بڑے بڑے عہدوں پر بیٹھے ہوئے لوگ چھوٹے پن پر اتر آئیں تو پھر وہ کچھ ہوتا ہے جو اسلام آباد کے ایک معروف علاقے میں پاکستان تحریک انصاف کے مرکزی سیکرٹری اطلاعات رؤف حسن کے ساتھ ہوا۔ بڑے بڑے عہدوں پر بیٹھے سب لوگ اس واقعے کی مذمت کر رہے ہیں لیکن اندر سے اس واقعے نے انہیں بھی خوفزدہ کر دیا ہے۔ جو آج رؤف حسن کے ساتھ ہوا ہے وہ کل کو ان کے ساتھ بھی ہو گا جن پر یہ شک کیا جا رہا ہے کہ انہوں نے چار مردوں کو خواجہ سراؤں کے روپ میں بھیجا اور ایک عمر رسیدہ شخص پر حملہ کرایا جس کا قصور صرف یہ تھا کہ اس نے چند روز قبل ایک پریس کانفرنس کے جواب میں پریس کانفرنس کی اور تلخ لہجے میں اعلان کیا کہ انکی جماعت پچھلے سال 9مئی کے واقعات کی ذمہ دار نہیں ہے لہٰذا ان واقعات پر کوئی معافی نہیں مانگے گی۔ اس پریس کانفرنس کے بعد رؤف حسن کے کچھ ساتھیوں کا خیال تھا کہ انہیں محتاط رہنا چاہئے۔
مسلم لیگ ن کے رہنما خواجہ محمد آصف کے ساتھ مارچ 2018ء میں ایک واقعہ پیش آیا تھا جو صاف بتا رہا تھا کہ پاکستان کی سیاست میں جان بوجھ کر نفرت کا زہر گھولا جا رہا ہے اور زہر گھولنے والے سیاست دانوں کو آپس میں لڑا کر اپنے ذاتی مفادات کی تکمیل کر رہے ہیں۔ خواجہ محمد آصف اس وقت وزیر خارجہ تھے اور ان پر دباؤ تھا کہ وہ نواز شریف سے اعلان لاتعلقی کر دیں۔ خواجہ صاحب نواز شریف کا ساتھ چھوڑنے کیلئے تیار نہیں تھے لہٰذا سیالکوٹ میں مسلم لیگ ن کے ایک ورکرز کنونشن میں ان کے چہرے پر سیاہی پھینک دی گئی۔ مقصد صرف یہ پیغام دینا تھا کہ اگر ہماری بات نہیں مانو گے تو تمہاری سیاست پر سیاہ دھبے لگا دیں گے۔ اس واقعے سے اگلے ہی روز لاہور میں ایک تقریب کے دوران نواز شریف پر جوتا پھینکا گیا، ان دونوں واقعات کی ذمہ داری ایک مذہبی تنظیم پر ڈالی گئی۔ کچھ دنوں بعد اس وقت کے وزیر داخلہ احسن اقبال کو نارووال میں گولی مار دی گئی۔ گولی ان کے بازو کو چیرتی ہوئی پیٹ میں پیوست ہو گئی۔ ان کی جان بچ گئی لیکن ان کا بازو آج بھی نارمل نہیں ان پر حملہ کرنے والے نوجوان کا تعلق بھی ایک مذہبی تنظیم سے بتایا گیا۔ ان تمام واقعات کا مقصد مسلم لیگ (ن) پر دباؤ ڈالنا تھا مسلم لیگ (ن) کی حکومت نومبر 2017ء میں فیض آباد دھرنا کے بعد سے مسلسل دباؤ میں تھی بظاہر یہ دھرنا ایک مذہبی تنظیم نے دیا تھا لیکن درپردہ اس دھرنے سے فائدہ کوئی اور اٹھا رہا تھا اور ان تمام کرداروں کو سپریم کورٹ کی طرف سے فیض آباد دھرنا کیس کے فیصلے میں بے نقاب کر دیا گیا۔
ستم ظریفی دیکھئے کہ جن طاقتوں نے 2018ء میں مسلم لیگ ن کے ہاتھ پاؤں باندھ کر تحریک انصاف کو اقتدار دلایا نومبر 2022ء میں عمران خان نے انہی طاقتوں کو خود پر قاتلانہ حملے کا ذمہ دار قرار دیا۔ احسن اقبال پر گولی چلانے والے عابد کو ایک مذہبی جماعت کا کارکن بتایا گیا اور عمران خان پر گولی چلانے والے نوید کو بھی ایک مذہبی انتہا پسند قرار دیا گیا۔ مسلم لیگ (ن) کے قائد نواز شریف اپنی تقاریر اور بیانات میں اس وقت کے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ اور آئی ایس آئی کے سربراہ فیض حمید کے خلاف شکوے شکائتیں کرتے رہے لیکن پھر انہی دو صاحبان نے عمران خان پر دباؤ ڈالا کہ وہ نواز شریف کو طبی بنیادوں پر بیرون ملک جانے کی اجازت دیں۔ اس سلسلے میں اسلام آباد ہائیکورٹ کے ایک جج جسٹس اطہر من اللہ نے علاج کیلئے نواز شریف کو چند ہفتوں تک بیرونِ ملک رہنے کی اجازت بھی دیدی۔ بعد ازاں نواز شریف نے جنرل قمر جاوید باجوہ کی مدت ملازمت میں توسیع کی اجازت دیکر ان کے احسان کا بدلا چکا دیا۔ عمران خان کو بطور وزیراعظم یہ غلط فہمی تھی کہ اسٹیبلشمنٹ کے پاس ان کےسوا اور کوئی چوائس نہیں۔ جب ڈی جی آئی ایس آئی کے ٹرانسفر پر جنرل باجوہ کے ساتھ ان کا اختلاف ہوا تو انہوں نے اپنے کچھ قریبی ساتھیوں سے کہا کہ گھبراؤ نہیں یہ مجھے ہٹا کر آصف زرداری یا شہباز شریف کو نہیں لا سکتے۔ یہی غلط فہمی ان کی حکومت کے خاتمے کا باعث بنی۔ آج آصف علی زرداری صدر اور شہباز شریف وزیر اعظم ہیں لیکن ان دونوں کی حکومت عوامی تائید سے محروم نظر آتی ہے۔ رؤف حسن پر ہونے والے حملے سے حکومت کی ساکھ مزید مجروح ہوئی ہے اور تحریک انصاف کیلئے ہمدردی میں اضافہ ہوا ہے۔ آج کل شائد مسلم لیگ (ن) کی قیادت بھی اسی غلط فہمی کا شکار ہے کہ شہباز شریف کو ہٹا کر عمران خان کو دوبارہ وزیر اعظم نہیں بنایا جا سکتا۔ یاد کیجئے کہ جنرل باجوہ نے عمران خان کو کب آنکھیں دکھانا شروع کی تھیں؟ یہ وہ زمانہ تھا جب عدلیہ اور میڈیا کے ساتھ محاذ آرائی کے بعد عمران خان کی حکومت اتنی غیر مقبول ہو گئی تھی کہ اس کے اپنے ارکان اسمبلی نے آنکھیں دکھانا شروع کر دی تھیں اور خان صاحب کو قومی اسمبلی میں بجٹ منظور کرانے کیلئے آئی ایس آئی کی مدد حاصل کرنا پڑتی تھی۔ عمران خان کی یہ مشکلات وزیر اعظم بننے کے ایک سال بعد شروع ہوئی تھیں لیکن شہباز شریف کی حکومت نے عدلیہ اور میڈیا کے ساتھ محاذ آرائی کیلئے فاسٹ ٹریک پالیسی اختیار کر رکھی ہے۔ جس جج نے نواز شریف کو علاج کیلئے بیرون ملک جانے کی اجازت دی اس جج کی آج کردار کشی کی جا رہی ہے۔ وہ مریم نواز جو عمران خان کے دور حکومت میں یہ فرمایا کرتی تھیں کہ میڈیا کا گلا گھونٹنے کا مطلب پاکستان کا گلا گھونٹنا ہے آج میڈیا کی سب تنظیمیں ان کے خلاف احتجاج کر رہی ہیں کیونکہ انہوں نے ہتک عزت کے نئے قانون کے نام پر میڈیا کا گلا گھونٹنے کی کوشش کی ہے۔ یہ عجیب قانون ہے اس قانون کےتحت بشریٰ بی بی کو پنکی پیرنی کہنے والے کے خلاف کارروائی ہو سکتی ہے اور جب تک مقدمے کا فیصلہ نہیں ہوتا مقدمے کی کارروائی کو رپورٹ بھی نہیں کیا جا سکتا۔ مجھے وفاقی حکومت کی ایک اہم شخصیت نے چند دن قبل یقین دلایا تھا کہ پنجاب حکومت اس قانون کو موجودہ شکل میں منظور نہیں کرائے گی لیکن پنجاب حکومت نے یہ قانون افراتفری میں منظور کرا دیا ہے۔ یہ مت سمجھیں کہ تمام اسٹیک ہولڈرز اس قانون کے پیچھے کھڑے ہیں۔ آثار بتا رہے ہیں کہ اس قانون کی منظوری نے اسٹیک ہولڈرز میں اختلاف رائے پیدا کر دیا ہے۔ رؤف حسن پر حملے نے بھی اسٹیک ہولڈرز کو پریشان کر دیا ہے اور وہ ایک دوسرے کی طرف سوال بھری نظروں سے دیکھ رہے ہیں۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ رؤف حسن پر حملے کا فائدہ کسے ہوا ہے؟ کہیں ایسا تو نہیں کہ سیاسی جماعتوں کو اداروں سے لڑا کر کچھ لوگ اپنا الو سیدھا کرنے کی کوشش میں ہیں؟ صرف اتنا پتہ کر لیں کہ فیض آباد دھرنا کمیشن کی رپورٹ سے کون خوش ہے اور کون نا خوش؟ یہ وہ لوگ ہیں جو کبھی سیاست دانوں کے چہرے پر سیاہی پھینکتے ہیں کبھی ان کے چہرے پر بلیڈ مارتے ہیں انہیں، آپس میں لڑاتے ہیں اور پھر بچ نکلتے ہیں اب انہوں نے خواجہ سراؤں کا روپ دھار لیا ہےانہیں بے نقاب کئے بغیر ہماری جمہوریت عوام کیلئے بے فیض رہے گی۔
بشکریہ روزنامہ جنگ