بالآخر 17 مئ کو طویل شب غم گزار کے زرینہ جمیل فخری بھی راہی عدم ہوئیں _ماں جی (جنت مکیں) کی وہ لاڈلی چھوٹی بہن تھیں وہ عام عورتوں سے منفرد، انتہائی مضبوط قوت ارادی کی مالک خاتون تھیں وہ اپنے آہنی عزم سے اپنے خوابوں کو حقیقت کا رنگ دینے میں ہمیشہ کامیاب رہیں مگر وہ اس کے ساتھ ساتھ انسان دوست اور حساس دل رکھنے والی حسین اور باوقار خاتون تھیں وہ میرے سامنے انسانی رویوں اور بے اعتنائیوں پر سوالوں کی فصل اگاتیں اور جوابات تراشنے کی سعی میں خود ہی دل و دماغ کو گھاؤ لگا تیں اور روح کو زخمی. زوکرتی رہتی تھیں ان کی زندگی کا ایک ہی محور تھا کہ وہ لوگوں سے محبت کرے اور اس کو مثبت رسپانس ملے وہ اکثر یکطرفہ تعلق نبھانے میں ہر حد سے گزر جاتی اور اپنی ذات پر دکھ اور کرب کے چرکے جھیلتیں رہتیں وہ مرتے دم تک اپنے اردگرد ایسے بے شمار لوگوں کے لیے بھی مہرووفا، ایثار کیشی اور مالی قربانیوں کی لازوال داستانیں رقم کرتی رہیں جو محض مالی مفاد کے لیے خاطر تعلق رکھتے تھے وہ مرنج مرنجاں انسان تھیں اور یکطرفہ طور پر ہر شخص کے ساتھ محبت، اخلاص، مہربانی اور احترام سے پیش آتی تھیں وہ سترہ سال کی عمر میں جمیل فخری کی رفیقہ حیات بن گئیں ایک ایکٹر کے موڈ اور مزاج کے ساتھ زندگی بسر کرنا آسان کام نہیں تھا اور وہ ایکٹر جو ہر وقت عورت سے محبوبیت اور خدمت گزاری کا متقاضی ہو جب سارا زمانہ اسے چاہے گا تو وہ کیونکر بیوی کو محبوب مانے گا وہ تو اس سے بھی یکطرفہ چاہ کو ہی محبت سمجھے گا 210 راوی روڈ پر وہ دلہن بن کر آئیں تو پورے علاقے میں ان کی ساس حاجن بی بی کی دینداری، پاکیزگی، درود و سلام کی محافل اور مذہبی تعلیمات دینے کی شہرت تھی وہ مستجاب الدعا خاتون تھیں نور جہاں سمیت بڑی بڑی نامور خواتین ان سے دعا کرانے آتیں _زرینہ جمیل فخری دو نامور شخصیات یعنی ساس اور خاوند کے درمیان رہ کر اپنی انفرادی شخصیت کی آبیاری میں کس طرح کا میاب ہوئیں، یہ ایک معجزہ اور طویل جدوجہد کی کہانی ہے وہ چار بیٹوں کی ماں بنیں حاجن بی بی کی بہو اور نامور ایکٹر کی بیوی ہونے کے ناطے ہر کوئی ان کی قسمت پر رشک کرتا تھا مگر اب وہ ایک ماں تھیں اس نے اپنے بچوں کی اعلیٰ تعلیم و تربیت کے لیے ایکٹر کی ہوائی روزگار کو اپنے طریقے سے منظم کرنے کا تہیہ کر لیا شاہ خرچ جمیل فخری کے نزدیک پس انداز کرنا غلط تھا مگر اس ذہین خاتون نے اپنے گھریلو اخراجات ختم کر کے بچتوں کی سرمایہ کاری کی اور ان کو اثاثوں میں بدل کر ایسا کام کر دکھایا جو شاہد ہی کسی ہاؤس وائف کے لیے ممکن ہو جب جمیل فخری نے فلم اور اسٹیج پر کام چھوڑ دیا تو تب اس نے اپنی بیوی کی معاشی سمجھ بوجھ کا اعتراف کیا وہ اپنی ذات پر چند ہزار بمشکل خرچ کرتی تھیں مگر اپنے بیٹوں کی ملکی اور غیر ملکی اداروں میں لاکھوں کی فیسیں دیتی رہیں ان کی شادیوں پر لاکھوں خرچ کرتی رہیں پورے حساب سے لاکھوں روپے زکوٰۃ دیتی رہیں میرے کہنے پر لاکھوں روپے شوکت خانم کو زکوۃ کا دیتیں مگر افسوس جب وہ کینسر کے علاج کے لیے شوکت خانم میں اپنے خرچے پر علاج کرانے گئیں تو انکو انکار کر دیا گیا جس پر وہ بڑی دلبرداشتہ ہوئیں بڑا بیٹا ایاز فخری نا حق امریکہ میں