مگر چند دن بعد، امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن نے کہا کہ اس کے ابھی تک کوئی ٹھوس ثبوت نہیں ملے ہیں۔ اس دوران اسرائیل نے ایران کو اس قضیہ میں شامل کرنے کی بھر پور کوشش کی، تاکہ ایران کو روکنے کے نام پر مغربی ممالک اور امریکہ بھی اس جنگ میں شامل کر ایک تو اس کا دائرہ وسیع کیا جائے ، تو دوسری طرف دنیا کی توجہ غازہ سے ہٹ جائے۔ مگر رئیسی نے یہ دال گلنے نہیں دی۔ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے جب اسرائیل نے ایران کے دمشق میں موجود سفارت خانے کو نشانہ بنایا ، اس کا جواب بھی خاصی دانشمندی سے دیا گیا۔ اسرائیل کو وارننگ بھی ملی، مگر جنگ کے دائرہ کو وسیع کرنے کا جوا ز بھی نہیں دیا گیا۔ فلسطین کے مزاحمتی گروپوں کی ایران کی مسلسل پشت پناہی نے مشرق وسطی اور عرب دنیا کی سڑکوں پر اس کا اثر و رسوخ بڑھا دیا ہے۔ جس کی وجہ سے مصر جیسے کئی دیگر عرب ممالک کو بھی فلسطینیوں کی مدد کے لیے عوامی سطح پر آگے آنے پر مجبور ہونا پڑا۔ رئیسی کی موت سے اب یہ سوالات کھڑے ہوگئے ہیں کہ اب ایران کے 85 سالہ سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای کی جانشینی کون کرے گا، جو ملک کے سب سے طاقتور ترین شخص ہیں۔ جس طرح ان کو صدر بنایا گیا ، اس سے لگتا تھا کہ ان کو اس پوسٹ کیلئے تیار کیا جا رہا ہے۔ آئین کے مطابق ماہرین کی 88 رکنی اسمبلی سپریم لیڈر کے جانشین کا انتخاب کرتی ہے۔ تاہم، خود اسمبلی کے ارکان کو ایران کی گارڈین کونسل کے ذریعے پہلے جانچا جاتا ہے، جو کہ ایک طاقتور 12 رکنی ادارہ ہے جو انتخابات اور قانون سازی کی نگرانی کرتا ہے۔ ویسے تو ممکنہ جانشینوں کی فہرست کو انتہائی خفیہ رکھا گیا ہے۔ فروری کے اوائل میں ماہرین کی اسمبلی کے ایک سینئر رکن محمد علی موسوی جزائری نے اس کو خفیہ رکھنے کا دفاع کرتے ہوئے کہا تھاکہ ممکنہ امیدوارں کو ایران کے دشمنوں خاص طور پر امریکہ اور اسرائیل کی طرف سے خطرہ لاحق ہو سکتا ہے۔مگر ذرائع کے مطابق موجودہ سپریم لیڈر کے بیٹے مجتبی خامنہ ای ، آیت اللہ خمینی کے پوتے حسن خمینی اور صدر رئیسی کو خامنہ ای کے جانشین کے بطور شارٹ لسٹ کردیا گیا تھا۔ماہرین کا کہنا ہے کہ رئیسی کی موت نے مسابقت کا میدان دیگر امیدواروں کیلئے اب آسان کر دیا ہے۔ 56 سالہ عالم دین مجتبی خامنہ ای طاقتور اسلامی انقلابی گارڈ کور (IRGC) کے ساتھ قریبی تعلقات رکھتے ہیں۔ رئیسی اور ان کے رفقا کی بے وقت موت نے ایران کو ایک گہری سیاسی غیر یقینی صورتحال میں ڈال دیا ہے۔ ان چیلنجوں سے نمٹنے میں ایران کے نئی لیڈروں کی کامیابی مستقبل کے راستے کا تعین کرے گی، جو آنے والے برسوں کے لیے مشرق وسطی کی جغرافیائی سیاسی حرکیات کو تشکیل دے گی۔ خیر ایرانی صدر کی حادثاتی موت نے ایران سمیت پوری دنیا میں صف ماتم تو بچھا دی ہے، مگر اسی کے ساتھ پوری دنیا کی نگاہیں ترکیہ کے تیار کردہ ملٹری ڈرون پر مرکوز کر دی ہیں۔ ترکیہ کے وزیر ٹرانسپورٹ کے مطابق ایسا لگتا ہے کہ ایرانی صدر کے ہیلی کاپٹر میں یا تو ٹرانسپانڈر نہیں تھا، یا وہ کام نہیں کر رہا تھا۔ یہ اب تفتیش کا ایشو ہے۔ ٹرانسپانڈر کی وجہ سے جہاز اگر حادثہ کا بھی شکار ہو جائے یا سمندر کی گہرائیوں میں بھی پہنچ جائے، یہ سنگنل دیتا رہتا ہے۔ چند سال قبل ملیشیا کے ایک جہاز کے غائب ہونے کے بعد اس کو لاپتہ قرار دیا گیا۔ جب دیر رات تک ریسکیو ٹیم کو کوئی سنگنل نہیں مل پا رہا تھا، تو ڈرن کو کسی گرم چیز کے سگنل ملے۔ اکنجی ڈرون، جو کہ 400 کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار تک پہنچنے اور کم رفتار سے علاقے کو موثر طریقے سے سکین کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے، نے مقامی وقت کے مطابق تقریبا 12 بجکر45 منٹ پر ترکیہ کے شہر وان سے ایرانی فضائی حدود کو عبور کیا۔صبح 2 بجکر22 منٹ پر گرمی کے ایک منبع کا پتہ چلایا۔ جو ایک اہم اشارہ تھا جسے فوری طور پر ایرانی حکام تک پہنچا دیا گیا۔ اس دریافت نے ملبے کے مقام کی توثیق کی لیکن جب امدادی کارکن صبح 5 بج کر.46 جائے حادثہ پر پہنچے، تو کوئی زندہ نہیں بچا تھا۔جبکہ ترکیہ کا ڈورن صبح 6 بجے کے قریب اپنے مقام پر واپس آیا، اس نے اپنا مشن مکمل کر لیا تھا۔جھیل وان کے اوپر اپنی پرواز کے راستے پر، اس نے ترکیہ کا قومی نشان ستارہ اور ہلال بنایا تھا تھا۔ گذشتہ برسوں میں ترکیہ کے ڈونز نے اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوا یا ہے۔جدید ترین اکنجی ڈرون چھبیس گھنٹوں تک محو پرواز رہ سکتا ہے اور چالیس ہزار فٹ کی بلندی حاصل کرسکتا ہے۔ اس لئے وہ بڑے پیمانے پر ایک وسیع علاقے کے اوپر خاصی دیر تک سرچ اور ریسکو کر سکتا ہے۔ مصنوعی ذہانت اور جدید ترین الیکٹرانک سسٹمز کی وجہ سے اکینجی کو موسم کے منفی حالات اور جنگی حالات میں بھی استعمال کیا جا سکتا ہے۔ یہ استعداد ڈرون کو لڑاکا طیاروں کی طرح مشقیں انجام دینے اور مختلف پے لوڈز کی نقل و حمل کی اجازت دیتی ہے۔ اس کی قریبی مسابقت امریکی ریپر ڈرون کے ساتھ ہے۔ جو ستائیس گھنٹوں تک پرواز کرسکتا ہے اور پچاس ہزار فٹ کی بلندی حاصل کرسکتا ہے۔ مگر امریکی ڈرون زیادہ بھارتی پے لوڈ نہیں لے جاسکتا ہے۔ ترکیہ کے دیگر ڈرونز نے حال ہی ہوئی جنگوں میں قابل قدر کارنامے انجام دیئے۔ آذربائجان اور آرمینا کی جنگ میں اس نے میدان جنگ کا نقشہ ہی بدل دیا۔ اسی طرح لیبیا، ایتھوپیا اور یوکرین، روس کی جنگ میں بھی اس نے حریفوں کو مات دی۔ترکیہ کی اس ڈرون ٹیکنالوجی کے بانی سلجوک بائراکتر ہیں، جنہوں نے امریکہ کی میسا چوسٹس انسٹیوٹ آف ٹیکنالوجی اور یونیورسٹی آف پنسلوانیہ سے انجینرنگ میں ڈگری حاصل کی ہے۔ ان کے والد نے 1948 میں ہی ہوائی جہازوں کی مرمت وغیرہ کی ایک فیکٹری قائم کی تھی۔ امریکہ سے واپسی پر سلجوک نے اپنے فیملی بزنس کو جوائین کرکے ڈرون ٹیکنالوجی کو متعارف کیا۔ ان کے ابتدائی ڈرونز کو ترکیہ کی سیکورٹی فورسز نے مشرقی ترکیہ میں کرد باغیوں کے خلاف کامیابی کے ساتھ استعمال کیا۔ سلجوک کا ایک اور تعارف یہ ہے کہ وہ ترک صدر رجب طیب اردگان کے داماد ہیں۔ انہوں نے اردگان کی بیٹی سومیہ سے 2012 میں شادی کی۔ اکثر افواہیں گشت کرتی ہیں کہ وہ اردگان کے سیاسی جانشین ہو سکتے ہیں، مگر انہوں نے کئی بار اس کی تردید کی۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ ایرواسپیس انڈسٹری میں ترکیہ کو دنیا میں ایک اہم پاور بنانا چاہتے ہیں اور حکومت میں شامل ہونا ان کی ترجیح نہیں ہے۔یہ ڈورن اور ان کی فروخت اب ترکیہ کی فارن پالیسی کا ایک اہم جز بن گئے ہیں۔ تقریبا تیس ممالک کو ان ڈرونز کے مختلف ورژن مہیا کروائے جا رہے ہیں۔ایران میں ہونے والے المناک واقعے نے بحرانی حالات میں ڈرون ٹیکنالوجی کی تزویراتی اہمیت اور تاثیر کو اجاگر کیا ہے اور دکھایا ہے کہ کس طرح یہ بغیر پائلٹ کے چھوٹے جہاز مشکل وقت میں ایک بڑی خلا کو پر کر سکتے ہیں۔
بشکریہ روزنامہ 92 نیوز