کراچی (صباح نیوز)وزیراعلی سندھ سید مراد علی شاہ کی زیر صدارت جمعرات کو وزیراعلی ہاس میں صوبائی کابینہ کے اجلاس میں گنے کی قیمت کے تعین، 1500 سبجیکٹ اسپیشلسٹ کی تقرری اور ویسٹ ٹو انرجی پالیسی کی منظوری جیسے اہم فیصلے کیے گئے۔
اجلاس میں صوبائی وزرا، وزیراعلی کے مشیران، معاونین خصوصی، چیف سیکرٹری ممتاز شاہ اور دیگر متعلقہ افسران نے شرکت کی۔وزیراعلی سندھ کے مشیر برائے زراعت منظور وسان نے اجلاس کو بتایا کہ حکومت فیکٹریوں میں استعمال کیلئے گنے کی سپلائی اور قیمت خرید کو ریگولیٹ کرتی ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ 19-2018 میں امدادی قیمت 182 روپے فی 40 کلو گرام، 20-2019 میں 192 روپے اور19-2020 میں 202 روپے مقرر کی گئی تھی۔ مذکورہ تینوں سیزن کے دوران کرشنگ 30 نومبر کو شروع ہوئی ۔
کابینہ کو بتایا گیا کہ قانون کے تحت شوگر ملز مالکان کو کرشنگ سیزن کے اختتام پر کوالٹی پریمیم ادا کرنا ہوگا۔ کابینہ نے کاشتکاروں اور ملز سے مشاورت سمیت مختلف عوامل پر غور کیا اور 15 نومبر تک کرشنگ سیزن شروع کرنے کی منظوری دی۔ کابینہ نے تفصیلی غور و خوص کے بعد گنے کی قیمت 250 روپے فی 40 کلو گرام اور پریمیم 0.50 روپے فی 40 کلو گرام کرنے کا فیصلہ کیا۔ سپورٹ پرائس بڑھانے کی وجہ زرعی اشیا کی قیمتوں میں مجموعی طور پر اضافے کا نتیجہ تھا۔
وزیراعلی سندھ کے مشیر برائے زراعت منظور وسان نے کابینہ کو بتایا کہ سیزن19-2018 اور20-2019 کیلئے گندم کی قیمت 1400 روپے فی 40 کلو گرام مقرر کی گئی تھی۔ انہوں نے مزید کہا کہ 22-2021میں وفاقی حکومت نے قیمت 1800 فی 40 کلوگرام مقرر کی لیکن سندھ حکومت نے مزید کاشت کاروں کی حوصلہ افزائی کیلئے قیمت 2000 روپے فی 40 کلو مقرر کی۔ اجلاس کو بتایا گیا کہ فصل کی کٹائی کے سیزن 22-2021 کیلئے فی ایکڑ گندم کی پیداواری کی لاگت کا تخمینہ 2000 روپے فی 40 کلوگرام لگایا گیا جس کی اوسط پیداوار 34 من فی ایکڑ ہے۔
بھوسہ کی فروخت سے ریکوری کا تخمینہ 250 روپے فی 40 کلوگرام لگایا گیا اس لیے پیداوار کی اصل لاگت 1750 روپے فی 40 کلوگرام بنی ۔ محکمہ زراعت نے امدادی قیمت 2000 روپے فی 40 کلو گرام رکھنے کی تجویز دی۔
وزیراعلی سندھ نے محکمہ زراعت کو ہدایت کی کہ گندم کی قیمتوں کے تعین کیلئے دوسرے صوبوں سے مشاورت کی جائے اور اس کے بعد تجویز کابینہ کے سامنے لائی جائے۔
وزیر تعلیم سید سردار شاہ نے کابینہ کو بتایا کہ محکمہ کالج ایجوکیشن کو تدریسی عملے کی دو طرح کی شدید کمی کا سامنا ہے ایک کالجوں میں خاص مضامین میں تدریسی عملے کی عدم دستیابی اور دوسرا دیہی علاقوں میں مختلف وجوہات کی بنا کمی شامل ہے۔
