میرے بیٹے میرے لعل جب بھی کوئی بڑا آواز دے تو ہمیشہ جی کہتے ہیں۔ جی امی جی امی جی سے بھی ایک کمال رشتہ ہے ۔ نہ بتایا جاسکتا ہے نہ چھپایا جاسکتا۔ بھیگی لال آنکھیں سب کوہی بتا دیتی ہیں کہ کوئی امی جی کو یاد کرتا ہے۔ میری پھوپھو اصغری بھی چند دن پہلے اللہ تعالی پاس چلی گئیں ۔ میں اپنی صحت کے ہاتھوں مجبور نہ جاسکا۔ میری پھوپھو زاد چھوٹی بہن صائمہ نے فیس بک پر لکھا امی جی۔ اور کچھ نہیں لکھا پر میری جان ہی نکل گئی۔ مجھے ایسے لگا جیسے لکھا ہو ہائے میری امی جی۔ مجھے اس لفظ کے پیچھے چھپے آنسو، سسکیاں اور چیخیں سنائی دیں۔ جب کبھی گاؤں جاتا تو پھوپھو کہتیں وے اظہر صاحب تینوں اپنی چھوٹی پھوپھی اصغری کدی یاد نئیں آندی ۔ میں خاموش رہتا کیا جواب دیتا۔ پر اللہ کی قسم چھوٹی بہن صائمہ کے الفاظ ” امی جی” پڑھ کر مجھے پھوپھو اصغری بہت یاد آئیں۔ کبھی نہیں سوچا تھا کہ میرے ماں باپ کی آخری نشانیاں اس دنیا سے جائیں گی اور میں انھیں رخصت کرنے بھی نہیں جا سکوں گا۔ میری صحت کی وجہ سے باقی گھر بھی میرے ساتھ پابند ہے۔ مجھے یاد ہے میری امی جی کی زندگی میں میرے جسم پر کوئی شناختی علامت بھی نہیں تھی وہ اتنا سنبھال کر رکھتیں تھیں کہ جیسے کہ میں کانچ کا بنا انسان ہوں۔ چوٹ سے ٹوٹ جاؤں گا۔ ان کے جانے کے بعد میرے جسم پر بہت طویل کٹ لگے جگر ٹرانسپلانٹ ہوا پھر اس کو دوبارہ کھول کر سیا گیا۔ جیسے کسی بیگ کی زپ خراب ہوگئی ہو ۔ اور اسکی مرمت کی جائے۔ جگر ٹرانسپلانٹ کے بعد میں قبرستان کے باہر کھڑا ہوکر دعا کرتا ہوں قبر پر حاضری نہیں دیتا کہ ڈانٹ ہی نہ پڑ جائے کہ محمد اظہر حفیظ میں نے تجھے اتنا سنبھال کر رکھا تھا کچھ سالوں میں تم نے کیا سے کیا کرلیا۔ابا جی نے تو صاف کہنا ہے صاحب توں تے اپنے نال او سلوک کیتا جو لوگ دشمن کے ساتھ بھی نہیں کرتے۔مجھے لوگ شاید ماں باپ کا بہادر بیٹا سمجھتے ہیں پر انکی یاد میں جتنا میں تڑپتا اور روتا ہوں شاید ہی کوئی اور ہو۔ مجھے محسوس ہوتا ہے کہ جو سب سے چھوٹے بہن بھائی ہوتے ہیں ۔ ان کے ماں باپ سب سے پہلے مرجاتے ہیں جبکہ جو بڑے بہن بھائی ہوتے ہیں انکی باری بعد میں آتی ہے۔ یتیم مسکین ہونے کی۔ چھوٹے ہونے کے ناطے مجھے وہ یاد بھی بہت آتے ہیں۔ پر کر کچھ نہیں سکتا۔ امی جی کے جانے کے بعد میری ساری خالہ ہمیں گلے لگا کر پیار کرتی تھیں اور بلاوجہ رو پڑتیں تھیں۔ بلکل امی جی کی طرح اور میں بھی۔ میاں سیف الرحمن میرا بچپن کا دوست ہے۔ انکی والدہ جب تک حیات رہیں سر پر پیار دے کر رونے لگ جاتیں بیٹے آج تہاڈے باجی بہت یاد آرہے نے آج ہمارا نیا گھر دیکھتیں تو بہت خوش ہوتیں۔ مائیں تو مائیں ہی ہوتی ہیں۔ پھوپھی اصغری کا نام بھی اصغری تھا اور وہ تھیں بھی سب سے چھوٹی پھوپھو۔ پھوپھا افضل میرے والد صاحب کے بہت قریبی دوست اور کزن تھے انکا کافی سال پہلے انتقال ہوگیا تھا۔ آج اگلے جہان میں بڑی محفلیں لگی ہوں گی۔ تایا جی، تائی جی، امی جی، ابوجی، پھوپھاجی پھوپھی جی، چاچا جی چاچی جی،سب اکٹھے ہوں گے ۔ مجھے گاؤں کا وہ تھڑا جہاں ہمارے سارے چاچے تائے اورہمارے گھر کے صحن چاچیاں، تائیاں اور پھوپھیاں سب خوشی غمی میں اکٹھے ہوتے تھے۔ کیا رونقیں تھیں۔ اب یہ سب رونقیں قبروں کی زینت ہیں اللہ تعالی ان سب کیلئے اگلے جہان کی تمام منزلیں آسان فرمائے آمین بھائی ظفر حسین میرے دوست ہیں ایک دن کہنے لگے یار اظہر حفیظ ماں باپ نالوں وی زیادہ دکھ انناں دے جان دا ہوندا اے جیڑے نال کھیڈے ہوون۔ اس دن دا چاچا اصغر دا دکھ سوچ سوچ کے وی رو پینا واں کہ پھوپھی تے چاچے دے نال کھیڈدی ہونی اے۔ چاچے اصغر تے کی گزری ہونی اے ۔ اسی دکھ تو ہمت نئیں کہ چاچا جی نوں فون کرکے افسوس کرسکاں۔ صحت تھوڑی بہتر ہوتی ہے تو ان سب کے پاس دعا کیلئے حاضر ہوں گا بھائی عثمان افضل اور بہنیں ، چاچا جی اصغر ان سب کا دکھ میرے دکھ سے کہیں زیادہ ہے۔ اللہ تعالی آسانی والا معاملہ فرمائیں آمین ۔امی جی جس طرح مجھے آپ کی یاد بہت آتی ہے اسی طرح باقی سب کو بھی تو انکی امی جی یاد تو آتی ہوگی۔ جو مائیں سلامت ہیں اللہ انکو صحت کے ساتھ ایمان والی زندگی عطا فرمائے آمین جو جنت الفردوس میں چلی گئی ہیں ان کے بھی دراجات بلند فرمائے آمین۔ کن سنن نوں ترس گئے نے کہ آواز آوے محمد اظہر حفیظ اور میں بلند آواز میں کہوں جی امی جی جیسے کہتے ہیں حاضر جناب۔