کوئٹہ لٹریچر فیسٹیول : تحریر سلیم صافی


کراچی، لاہور اور مظفرآباد میں کامیاب لٹریچر فیسٹیول کے انعقاد کے بعد کراچی آرٹس کونسل کے صدر احمد شاہ نے کوئٹہ لٹریچر فیسٹیول کے انعقاد کا قصد کیا تو کئی لوگوں نےاسے پاگل پن قرار دیا لیکن ادب اور فن سے پاگل پن کی حد تک محبت کرنے والے احمد شاہ بضد رہے۔ انہوں نے وزیراعلیٰ بلوچستان سرفراز بگٹی کے سامنے اپنی خواہش کا اظہار کیا تو انہوں نےنہ صرف ان کے ارادے کی تحسین کی بلکہ ہر طرح کا تعاون کرنے کی یقین دہانی بھی کرائی۔دیگر شہروں کے فائیو اسٹار ہوٹلوں کے برعکس کوئٹہ لٹریچر فیسٹیول کے لئے بلوچستان یونیورسٹی آف انفارمیشن ٹیکنالوجی، مینجمنٹ اینڈ سائنسز کا انتخاب کیا گیا جس کی وجہ سے یہ زیادہ رسکی کام بن گیا تھا لیکن بلوچستان کے طلبا و طالبات نے ہزاروں کی تعداد میں شرکت کرکے اور نہایت شائستگی اور تہذیب کا مظاہرہ کرکے سب خدشات کو دفن کر دیا۔ میں دیگر لٹریچر فیسٹیولز میں بھی شریک ہوا ہوں لیکن یہاں طلبہ کی حاضری سب سے زیادہ تھی۔ یہاں ڈسپلن سب سے زیادہ تھا۔ یہاں آئے ہوئے مہمانوں کے ساتھ محبت کا اظہار سب سے زیادہ تھا۔ بلوچستان میں دہشت گردی کے واقعات اور ایک مخصوص بیانئے کی وجہ سے ہم اتنے شاکی ہوگئے ہیں کہ جب پروگرام کے آغاز میں قومی ترانہ گایاجارہا تھا تو میں پنڈال کی طرف دیکھ رہا تھا کہ کتنے طلبہ و طالبات اس کی تعظیم میں کھڑے ہوتے ہیں لیکن میری حیرت کی انتہا نہ رہی کہ کوئی ایک بھی بیٹھا رہ نہیں پایا۔ ان سب نے انور مقصود، بشریٰ انصاری، سہیل احمد عزیزی، ماہرہ خان اور سندھ اور پنجاب سے آئے ہوئے مہمانوں کی ایسی عزت افزائی کی کہ سب کا سفر کوئٹہ یادگار بن گیا۔ میرے لئے ایک خوشگوار حیرت اردو مشاعرے میں طلبہ و طالبات کی دلچسپی بھی تھی۔ مجھے مجموعی طور پر دو دن میں چار سیشنز میں شریک ہونا تھا اور اس میں قوم پرست رہنماؤں اور طلبہ و طالبات کے خیالات سے مستفید ہونے کا بھرپور موقع ملا۔ میرا احساس ہے کہ اصل مستقبل اور اصل سرمایہ بلوچستان کے نوجوان ہیں جو اس فیسٹیول میں مختلف کالجوں اور یونیورسٹیوں سے جمع ہوئے تھے اور انہیں مطمئن کرکے ہی ہم بلوچستان کو بچا سکتے ہیں ۔لیکن سوال یہ ہے کہ یہ نوجوان نسل کس کے ساتھ ہے اور کس کے ذریعے انہیں اپنا بنایا جاسکتا ہے ۔

پہلی گزارش تو یہ ہے کہ یہ نسل ناراض ہے ۔ شاکی ہے ۔ احساس محرومی کا شکار ہے ۔ انہیں اسٹیبلشمنٹ سے بھی شکایت ہے اور اس کے قریبی سیاستدانوں سے بھی لیکن سردست وہ نہ پاکستان سے علیحدگی چاہتے ہیں اور نہ پہاڑوں پر جانا چاہتے ہیں لیکن اگر ہم نے ان کی شکایات کو دور نہ کیا تو پھر خاکم بدہن کسی اور طرف جاسکتے ہیں۔

