ماضی کی جھاڑ جھنکار : تحریر الطاف حسن قریشی


پسند اپنی اپنی۔ دیوانوں کو اکثر دیوانے پسند آتے ہیں جبکہ اہلِ عزم نئی نئی بستیاں آباد کرتے جاتے ہیں۔ ہمارے اندر ایسے لوگ بھی ہیں جو سب کچھ گنوانے کے بعد بھی نوابی کے خواب دیکھتے رہتے ہیں۔ ہر قوم کے ماضی میں اچھی باتیں بھی ہوتی ہیں اور غم آگیں یادیں بھی۔ یہ آپ پر منحصر ہے کہ جو ثمربار پودے آپ نے اگائے تھے، اُن کی نگہداشت کرتے ہیں یا ماضی کے جھاڑ جھنکار ہی میں الجھے رہتے ہیں۔ ہمیں دکھ یہ ہے کہ ہمارے بیشتر سیاست دان اور قیادت کے زیادہ تر دعوےدار اَپنی انا اور جوشِ انتقام کے اسیر چلے آ رہے ہیں۔ہماراماضی بہت درخشندہ نہیںرہا،کیونکہ حساس اور باوقار اِداروں کے سربراہوں سے ہمالیہ ایسی غلطیاں سرزد ہوتی رہیں جن سے ہمارا قومی نظامِ حیات بری طرح متاثر ہوا۔ نوبت یہاں تک پہنچی کہ وہ پاکستان جو ہمارے اسلاف کی نوے سالہ سخت جان سیاسی جدوجہد، حضرت قائدِاعظم کی فقید المثال قیادت اور اَللہ تعالیٰ کی شانِ کریمی سے ایک بیش بہا نعمت کے طور پر وجود میں آیا تھا، وہ اپنی آزادی کی ربع صدی ہی میں دولخت ہو گیا، مگر اِس روح گداز سانحے سے ہمارے حکمران طبقے نے کوئی سبق نہ سیکھا اور حرص و ہوا کا گھناؤنا کھیل مختلف شکلوں میں اپنا رنگ دکھاتا رہا ہے۔

ذہن میں یہ سوال اکثر کلبلاتا ہے کہ قیادت کے منصب پر فائز لوگ یہ بات کیوں نہ سمجھ پاتے کہ ملک داخلی خلفشار اَور معاشی بدحالی سے دنیا میں عبرت کا نشان بن جاتے ہیں اور ترقی صرف اُنہی قوموں کے حصّے میں آئی ہے جو معاملات کو فہم و فراست سے چلانے کی خوگر ہیں۔ معاملات کا قدرے گہرائی سے جائزہ لینے سے یہ بھید کھلا کہ ہمارے زیادہ تر سیاست دان اور اِقتدار کے پاسبان تاریخ کا سنجیدگی سے مطالعہ نہیں کرتے اور محض سنے سنائے مفروضات پر خیالی محل تعمیر کر لیتے ہیں۔ ابتدائی برسوں کے دوران سیاست میں نام پیدا کرنے والے رہنما کتابوں کے رسیا تھے، مگر وہ ذوق و شوق دم توڑتا چلا گیا۔ ایک بڑے سیاست دان کے ہم جماعت سرکاری افسر نے خاکسار کو یہ واقعہ سنایا کہ مَیں نے بڑی تحقیق کے بعد ایک اہم قومی موضوع پر کتاب شائع کی اور اُس کی داد حاصل کرنے کیلئے حکمران دوست کے پاس چلا گیا اور اُن کی خدمت میں اپنی تصنیف پیش کی۔ اُسے دیکھتے ہی وہ آگ بگولہ ہو گئے اور کتاب کو حقارت سے پھینکتے ہوئے کہنے لگے کہ اگر تم نے آئندہ ایسی حرکت کی، تو مَیں تمہاری گردن توڑ دوں گا، کیونکہ کتابی لوگ عوام کے اصل حالات سے اکثر بےخبر ہوتے ہیں۔ بدقسمتی سے اب ہمیں اِسی قبیل کے رہنما دستیاب ہیں۔ کتاب کے مطالعے سے ذہن کو جو جِلا ملتی ہے، نگاہ میں جو گہرائی اور وُسعت پیدا ہوتی ہے اور طبیعت میں جو ٹھہراؤ آتا ہے، وہ اِن تمام نعمتوں سے کوسوں دور ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ وہ ماضی کے ذخیرے سے حکمت و دَانائی کی باتیں چُن لینے کے بجائے خودرو جھاڑیوں میں الجھے رہتے ہیں اور معاملہ فہمی کے ہنر سے یکسر بےخبر ہوتے ہیں۔ ذہن میں جو فرسودہ باتیں بیٹھی ہوتی ہیں، اُنہی کی جگالی ہوتی رہتی ہے اور حریفوں پر انتقام کے کاری وار کرنے کا جنون ہر آن طاری رہتا ہے۔ سب سے بڑا اَلمیہ یہ ہے کہ ہمارے اسکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیوں میں تاریخ اور جغرافیے کے مضامین پوری معنویت کے ساتھ پڑھائے نہیں جاتے، اِسی لیے ہماری نئی نسل پاکستان کی تاریخی اور جغرافیائی اہمیت کا سرے سے ادراک نہیں رکھتی جبکہ حکما کا قول ہے کہ جو قوم اپنی تاریخ اور جغرافیے سے پوری طرح آگاہ نہیں، وہ اُن کی حفاظت نہیں کر سکتی۔