قتل کر دیا گیا امریکہ میں موجود عزیز واقارب کی سرد مہری اور جواں بیٹے کی موت کے صدمے سے حساس دل جمیل فخری بھی ایک سال بعد چل بسا اور زرینہ جمیل فخری کینسر کے موذی مرض کا شکار ہو گئی وہ بڑے سے بڑے غم میں بھی زارو و قطار رونے سے اجتناب کرتی تھیں اکیلے میں اپنے غم کو کیسے غلط کرتی تھیں وہ کوئی نہیں جانتا تھا میں نے ایک مرتبہ انہیں دھاڑیں مارتے روتے دیکھا جب ان کے بیٹے کا تابوت امریکہ سے آیا تب مجھے پتہ چلا
کوئی تو روئے لیپٹ کر جوان لاشوں سے
اسی لیے تو وہ بیٹوں کو مائیں دیتا ہے
جمیل فخری کی موت کا صدمہ بھی انہوں نے صبر اور حوصلے سے برداشت کیا مگر بیٹے کو وہ مرتے دم تک یاد کرتی رہیں اور ہر سال اس کے نام پر خیرا ت اور صدقات کرتیں تھیں میانی صاحب کے قبرستان میں بیٹے کی قبر کے دائیں طرف کے حصے میں ان کی مرقد بنائی گئی
ہمیں تو موت بھی تنہا نہ کر سکے گی ندیم
کہ ہر طرف زمین کو قریب پا ئیں گے ہم
210 راوی روڈ ایک تاریخ ساز گھر سے وہ رخصت ہوئیں جہاں پر حاجن بی بی اور جمیل فخری کے ہوتے ہوئے ملک کے نامور افراد خصوصاً شو بز کے لوگوں کا جمگھٹا رہتا تھا سامنے والے چوک کا نام جمیل فخری چوک ہے جہاں علامہ احسان الہی ظہیر شہید ہوئے تھے جمیل فخری اور ایاز فخری کے جنازے میں ہزاروں افراد شریک تھے مگر بدقسمتی سے مسز جمیل فخری کے جنازے میں سوا ئے عرفان کھوسٹ کے کوئی دوسرا نظر نہیں آیا جو اس گھر کے احسانات کی وجہ سے عروج پر ہیں شاہد وہ سب بھول گئے ہوں یہی دنیا کی بے ثباتی ہے
کینسر کی بیماری میں ان کے بیٹے علی نواز فخری اور علی غوث فخری نے ان کی بہت خدمت کی علی نواز تو با ر بار کیمو کے عمل سے گزار کر انہیں زندگی کی طرف لانے کامیاب رہا ماں کی زندگی کو ڈھائی سال بڑھا پایا اللہ اس کو جزائے خیر دے وہ ہر وقت ماں کے لیے پرامید رہتا تھا
مگر جب اپنوں کی بیگانگی اور سرد مہری نے انہیں مایوس کر دیا تو انہوں نے رخصت سفر کا فیصلہ کر لیا وہ اپنی قوت ارادی کے بل بوتے پر زندہ تھیں مگر اب حالت یہ تھی کہ
اب تسلی بھی اذیت ہے مجھے
اب دلاسا بھی رلا دیتا ہے
وہ زندگی کے آخری لمحات میں تاسف کرتیں تھیں کہ کیوں انہوں نے اولاد کے مالی سکھ اور خوشحالی کے لیے اپنی صحت کو داؤ پر لگا دیا سچی بات میں ان کو کیا جواب دیتا مائیں ہوتی ہی ایسی ہیں اپنی جان، مال، اور ہر شے اولاد پر وار دیتی ہیں مگر جب اولاد کے دماغوں میں وحشتیں سر اٹھا لیں وہ محبت اور اتفاق سے رہنے سے گریزاں ہو جائیں ماں کے ڈسپلن اور اتھارٹی کو کبھی دبے لہجے اور کبھی بلند آہنگ سے چیلنج کر نا شروع کر دیں تو پھر ماں اپنے وقار اور بھرم کو بچا کر سفر آخرت پر روزانہ ہو جاتی ہے اولاد کو جائیدادیں، روپیہ، پیسہ تو مل جاتا ہے مگر بعد میں پتہ چلتا ہے کہ ماں باپ کی نعمت کے سامنے تو مادی چیزوں کی کچھ اہمیت نہیں تھی وہ دعائیں جن کے حصار میں انسان زندگی میں قائم دائم رہتا ہے تو اس کے بغیر تو لگتا ہے خوش قسمتی کا دروازہ ہمیشہ کے لیے بند ہو گیا ہے امینہ بانو، زرینہ عاصمی، جمیل فخری ،ایاز فخری اور والد محترم جنت الفردوس میں خوش و خرم رہیں
جس اک چراغ سے روشن ہوئے بہت سے چراغ
وہ بجھ گیا تو ستاروں کی آنکھ بھر آئی