کرغستان سے بچوں کی واپسی کے حوالے سے عجیب تنازعہ سامنے آرہا ہے۔ میں سمجھتا ہوں وزیر اعظم شہباز شریف کوجتنا بھی کریڈٹ دیا جائے کم ہے کہ انھوں نے ان بچوں کی واپسی کے لیے فوری اقدامات کیے۔سب سے پہلے ائیر فورس کا جہاز ان کی پہلے کھیپ کو واپس لانے کے لیے بھیجا گیا۔ اس کے بعد بھی ان کی واپسی کے لیے متعدد فلائٹس چلائی گئی ہیں۔
شہباز شریف کے بروقت ایکشن سے وہاں پھنسے بچوں کو وطن واپس آنے کا موقع ملا۔ ورنہ وہاں سے روٹین فلائٹس اتنی زیادہ نہیں ہیں کہ یہ سب بچے واپس آسکتے۔ ان بچوں کو لینے کے لیے خصوصی جہاز بھیجے گئے ہیں۔ جو بہرحال حکومت پاکستان اور بالخصوص وزیراعظم شہباز شریف کا کریڈٹ ہے۔
کرغستان ایک چھوٹا سا ملک ہے۔ وہاں پاکستان کا ایک چھوٹا سفارتخانہ موجود ہے۔ بہت تھوڑا سٹاف ہے۔ لیکن وہاں پندرہ ہزار سے زائد پاکستانی بچے پڑھنے گئے ہوئے ہیں۔ سفارتخانہ میں چند افسر ہیں۔ا ور یہ چند افسر جتنا بھی کام کر سکتے تھے انھوں نے کیا ہے۔ وزیر اعظم اس سفارتخانہ سے مسلسل رابطہ میں رہے۔
بچوں کی جتنی ممکن مدد تھی وہ کی گئی۔ اب چند افسر پندرہ ہزار بچوں تک تو ایک رات میں نہیں پہنچ سکتے تھے، نہ ہی پندرہ ہزار بچوں کے انفرادی سطح پر فون سنے جا سکتے تھے، نہ ہی پندرہ ہزار بچوں کو ایک رات میں سب کچھ مہیا کرنے کی سفارتخانہ کی استطاعت تھی۔ اس لیے یہ سمجھنا کہ سب کچھ ایک رات میں ممکن تھا غلط ہے۔ ہمیں سفارتخانہ کے افسروں کی تعداد اور ان کی استطاعت کو سا منے رکھ کر ہی تنقید کرنی چاہیے۔
میں سمجھتا ہوں کرغستان کے معاملہ میں بھی سوشل میڈیا کا کردار بہت ہی منفی رہا ہے۔ ہمارے سوشل میڈیا نے ایسی ایسی کہانیاں چلائی ہیں کہ سب حیران ہیں۔ سب سے پہلے تین بچوں کی ہلاکت کی خبریں چلا دی گئیں۔ سوشل میڈیا کے ہمارے دوست اس بات کا خیال نہیں کرتے ان کی غیر ذمے دارانہ صحافت سے والدین پر کیا گزری ہوگی۔
ملک میں کیا بحران آگیا ہوگا۔ لیکن انھوں نے لائیکس اور ویوز کے چکر میں تین بچوں کی ہلاکت کی خبر چلا دی۔ بات یہیں ختم نہیں ہوئی۔ اس کے بعد وہاں زیر تعلیم پاکستانی بچیوں کے ریپ کی خبریں بھی چلا دی گئیں۔ ایسی خبروں سے ملک میں بہت بے چینی پھیلی۔ والدین بہت پریشان ہوئے۔ فیک نیوز اسے ہی کہتے ہیں۔ پاکستان میں اس فیک نیوز کا ابھی کوئی علاج نہیں۔ ریاست اور معاشرہ دونوں ہی ایسی فیک نیوز کے سامنے بے بس ہیں۔ ہماری بے بسی قابل دید ہے۔
جب بچوں کی واپسی شروع ہو گئی ہے اور بچے واپس آنا شروع ہو گئے ہیں تو ایک اور نئی بحث شروع کر دی گئی کہ یہ بچے اپنا ٹکٹ خود خرچ کر کے وطن واپس آرہے ہیں۔ حکومت پاکستان نے صرف جہاز بھیجا ہے ٹکٹ بچوں نے خود خریدے ہیں۔ بچوں کے ایسے انٹرویوز چلائے گئے ہیں کہ ہم تو اپنے پیسے خود خرچ کر کے واپس آئے ہیں۔
یہ بات کوئی سمجھنے کے لیے تیار نہیں کہ خصوصی جہاز گئے ہیں تو آپ واپس آئے ہیں۔ خصوصی فلائٹس چلانے کا حکومت پاکستان اور وزیر اعظم شہباز شریف کو کریڈٹ دینے کی بجائے یہ پراپیگنڈا شروع کر دیا گیا کہ بچوں نے اپنے ٹکٹ کے پیسے خود خرچ کیے ہیں۔ ایک ایسا ماحول بنایا گیا ہے جیسے ان بچوں سے ٹکٹ کے پیسے لیکر بہت ظلم کیا گیا ہے۔ ان کو مفت واپس لانا چاہیے تھا۔
اس کے بعد تحریک انصاف کی کے پی حکومت نے بچوں کو مفت لانے کا اعلان کر دیا۔ انھوں نے ابتدائی طور پر اس مقصد کے لیے چھ کروڑ روپے بھی مختص کیے ہیں۔ کے پی حکومت کے فنڈز پر چلنے والی خصوصی پرواز بھی تین سو بچوں کو لیکر وطن واپس آگئی ہے۔