وزیر تعلیم نے مزید کہا کہ ان میں کے ذریعے 20 فیصد سیٹوں کا نہ بھرنا، بھرتی کے قانون کے مطابق گریڈ 18،19،20 براہ راست شمولیت کیلئے مخصوص ہیں۔ کے ذریعے بھرتی کے معمول کا پیچیدہ /طویل عمل؛ دیہی سے شہری منتقلی کا عام رجحان، گھر کے قریب، انتظامی عہدوں، ڈیپوٹیشن وغیرہ اور ریٹائرمنٹ، استعفی، انتقال وغیرہ کی وجہ سے سروس سے عام اخراج(اساتذہ کی قلت کا سبب ہیں)۔ محکمہ کالج ایجوکیشن کے مطابق گریڈ 17 سے 20 تک لیکچررز کی 11311 منظور شدہ آسامیاں تھیں جن میں 7699 کام کر رہے ہیں اور 2676 آسامیاں خالی ہیں جن میں سے 20 فیصد یعنی 914 کو براہ راست انڈکشن کے ذریعے پر کیا جانا ہے اور 3590
کلیئر ہیں۔ کالجز میں تدریسی عمل جاری رکھنے کیلئے خالی اسامیوں کو پر کرنا ہوگا۔ سردار شاہ نے خالی اسامیوں کے حوالے بتایا کہ انگریزی ٹیچرز /لیکچرار کی 65، اردو کی 90، کیمسٹری کی40، فزکس کی36، باٹنی کی 70، زولوجی 69، پاکستان اسٹڈیز 177اور 134 اسلامک اسٹڈیز کی آسامیاں ہیں۔
انہوں نے کہا کہ مختلف کالجز خصوصا صوبے کے دور دراز علاقوں میں تدریسی عملے کی شدید کمی کو جانچنے کیلئے کالج ٹیچنگ انٹرن (سی ٹی آئی)کی پالیسی اعتماد بخش ہے ،جس سے قابل امیدواروں کا انتخاب کرکے موجود خلا کو پر کیا جاسکتا ہے۔ کابینہ نے تفصیلی بحث کے بعد کالج ٹیچنگ انٹرنز پروگرام 2021 کے تحت 1500 کالجز ضلع سطح پر ناقابل منتقلی “مضامین کے ماہرین/اساتذہ” کی سات ماہ کیلئے 60000 روپے ماہانہ وظیفہ پر تقرری کی منظوری دی۔
وزیر توانائی امتیاز شیخ نے “ویسٹ ٹو انرجی پالیسی'”کا ڈرافٹ پیش کرتے ہوئے کہا کہ 20 ملین سے زیادہ آبادی والے کراچی شہر میں کچرے کی پیداوار 0.59 کلوگرام فی کس ایک دن ہے جس کا مطلب کل11000- 10000 ٹن کچرا ایک دن میں جمع ہوتا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ صرف کراچی روزانہ 10000 ٹن سے زیادہ کچرا پیدا کرتا ہے، حیدرآباد صوبے کا دوسرا بڑا شہر ہے جو1100-1000 ٹن، سکھر 400 ٹن اور لاڑکانہ 325 ٹن پیدا کرتا ہے۔
وزیر توانائی نے کہا کہ فضلے میں توانائی کے وسائل پیدا کرنے کی صلاحیت ہوتی ہے جیسے فضلہ سے بجلی کی پیداوار، فضلہ سے آر ڈی ایف (ریفیوز ڈرایوڈ فیول)، فضلہ سے گیسیفیکیشن، فضلہ سے کھاد اور صنعت میں بھاپ پیدا کرنے کیلئے حرارت فراہم کرتا ہے۔
