کمپنی کی حکومت : تحریر حامد میر


جن معاشروں میں قانون کی حکمرانی نہیں ہوتی وہاں مزاحمتی شاعری قتل سے بڑا جرم بن جاتی ہے۔ جس ریاست کے ادارے ایک شاعر سے خوفزدہ ہو کر اسے قید میں ڈال دیں یا لاپتہ کردیں وہ ریاست اندر سے ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوتی ہے۔ برطانیہ کا مشہور شاعر جان ملٹن بادشاہت کے خلاف تھا اس لئے 1660ء میں اسے گرفتار کرلیا گیا لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ برطانوی معاشرے میںاتنی برداشت پیدا ہوگئی کہ وہاں اختلاف رائے کو جمہوریت کا حسن قرار دیا جانے لگا۔ برطانوی معاشرے میں اندرونی ٹوٹ پھوٹ کو ختم کرنے میں جمہوری رویوں نے اہم کردار ادا کیا لیکن دوسری طرف برطانیہ نے ایسٹ انڈیا کمپنی کے ذریعے ہمارے خطے میں اپنی لوٹ مار جاری رکھی اور نوآبادیاتی نظام کے خلاف اٹھنے والی ہر آواز کو دبانے کی کوشش کی۔ برطانوی سامراج بھی باغی شاعروں اور ادیبوں سے خوفزدہ رہتا تھا۔ یہی وہ زمانہ تھا جب باری علیگ نے ’’کمپنی کی حکومت‘‘ کے نام سے ایک کتاب لکھ کر برطانوی حکومت کے چہرے سے جمہوریت اور انسانی حقوق کا نقاب نوچ ڈالا۔ ’’کمپنی کی حکومت‘‘ شاعروں کو ان کی باغیانہ شاعری کی وجہ سے نہیں گرفتار کرتی تھی بلکہ ان پر ایسے الزامات لگا دیتی تھی کہ وہ عوام میں اپنا دفاع نہ کرسکیں۔ مثال کے طور پر ایک دفعہ مرزا غالب کو قمار بازی کے الزام میں چھ ماہ کیلئے پابند سلاسل کردیا گیا۔ مقصد شاعروں کو یہ پیغام دینا تھا کہ وہ ’’کمپنی کی حکومت‘‘ کےبارے میں ذومعنی اشعار کہنے سے گریز کریںورنہ اٹھا لئے جائیں گے۔مولانا حسرت موہانی اور مولانا محمد علی جوہر جیسے شاعر اور صحافی نہ قماربازی کرتے تھے نہ مے نوشی کے شوقین تھے لہٰذا انہیں ان کی باغیانہ تقاریر اور اداریوں کی وجہ سے گرفتار کیا جاتا تھا۔ ’’کمپنی کی حکومت‘‘ شاعروں اور صحافیوں کو اپنے لئے بہت بڑا خطرہ اس لئے سمجھتی تھی کہ بھگت سنگھ جیسے باغی، غالب، ٹیگور اور علامہ اقبالؒ جیسے شاعروں سے متاثر تھے۔ پاکستان میں بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ علامہ اقبالؒ نے بھگت سنگھ کو پھانسی سے بچانے کی سرتوڑ کوشش کی تھی۔

علامہ اقبالؒ ایک سینئر وکیل تھے۔ 1929ء میں بھگت سنگھ پر کمپنی کی حکومت کے خلاف سازش کرنے کے الزام میں مقدمہ چلانے کیلئے ایک خصوصی آرڈی ننس جاری کیاگیا اور آرڈی ننس کے تحت ایک خصوصی عدالت بنائی گئی۔ 1930ء میں لاہور ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن نے ایک کمیٹی بنائی جس میں علامہ اقبالؒ، گوکل چند نارنگ، ملک برکت علی اور نانک چندشامل تھے۔ اس کمیٹی نے اپنی رپورٹ میں بھگت سنگھ کےخلاف جاری کئے جانے والے آرڈی ننس کو غیر آئینی قرار دے دیا لیکن اس کے باوجود خصوصی عدالت نے بھگت سنگھ کو سزائے موت سنا دی۔ 27 فروری 1931ء کو علامہ اقبالؒ نے بھگت سنگھ کی سزائے موت کے خلاف پٹیشن دائر کی جو مسترد کردی گئی اور 23 مارچ 1931ء کو بھگت سنگھ کو لاہور میں پھانسی دے دی گئی۔ اب آپ خود سوچئے کہ پاکستان کا خواب دیکھنے والا شاعر بھگت سنگھ کا دیوانہ تھا جسے کمپنی کی حکومت نے دہشت گرد قرار دے کر پھانسی پر لٹکا دیا۔ جب پاکستان بن گیا تو جس جس نے یہ سوال اٹھایا ہمیں کمپنی کی حکومت کے بنائے گئے سیاہ قوانین سے کب آزادی ملے گی اسے غدار قرار دے کر جیل میں ڈالا گیا۔ قیام پاکستان کے بعد ہمارے ہر بڑے شاعر کو جیل کی ہوا کھانی پڑی۔ فیض احمد فیض صرف شاعر نہیں صحافی بھی تھے۔ انہیں راولپنڈی سازش کیس میں گرفتار کیا گیا۔ حبیب جالب کو شراب نوشی اور قاتلانہ حملہ کرنے کے الزام میں گرفتار کیا گیا۔ شورش کاشمیری اپنے جریدے چٹان میں لکھا کرتے کہ :

