۔ جسٹس فائز عیسی کے خلاف حکومت کی جانب سے بیرون ملک بے نامی جائیدادیں بنانے کے الزام پر صدارتی ریفرنس دائر کیا گیا تاہم سپریم کورٹ کے 10رکنی بینچ نے یہ ریفرنس کالعد م قراردے دیا

جسٹس قاضی فائز عیسی ، جسٹس عمر عطا بندیال کے ریٹائرڈ ہونے کے بعدنو ستمبر2023کو پاکستان کے نئے چیف جسٹس بنیں گے اور 25اکتوبر2024کو اپنی65سالہ مدت ملازمت مکمل کرنے کے بعد تقریبا ایک سال اور ڈیڑھ ماہ تک ملک کے چیف جسٹس رہنے کے بعد اپنے عہدے سے ریٹائر ہو جائیں گے۔

بعدازاں اسلام آباد میں فل کورٹ ریفرنس سے خطاب کے دوران عہدے سے سبکدوش ہونے  پرچیف جسٹس گلزار احمد نے اپنی تمام ترکامیابیوں کا سہرا اپنے والد محمد نور ایڈووکیٹ کے سر سجایا۔بطور چیف جسٹس اپنی پیشہ ورانہ بلندیوں کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ سندھ ہائی کورٹ کا جج بھی بنا اور اس وقت بھی ایمانداری سے کام کیا، نومبر 2011 میں مجھے سپریم کورٹ کا جج مقرر کیا گیا اور دسمبر 2019 میں سپریم کورٹ چیف جسٹس کا عہدہ سنبھالا۔

سابق چیف جسٹس گلزار احمد کا کہنا تھا کہ بحیثیت چیف جسٹس نہ صرف کیسز کے فیصلے کیے بلکہ انتظامی امور کی ذمہ داریاں بھی ادا کیں۔انہوں نے کہا کہ کورونا وائرس کے دوران بھی انہوں نے عدالتی امور انجام دیئے اور ویڈیو لنک کے ذریعے کیسز کی سماعت کی۔

جسٹس (ر)گلزار احمد نے بتایا کہ ان کے دور میں 38ہزار 680 کیسز التوا کا شکار تھے، بحیثیت چیف جسٹس انہوں نے 4ہزار 392 کیسز پر فیصلہ سنایا۔

فل کورٹ ریفرنس پر سپریم کورٹ بار ایسوسی کے صدر احسن بھون نے ریٹائرڈ چیف جسٹس گلزار احمد کو شدید تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ چیف جسٹس گلزار احمد کے بطور جج تقرر پر سینیارٹی کے اصول کی خلاف ہوئی میرٹ کے برعکس تعیناتیوں کے باعث عدلیہ کو سنگین بحران کا سامنا ہے۔

صدر سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن یہ بھی کہا کہ اسلام آباد، لاہور اور پشاور ہائیکورٹ میں ججز کی تعیناتی میں سینیارٹی کے اصول پامال کیے گئے۔

اس موقع پر احسن بھون نے چیف جسٹس گلزار احمد فیصلوں کی تعریف بھی کی اور کہا کہ انہون نے مقامی حکومتوں کی تحلیل کیخلاف تاریخ ساز فیصلہ دیا لیکن 7ماہ گزرنے کے باوجود بھی مقامی حکومتوں کے فیصلے پرعملدرآمد نہیں کیا گیا۔

انہوں نے مزید کہاکہ پنجاب حکومت کے رویے کیخلاف متاثرہ فریقین کی درخواستوں کو شنوائی نہیں ملی، عدالتی فیصلوں پر عملدرآمد نہ ہونے پر ایک منتخب وزیراعظم کو گھر بھیج دیا گیا۔احسن بھون کا مزید کہنا تھا کہ وکلا تنظیموں نے آئین وقانون کی بالادستی پر کبھی سمجھوتہ نہیں کیا لیکن جوڈیشل کمیشن میں ججز کی اکثریت سے باقی نمائندوں کی رائے غیر موثر کردی گئی۔

ریٹائرڈ چیف جسٹس سے متعلق گفتگو کرتے ہوئے سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر کا مزید کہنا تھا کہ اعلی عدالتوں کے فیصلوں اور ان پر عملدرآمد کے معیار یکساں ہوں گے تو کسی کو انگلی اٹھانے کا موقع نہیں ملے گا۔انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ میں ججز کی زیادہ تر تعیناتیاں ذاتی پسند اور نا پسند کی بنیاد پر ہوئیں وکلا تنظیموں نے آرٹیکل 209 کے تحت جوڈیشل کمیشن کے اختیارات پر عدم اطمینان کا اظہار کیا ہے۔احسن بھون نے شکوہ کیا کہ قانون اور آئین کے تحت یکساں احتساب کے بجائے من پسند احتساب کو ترجیح دی گئی۔