بلوچستان کی سیاسی آوازوں کو ہم تین حصوں میں تقسیم کرسکتے ہیں ۔ ایک وہ لوگ ہیں جو بلوچستان کو پاکستان سے جدا کرنا چاہتے ہیں اور پہاڑوں پر چلے گئے ہیں ۔ دوسرے حکومت میں شامل بلوچ اور پختون لیڈرز ہیں جو پرواسٹیبلشمنٹ سمجھے جاتے ہیں اور جو مسلم لیگ (ن) یا پیپلز پارٹی وغیرہ سے جڑے ہیں ۔ تیسرا گروہ اختر مینگل ، ڈاکٹر مالک اور محمود خان اچکزئی جیسے قوم پرستوں کا ہے ، جو ریاست سے بھی خوش نہیں لیکن پاکستان سے علیحدگی جیسے انتہاپسندانہ نعرے بھی نہیں لگاتے ۔ میرے نزدیک نوجوان نسل کو ریاست سے جوڑنے میں یہ آخری گروپ بنیادی کردار ادا کر سکتا ہے ۔بلکہ پہاڑوں پر گئے ہوئے لوگوں سے بھی ان کے ذریعے بات ہوسکتی ہے ۔ مجھے احساس ہے کہ حکومت میں شامل لوگ سب سے زیادہ غصہ سیاستدانوں کے اس تیسرے طبقے پر ہیں ۔ وہ الزام لگاتے ہیں کہ یہ سب باری باری حکومتوں میں رہے لیکن اپنی باریوں پر کچھ بھی نہیں کیا۔ وہ یہ بھی الزام لگاتے ہیں کہ یہ لوگ ایک طرف مین اسٹریم پالیٹکس کے مزے اڑاتے ہیں اور دوسری طرف ایسا بیانیہ بناتے ہیں کہ جس سے نوجوان ریاست سے بددل ہوتے ہیں اور علیحدگی پسندوں کے بیانیے کو تقویت ملتی ہے ۔ شاید ان الزامات میں وزن ہو لیکن حقیقت یہ ہے کہ نوجوان نسل میں حکومت میں بیٹھے ہوئے لوگوں کی محبوبیت نہ ہونے کے برابر ہے جبکہ وہ قوم پرست جماعتوں سے تحفظات کے باوجود جڑی ہوئی ہے کیونکہ وہ بولتے وقت ان کے جذبات کی ترجمانی کرتی ہیں ۔پاکستان کے مختار بلوچستان میں آزادانہ الیکشن سے ڈرتے ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ بلوچستان کے مسائل کی چابی شفاف الیکشن ہے ۔ دوسرے مرحلے میں نوجوان نسل کو انگیج کرنا ہے لیکن بلوچ اور پختون کو جبر سے انگیج نہیں کیا جاسکتا ۔ وہ محبت کی زبان سمجھتا ہے اور اس کی ایک مثال کوئٹہ لٹریچر فیسٹیول ہے ۔ چونکہ احمد شاہ اور ان کے ساتھ جانے والے سیلیبرٹیز محبت کا پیغام لے کر گئے تھے تو وہاں کے نوجوان طلبہ و طالبات نے بھی پنجابی ، سندھی یا سرائیکی ہونے کی وجہ سے انہیں دھتکار نہیں دیا بلکہ وہ محبتیں نچھاور کردیں کہ خود وہ سیلیبرٹیز بھی حیران تھے ۔ بلکہ مجھے یہ کہنے میں کوئی عار نہیں کہ جس طرح بلوچستان کی سیاسی قیادت دوسروں کی نسبت زیادہ سنجیدہ ہے ، اسی طرح بلوچستان کا نوجوان بھی زیادہ سنجیدہ ہے اور اسے ہلکا نہیں لینا چاہئے ۔

بشکریہ روزنامہ جنگ