یہ امر قابلِ ذکر ہے کہ ہمارے سیاست دان محاذآرائی کے خطرناک راستوں پر چلتے رہنے کے باوجود مفاہمت اور باہمی تعاون کی عظیم الشان روایات بھی قائم کرتے ہیں جو مشعلِ راہ کی حیثیت رکھتی ہیں۔ اُن کا یہ کارنامہ غیرمعمولی اہمیت کا حامل ہے کہ اُنھوں نے مسلسل جدوجہد کے ذریعے چار مرتبہ پاکستان کو مارشل لا کے جبڑوں سے رہائی دلائی۔ میثاقِ جمہوریت جناب نوازشریف اور محترمہ بےنظیر بھٹو کی سیاسی بلوغت کا ایک قابلِ رشک اظہار تھا۔ اِس کے نتیجے میں دو بار سیاسی جماعتوں نے اپنی مدتِ حکومت مکمل کی اور پُرامن انتقالِ اقتدار کی صحت مند روایت قائم ہوئی۔ اِس عظیم حقیقت کا بیان بھی ضروری ہے کہ بےنظیر بھٹو نے تیس سال مزاحمت کی سیاست کی اور جب وہ اِقتدار میں آئیں، تو کسی سے انتقام نہیں لیا بلکہ بدترین مخالفین کے ساتھ بھی مذاکرات کی میز پر بیٹھ کر معاملات حُسن و خوبی سے طے کرتی رہیں۔بےنظیر کی ناگہانی موت پر جب سندھ میں عوامی بغاوت پھیلنے لگی اور ’پاکستان نامنظور‘ کی آواز بلند ہوئی، تو جناب آصف علی زرداری نے تاریخی کردار اَدا کرتے ہوئے ببانگِ دہل ’پاکستان کھپے‘ کا نعرہ بلند کیا جس کا زبردست اثر ہوا۔

یہ بھی ایک تاریخی حقیقت ہے کہ 2013ء کے انتخابات میں پاکستان تحریکِ انصاف خیبرپختونخوا میں سنگل لارجسٹ پارٹی کی حیثیت سے ابھری، مگر اُسے واضح اکثریت حاصل نہیں تھی۔ مولانا فضل الرحمٰن نے وزیرِاعظم نوازشریف سے کہا کہ ہم دونوں جماعتیں مل کر حکومت بنا لیتے ہیں، مگر نوازشریف نے کہا کہ پہلا حق تحریکِ انصاف کا ہے، چنانچہ اُس نے جماعتِ اسلامی کی حمایت سے حکومت بنائی۔

ایران کے شہید کو الوداع

ہمارا دِل اِس وقت غم سے نڈھال ہے کیونکہ ہیلی کاپٹر کے حادثے میں ایران کے صدر جناب ابراہیم رئیسی اور اُن کے قریبی رفقا شہید ہو گئے ہیں۔ اُن کے سانحۂ ارتحال پر پوری دنیا سے بڑی تعداد میں تعزیت کے پیغام آئے ہیں جن سے مرحوم صدر کی عظمت کا بخوبی اندازہ ہوتا ہے۔ پوری ایرانی قوم نے اُن کی راہ میں آنکھیں بچھا دی ہیں اور یہ ثابت کیا ہے کہ زندہ قومیں اپنے محسنوں کا کتنا خیال رکھتی ہیں اور اُنھیں اپنی قومی زندگی کا ایک ناگزیر حصّہ بنا لیتی ہیں۔ صدر رئیسی کے عہد میں ایران کے سعودی عرب سے تعلقات معمول پر آئے اور پاکستان کے ساتھ روابط نئی بلندیوں کو چھونے لگے۔ اُنہی کے عہد میں ایران نے اسرائیل کا دفاعی حصار توڑ ڈالا تھا۔ پاکستان مصیبت کی گھڑی میں اپنے برادر دوست کے شانہ بشانہ کھڑا ہے اور اُمید رکھتا ہے کہ پاکستان اور اِیران اپنے اہداف ملٹی پولر ورلڈ میں بروقت متعین کر لیں گے۔

بشکریہ روزنامہ جنگـ