اداروں کے درمیان تصادم کا تاثر : تحریر مزمل سہروردی


ملک میں سیاسی جماعتوں کے درمیان تصاد م کوئی نئی بات نہیں ہے۔ بلکہ سیاسی جماعتوں کے درمیان محاذ آرائی یا بعض اوقات تصادم ہوجانا، جمہوری سسٹم کی بنیاد بھی ہے۔ اس سے ووٹرز کو سیاسی جماعتوں کے درمیان فرق کرنے اور ان میں بہتر کون ہے، یہ طے کرنے میں مدد ملتی ہے۔

البتہ سیاسی جماعتوں کے درمیان محاذ آرائی اور تصا دم آئین اور قانون کے دائرے میں رہ کر ہونا چاہیے۔ مہذب معاشروں میں یہ بھی توقع کی جاتی ہے کہ سیاسی جماعتیں اخلاقیات کے دائرے سے بھی باہر نہیں نکلیں گی۔ لیکن ا کثر ممالک میں اخلاقیات کا اتنا خیال نہیں رکھا جاتا۔ لیکن کسی ملک کے اداروں کے مابین محاز آرائی اچھی بات نہیں۔ ریاستی و آئینی اداروں نے بہر حال آئین کے اندر رہ کر کام کرنا ہوتا ہے ، ان کا باہمی تصادم اور محاذ آرائی ملک کے لیے مثبت نہیں ہے ۔

تمام اداروں کو جہاں آئین میں متعین حدود میں رہ کر کام کرنا ہوتاہے، وہاں انھیں مل کر بھی کام کرنا ہوتا ہے کیونکہ اداروں میں تعاون کی فضا بھی ملک کے لیے ضروری ہوتی ہے۔ آپ پوچھیں گے کہ میں کن اداروں کی بات کر رہا ہوں۔ ملک میں پارلیمان ایک ادارہ ہے، عدلیہ ایک ادارہ ہے۔

زمینی حقیقت یہی ہے کہ فوج بھی ایک ادارہ ہے۔ کچھ دوست اسے ایک محکمہ ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ یہ محکمہ دفاع کے ماتحت ہے۔ لیکں میں زمینی حقیقت کی بات کروں گا اور وہ یہی ہے کہ فوج کو بھی ایک ادارے کی حیثیت حاصل ہے ۔ آج پاکستان کو جن چیلنجز کا سامناہے، اس صورتحال میں ریاستی اداروں کے درمیان تناو یا محاذآرائی ملک کے مفاد میں نہیں ہے۔

ہم نے پی ڈی ایم کے گزشتہ دور حکومت میں پارلیمان اور عدلیہ کے درمیان محاذآرائی کے مناظر دیکھے ہیں۔ اس وقت کے چیف جسٹس عمر عطا بندیال اور پارلیمان کے درمیان محاذ آرائی نظر آئی۔ لیکن اب صورتحال ذرا مختلف ہے، آج یہ تاثر ہے کہ جیسے عدلیہ اور اسٹیبلشمنٹ آمنے سامنے ہیں۔ یہ تاثر زیادہ خطرناک ہے۔

میں سمجھتا ہوں یہ ملک کے مفاد میں بھی نہیں ہے۔ ایک حکومتی مشیر نے اس صورتحال کو دیکھتے ہوئے یہ تجویز دی ہے کہ صدر مملکت دونوں کے درمیان کسی ڈئیلاگ کی کوئی راہ نکالیں۔ دوستوں کے مطابق آئین میں ایسی کوئی گنجائش نہیں ہے لیکن میرا سوال ہے کہ آئین میں تصادم اور محاذ آرائی کی بھی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ ایسی صورت میں زمینی حقائق کو بھی سامنے رکھنا ہے۔ لیکن مجھے نہیں لگتا کہ دونوں اداروں کے درمیان کسی بھی قسم کی بات چیت کا کوئی امکان ہے۔ بلکہ معاملات بگاڑ کی طرف ہی جا رہے ہیں۔کیا اس سب کو ایسے خاموش تماشائی بن کر دیکھ جا سکتا ہے۔

آپ سوال کر سکتے ہیں کہ اس صورتحال میں حکومت کہاں کھڑی ہے؟ میری رائے میں حکومت ابھی تک معاملا ت کو کنٹرول کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ حکومت کی کوشش یہی نظر آرہی ہے کہ معاملات کو بگڑنے سے روکا جائے۔ لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ موجودہ حالات میں حکومت سب سے کمزور کھلاڑی ہے۔ حکومت کا وزن عدلیہ اور اسٹیبلشمنٹ دونوں سے کم ہے۔ حکومت ریفری کا کردار بھی ادا نہیں کر سکتی، اس لیے مجھے حکومت کسی کلیدی کردار میں نظر نہیں آتی۔