ہوں اگر پولیس کے افسر سیاست کا شکار

ملزموں کو پھانس سکتے ہیں کہاں دانہ و دام

کاسہ لیسی سے نہ ہو فرصت اگر حکام کو

روبہ منزل ہو نہیں سکتا حکومت کا نظام

اس قسم کی شاعری کی وجہ سے شورش کاشمیری بھی اکثر جیل کی ہوا کھایا کرتے۔ پہلے تو شاعروں کو کسی نہ کسی الزام میں گرفتار کیا جاتا تھا۔ اب گرفتار نہیں کیا جاتا بلکہ غائب کردیا جاتا ہے۔ 2018ء میں ایک شاعر اور صحافی مدثر نارو نے فیس بک پر اپنی پنجابی نظم پوسٹ کردی جس میں کہا تھا :

کڈھ نئیں سکدے جلسہ ریلی

خلقت دا اے اللّٰہ بیلی

ہُندی پئی اے ٹھاہ ٹھاہ ٹھاہ

ہور کیہہ ہُندا اے مارشل لاء

اس کے بعد مدثر نارو لاپتہ ہوگئے اور آج تک بازیاب نہیں ہوسکے۔ مدثر نارو کی والدہ نے اسلام آباد ہائی کورٹ کے ذریعے اپنے بیٹے کی بازیابی کیلئے بھرپور قانونی جنگ لڑی۔ اسی مقدمے میں وزیر اعظم شہباز شریف عدالت میں پیش ہوئے اور مدثر نارو کی بازیابی کی یقین دہانی کرائی لیکن مدثر نارو بدستور لاپتہ ہے۔ اب اسی اسلام آباد ہائی کورٹ میں آزاد کشمیر کے شاعر احمد فرہاد کی بازیابی کا مقدمہ زیر سماعت ہے جس میں عدالت کے ریمارکس سے حکومت اور اسکے ہم نوا برہم دکھائی دیتے ہیں۔ احمد فرہاد کے یہ اشعار بہت مشہور ہیں:

یہ اپنی مرضی سے سوچتا ہے اسے اٹھا لو

اٹھانے والوں سے کچھ جدا ہے اسے اٹھا لو

وہ بے ادب اس سے پہلے جن کو اٹھا لیا تھا

یہ ان کے بارے میں سوچتا ہے اسے اٹھا لو

احمد فرہاد کی بازیابی کے مقدمے کی سماعت کے دوران جسٹس محسن اختر کیانی نے بڑا قابل غور جملہ کہا۔ انہوں نے کہا کہ یہ احمد فرہاد کی بازیابی کا مقدمہ نہیں رہا یہ پوری قوم کی بازیابی کا مقدمہ بن گیا ہے۔ آج وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ عدلیہ پر پارلیمنٹ کی توہین کا الزام لگا رہے ہیں۔ کیا کوئی یہ بتانا پسند کرے گا کہ اکتوبر 2022ء میں پارلیمنٹ نے جبری گمشدگیوں کے خاتمے کیلئے ایک بل پاس کیا تھا وہ بل کدھر گیا؟اگر پارلیمینٹ اپنے بنائے ہوئے قانون پر عملدرآمد نہیں کرا سکتی تو اس کا مطلب یہ ہے کہ پارلیمنٹ کمپنی کی حکومت کے سامنے بے بس ہے۔ کریمنل لاز ترمیمی بل 2022ء کے ذریعے پاکستان پینل کوڈ 1860ء میں ترمیم کرکے جبری گمشدگی کو قابل سزا جرم قرار دیا گیا۔ اس وقت بھی تارڑ صاحب وزیر قانون تھے۔ آج بھی وہ وزیر قانون ہیں۔ ان سے گزارش ہے کہ میڈیا کو قابو کرنے کیلئے نئے نئے قانون لانے سے قبل 2022ء کے جبری گمشدگی کیخلاف قانون پر عملدرآمد کرا دیں تاکہ یہ تاثر ختم ہو جائے کہ آج پاکستان میں مسلم لیگ ن کی نہیں بلکہ کمپنی کی حکومت ہے۔

بشکریہ روزنامہ جنگ