ان تین سو بچوں سے کرایہ نہیں لیا گیا۔ بلکہ ان کا کرایہ کے پی حکومت نے خود ادا کیا ہے۔ اب سوال یہ پیدا ہوگیا ہے کہ کیا ان بچوں کو حکومتی خرچ پر واپس لانا چاہیے۔ کیا ان سے کرائے کے پیسے نہیں لینے چاہیے۔ کیا ان سے کرایہ لینا کوئی ظلم ہے۔ کیا ان پر حکومت کا پیسہ خرچ کرنا جائز ہے۔
پہلی بات تو یہ سمجھیں کہ یہ کوئی غریبوں کے بچے نہیں ہیں۔یہ کرغستان میں ڈالروں میں فیس دے کر پڑھ رہے ہیں۔ یہ وہاں ماہانہ ڈالروں میں پیسے خرچ کر رہے ہیں۔ یہ کھاتے پیتے گھروں کے بچے ہیں۔ ان کے والدین ان پر ماہانہ ہزاروں ڈالر خرچ کر رہے ہیں۔ اس لیے مجھے یہ بات سمجھ نہیں آرہی کہ امیروں کے بچوں پر حکومت پاکستان کا پیسہ خرچ کرنے کا کیا جواز ہے۔
اگر یہ کوئی غریبوں کے بچے ہوتے، ان کے والدین ان کی واپسی کا کرایہ دینے کی استطاعت نہیں رکھتے تو یقینا ہم کہہ سکتے تھے کہ حکومت کو ان کا کرایہ ادا کرنا چاہیے۔ لیکن کیا اشرافیہ کے بچوں کو کرائے کی رعائت دینا بنتی ہے۔ یہ ہزاروں ڈالر فیس دے سکتے ہیں۔ ماہانہ ہزاروں ڈالر خرچ کر سکتے ہیں تو چند سو ڈالر کی ٹکٹ کیوں نہیں خرچ سکتے۔
اس لیے ان سے کرایہ وصول کرنا کوئی غلط بات نہیں ہے۔ اب دیکھیں کے پی کی حکومت نے ان بچوں کی واپسی کے لیے سرکاری خزانہ سے کروڑوں روپے خرچ کر دیے ہیں۔ یہ پیسے صرف وفاقی حکومت کو نیچا دکھانے کے لیے خرچ کیے گئے ہیں۔ ورنہ ایک طرف تو کے پی حکومت کا موقف ہے کہ ان کے پاس اپنے صوبہ میں غریبوں کی فلاح پر خرچنے کے لیے پیسے نہیں ہیں۔ دوسری طرف اشرافیہ کے بچوں کے سفری اخراجات صوبے کے خزانے سے خرچ کیے جا رہے ہیں۔
جب ان کے والدین اور یہ بچے اپنی ٹکٹ کے پیسے ادا کر سکتے ہیں تو ان کے اخراجات ادا کرنے کی منطق سمجھ نہیں آئی۔ اگر یہ صرف سیاست میں ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کے لیے خرچ کیے گئے ہیں تو بھی غلط ہے۔ اگر وزیر اعلی کے پی ان بچوں کے سفری اخراجات ادا کرنا چاہتے تھے تو انھیں اپنی جیب سے ادا کرنے چاہیے تھے۔ آپ اپنی جیب سے اپنی سیاست پر جتنے مرضی پیسے خرچیں ۔لیکن سرکاری خزانہ سے ایسے خرچ کو جائز قرار نہیں دیا جا سکتا۔
وہاں سے بچوں کے انخلا کا بندو بست کرنا حکومت پاکستان کا فرض تھا۔ یہ فرض وزیر اعظم پاکستان اور ان کی ٹیم نے بخوبی ادا کیا۔ ہر پاکستانی شہری کی حفاظت حکومت پاکستان کا فرض ہے۔ یہ فرض امیر و غریب کی تفریق کے بغیر ادا کرنا چاہیے۔ امیر و غریب سب برابر ہیں۔ لیکن وسائل خرچ کرتے وقت اس بات کا خیال رکھنا چاہیے کہ وسائل پر حق صرف ان طبقوں کا ہے جن کو ان کی ضرورت ہے۔ ہمارا سب سے بڑا مسئلہ یہی ہے کہ ہم غریبوں کی بجائے امیروں پر سرکاری وسائل خرچ کر رہے ہیں۔
سبسڈی بھی امیروں کو دے رہے ہیں۔ اب جیسے کے پی حکومت نے امیروں کے بچوں کے سفری اخراجات ادا کر دئے ہیں۔ یہی پیسے ان بچوں پر خرچ کرنے چاہیے تھے جن کے پاس فیس کے پیسے نہیں جو پیسوں کی وجہ سے آگے پڑھ نہیں سکتے۔
ان کو سکالر شپ دئے جانے چاہیے۔ لیکن جو باہر پڑھنے جاتے ہیں وہ ایک تو پاکستان میں میرٹ پر داخلہ لینے میں ناکام رہے ہیں۔ یہ کوئی لائق بچے نہیں ہیں۔ ان کے والدین اپنی دولت کے سر پر ان کو اچھی تعلیم دلا رہے ہیں۔اس لیے ان سے ٹکٹ کے پیسے لیے جانے چاہیے تھے۔ اور کے پی حکومت کا قدم غلط ہے۔ یہ سیاست کی بات نہیں۔ وسائل کو درست خرچنے کی بات ہے۔
بشکریہ روزنامہ ایکسپریس