وزیر توانائی نے کہا کہ توانائی بورڈ کے پاس سالڈ ویسٹ سے بجلی پیدا کرنے کی اجازت دینے کا اختیار ہے پہلے مرحلے میں پالیسی کو کراچی میں 50 میگاواٹ کے پراجیکٹس کے ساتھ لاگو کیا جائے گا۔ فیز II میں کچرے سے توانائی کے منصوبوں کی ترقی کیلئے پالیسی کو پورے سندھ تک بڑھایا جائے گا۔
پالیسی پراجیکٹ کے تحت ڈویلپرز کو میونسپل سالڈ ویسٹ استعمال کرتے ہوئے پاور پلانٹس لگانے کی اجازت ہوگی اور کے الیکٹرک / حیسکو/سیپکو کو بجلی فروخت کی جاسکے گی۔ پروجیکٹ کے ڈویلپرز متعلقہ خریدار سے بجلی کی خریداری کی رضامندی حاصل کریں گے۔ میونسپل سالڈ ویسٹ ویسٹ ٹو انرجی پروجیکٹس کو مفت فراہم کیا جائے گا جو متعلقہ میونسپل ایجنسی کی طرف سے نامزد لینڈ فل سائٹس میں یا اس کے قریب واقع ہے۔ پروجیکٹ کے ڈویلپر کو جی ٹی ایس سے کچرے کو پروجیکٹ سائٹ تک پہنچانے کیلئے ایس ایس ڈبلیو ایم بی کی جانب سے جی ٹی ایس سے لینڈ فل سائٹ تک فضلہ کی آمدورفت کیلئے کیے جانے والے موجودہ اخراجات کے 75 فیصد کے برابر ٹپنگ فیس کے ساتھ سہولت فراہم کی جائے گی۔کابینہ نے پالیسی کی منظوری دے دی۔محکمہ ثقافت : وزیر ثقافت سید سردار شاہ نے تاریخی پس منظر پیش کرتے ہوئے کہا کہ یہ موہن جو دڑو نہیں موہنجو دڑو تھا۔
انہوں نے مزید کہا کہ موہن جو دڑو کی کھدائی مسٹر آر ڈی بنرجی نے 1922 میں کروائی اور اس کے دو سال بعد ہڑپا کی ایک بڑی کھدائی ہوئی۔ 1942 میں سر جان مارشل نے ہندوستان کے آثار قدیمہ کے سروے کی سالانہ رپورٹ میں سرکاری طور پر اطلاع دی ۔ اس نے کچھ تاریخی دستاویزات دکھائیں جن میں آرتھر پروباسٹین اور جان مارشل نے موہن جو دڑو کا نام لکھا ہے۔ انہوں نے کابینہ سے درخواست کی کہ موہن جو دڑو کے املا میں ابہام کی منظوری دی جائے۔
وزیراعلی سندھ نے ڈاکٹر عذرا فضل پیچوہو، سید سردار شاہ، اسماعیل راہو اور مرتضی وہاب پر مشتمل ایک کمیٹی تشکیل دی جو ماہر ین سے مشاورت کے بعد معاملہ کابینہ میں پیش کرے گی۔
وزیر توانائی نے کابینہ کو بتایا کہ کے الیکٹرک نے گرڈ اسٹیشن کے قیام کیلئے دیہہ لال بکھڑ، ضلع کیماڑی میں 40 ایکڑ زمین الاٹ کرنے کی درخواست کی ہے۔ کابینہ نے درخواست کا جائزہ لینے اور رپورٹ پیش کرنے کے لیے امتیاز شیخ، ناصر شاہ، سعید غنی پر مشتمل کمیٹی تشکیل دی۔صوبائی کابینہ نے بورڈ آف ریونیو کو دسمبر 2021 سے ای سٹیمپنگ شروع کرنے کی ہدایت کی۔ سندھ بورڈ آف ریونیو نے ای سٹیمپ سسٹم شروع کرنے کیلئے پنجاب انفارمیشن ٹیکنالوجی بورڈ کے ساتھ معاہدے میں سروس لیول ایگریمنٹ پر دستخط کیے ہیں۔ کابینہ نے ای اسٹیمپ سسٹم کو قانونی تحفظ فراہم کرنے کیلئے اسٹیمپ ایکٹ میں بھی ترمیم کی۔