جسٹس قاضی فائز عیسی کے ریفرنس سے متعلق انہوں نے سوال کیا کہ کیا ایک جرات مند جج نے ایک ادارے کے ذیلی سربراہ پر عدم اعتماد کا اظہار کر کے آئین سے روگردانی کی، جسٹس قاضی فائز عیسی اور ان کے اہل خانہ پر کیچڑ اچھالا گیا۔انہوں نے جسٹس قاضی فائزعیسی کے خلاف جھوٹے ریفرنس ختم کرنے کا سپریم کورٹ کا فیصلہ تاریخ ساز قرار دیا۔فل کورٹ ریفرنس سے خطاب میں اٹارنی جنرل خالد جاوید خان کا کہنا تھا کہ قانون کی بالادستی کیلئے ماضی کے تلخ تجربات کو ذہن میں رکھنا ہوگا، کسی نے تصور بھی نہیں کیا تھا کہ آئین توڑنے والا سزا پا کر بھاگ جائے گا۔

ان کا کہنا تھا کہ عدلیہ آئین اور پارلیمانی نظام حکومت کی محافظ ہے،چیف جسٹس نے بلدیاتی اختیارات پر آج اہم فیصلہ صادر کیا، موجودہ نظام سے اچھے نتائج سامنے آئیں گے۔سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کی مخالفت کرتے ہوئے اٹارنی جنرل نے کہا کہ جسٹس عائشہ ملک قابلیت کی بنیاد پر سپریم کورٹ کی پہلی خاتون جج مقرر ہوئیں، ججز کی تعیناتی میں شفافیت پر سمجھوتہ نہیں کیا جا سکتا۔

اس موقع پر وائس چیئرمین پاکستان بار ایسوسی ایشن حفیظ الرحمن چوہدری نے فل کورٹ ریفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ چیف جسٹس گلزار احمد نے دفاعی زمینوں کو کمرشل مقاصد کیلئے استعمال کا قابل تحسین ازخود نوٹس لیا۔جوڈیشل کمیشن کے قیام سے امید بندھی تھی کہ ججز کا تقرر میرٹ اور شفافیت کی بنیاد پر ہوگا، بدقسمتی سے اکثر ججز صاحبان کی تعیناتی مطلوبہ معیار کے مطابق نہیں کی گئی۔انہوں نے تاحیات نا اہلی کے خلاف درخواست کی واپسی شکوہ کرتے ہوئے کہا کہ چیف جسٹس نے انہیں مایوس کیا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ یہ تاثر عام ہے کہ خفیہ ادارے ارباب اختیار کی نجی زندگی کی معلومات یکجا کر کے انہیں بلیک میل کرتے ہیں، عدالت عظمی خفیہ اداروں کی بلیک میلنگ پر غیر جانبدارانہ نگرانی کرے۔نئے چیف جسٹس پاکستان کیلیے نیک خواہشات کا اظہار کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ پاکستان بار مطمئن ہے کہ جسٹس عمر عطا بندیال جیسی شفیق شخصیت کے پاس اعلی ادارے کا اختیار منتقل ہو رہا ہے

قبل ازیں چیف جسٹس پاکستان جسٹس گلزار احمد نے اپنی ریٹائرمنٹ کے روزآخری کیس موٹروے پولیس اہلکار مقصود احمدکی ملازمت سے متعلق سنا۔

چیف جسٹس پاکستان جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں جسٹس محمد علی مظہر اور جسٹس عائشہ اے ملک  پر مشتمل تین رکنی بینچ نے کیس کی سماعت کی ،عدالت نے مقصود احمد کی ملازمت برطرفی کے خلاف درخواست ابتدائی سماعت کیلئے منظور کرلی اور فریقین کو نوٹس جاری کردیئے۔

یاد رہے کہ مقصود احمد کو ذہنی بیماری کے باعث غیر حاضری پر 2015 میں موٹروے پولیس سے نکال دیا گیا تھا جس پر اس نے سروس ٹربیونل کا فیصلہ سپریم کورٹ میں چیلنج کر رکھا ہے۔