پارلیمان کیا کردار ادا کر سکتی ہے؟ اگر تو پارلیمان متحد اور یک زبان ہو تو وہ کردار ادا کر سکتی ہے۔ پی ڈی ایم کے پہلے دور میں پارلیمان میں اپوزیشن موجود نہیں تھی، اس لیے پی ڈی ایم نے پارلیمان کو استعمال کیا۔ لیکن اب پارلیمان میں اپوزیشن موجود ہے۔ لہذا کہا جاسکتا ہے کہ آدھی پارلیمان ایک طرف ہے تو آدھی دوسری طرف ہوگی ۔ اس لیے مجھے اس صورتحال میں پارلیمان کا کوئی عملی کردار نظر نہیں آرہا۔ اسی لیے اس بار ہم پارلیمان میں تقاریر نہیں دیکھ رہے بلکہ پریس کانفرنسز ہو رہی تھیں۔ حالانکہ پارلیمان میں تقاریر زیادہ محفوظ ہیں۔

پارلیمان کی تقریر پر توہین عدالت کی کارروائی نہیں ہو سکتی جب کہ پریس کانفرنس پر آ سانی سے توہین عدالت کی کارروائی ہو سکتی ہے۔ اس لیے اس دفعہ پارلیمان کا محاذ کافی خاموش ہے۔ حکومت ابھی تک ایسی کوئی قانون سازی بھی سامنے نہیں لائی ہے۔ جس سے اس محاذآرائی کی شکل بدلی جا سکے۔ لیکن شاید قانون سازی کے لیے ابھی پارلیمان تیار بھی نہیں ہے۔

مخصوص نشستوں کی معطلی نے پارلیمان میں حکومتی اتحاد کی عددی طاقت کوکم کر دیا ہے۔ اگر حکومتی اتحاد کے پاس دو تہائی اکثریت ہوتی تو شاید پارلیمان کوئی کردار ادا کرسکتی تھی۔ لیکن مخصوص نشستوں کی معطلی نے حکومتی اتحاد کو کزور کر دیا اور پارلیمان کو بھی نا مکمل کر دیا ہے۔ اس طرح ایک لولی لنگڑی اور نا مکمل پارلیمان سے کیسے کسی بڑے کردار کی توقع کی جا سکتی ہے۔

اسلام آباد ہائی کورٹ کے چھ ججز کے خط نے اس محاذ آرائی میں شدت پیدا کی ہے۔ کیا یہ خط ساری عدلیہ کا عکاس ہے، میں نہیں سمجھتا۔ لیکن پھر بھی خط کی اہمیت سے انکار ممکن نہیں ہے۔ اس خط میں لگائے گئے الزمات کی تحقیقات ابھی تک نہیں ہو سکی ہے۔ اس خط کو کسی منطقی انجام تک بھی نہیں پہنچایا جا سکا ہے۔ لیکن اس خط سے جو ارتعاش پیدا ہوا ہے، اس کی شدت دن بدن بڑھ رہی ہے۔ اب شاعر فرہاد کی گمشدگی کے کیس نے ماحول پھرگرما دیا ہے۔

میں ذاتی طو پر کسی بھی قسم کی جبری گمشدگی کو غلط سمجھتا ہوں۔ لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ بغیر ثبوت اور صرف مفروضوں کی بنیاد پر کسی کو ذمے دار نہیں ٹھہرایا جاسکتا۔ بہر حال اداروں کے درمیان تصادم پاکستان کے لیے ٹھیک نہیں۔ سب کو جہاں اپنی اپنی آئینی حدود میں کام کرنا ہے، وہاں ایک دوسرے پر بالادستی کی کوشش بھی ٹھیک نہیں۔ آئین میں دونوں کے اکٹھے بیٹھ کر معاملات حل کرنے کی کوئی راہ نہیں ہے۔ کوئی ایسا میکنزم بھی نہیں ہے۔ لیکن پھر بھی راہ نکالنے کے لیے کچھ نہ کچھ تو سوچنا ہوگا کیونکہ کھیل خراب ہو رہا ہے۔

بشکریہ روزنامہ ایکسپریس