مشتِ خاک اور یہ سارے!! : تحریر سہیل وڑائچ


مشتِ خاک کی کیا حیثیت؟کہاں کی دانائی اور کہاں کا تاریخی شعور؟ اہل سیاست اور اوپر والے ہی سب سے زیادہ عقل مند ٹھہرتے ہیں وہ وقت کے بادشاہ ہوتے ہیں، غلط کریں یا صحیح وہ اس پر اڑے رہتے ہیں چاہے اس میں ملک تباہ ہو جائے، عوام مفلوک الحال ہو جائیں یا ریاست زوال کا شکار ہو جائے۔ آج وہی صورتحال درپیش ہے۔ ایک ہے کہ وہ غصے سے لال پیلا ہے انتقام لینا چاہتا ہے، ایک دوسرا ہے جو اپنی انا کا اسیر ہے مقبولیت کے گھوڑے پر سوار ہو کر سب کو روندنا چاہتا ہے اور پھر اوپر والے ہیں جو معافی پر تیار نہیں۔ نتیجہ یہ ہے کہ یہ سارے مل کر مایوسی کو جنم دے رہے ہیں اور آگے کا کوئی راستہ نظر نہیں آ رہا۔ یہ سب ضدی اور اڑیل ہیں اسی لئے سیاسی بحران حل ہوتا نظر نہیں آتا۔

محترمہ بے نظیر بھٹو نے 1977ء سے لیکر 2007ء تک مسلسل 30سال مزاحمت اور جدوجہد کی سیاست کی۔ انہیں بھٹو مخالفوں، مذہبی انتہا پسندوں، مقتدرہ اور ایٹم بم کی حفاظت کی وجہ سے مغربی طاقتوں سمیت اِن تمام عناصر سے کشمکش کا سامنا رہا۔ کبھی قید، کبھی جلا وطنی اور کبھی محدود سا اقتدار۔ محترمہ نے اقتدار ملا تو انتقام نہ لیا حتیٰ کہ ان ججوں، جرنیلوں اور بیورو کریٹس کے ساتھ ایک ہی میز پر بیٹھنے کی مجبوری کوبھی نباہ گئیں۔ 30 سالہ جدوجہد اور مزاحمت کے بعد جب وہ آخری بار پاکستان واپس آنے لگیں تو انہوں نے ایک کتاب ’’مفاہمت‘‘ کے نام سے لکھی، ہمارے آج کے کرداروں کو وہ کتاب پڑھنی چاہیے، محترمہ نے دنیا بھر کے ملکوں کی مثال دی، تاریخ کے حوالے لائیں اور پھر دلائل سے ثابت کیا کہ ملک کے اندر لڑائیوں سے نہیں بلکہ مفاہمت سے مستقبل کا راستہ نکل سکتا ہے۔ افسوس کہ ان کے فاضلانہ خیالات پر پاکستان میں عملدرآمد نہ ہو سکا وگرنہ یہ ملک مفاہمت کے راستے سے گزر کر ترقی کی شاہراہ پر گامزن ہو جاتا۔

اس مشتِ خاک نے وزیر اعظم شہباز شریف کے پچھلے دور میں مفاہمت کی بات شروع کی تو سب سے پہلے نونی انتہا پسندوں نے ناک بھوں چڑھائی اور کہا اب تو کپتان کی باری ہے وہ بھی اسی طرح موسیقی کا سامنا کرے جیسے نونیوں نے کیا ہے۔ مشتِ خاک نے جواب دیا انتقام کی باریاں لگانے سے مسئلہ حل نہیں ہوگا منڈیلا اور بے نظیر نے انتقام نہیں لیا آج تاریخ میں وہ سرخرو ہیں اور انتقام لینے والوں کی قبر پر کوئی فاتحہ تک نہیں پڑھتا۔ انصافی تو ہیں ہی جذباتی وہ تو ہمیشہ گالیوں سے ہی نوازتے ہیں انہوں نے کہنا شروع کردیا کہ نون کی حیثیت ہی کیا ہے انصاف کے ساتھ سیلاب ہے جو سب کوبہا کر لے جائے گا چنانچہ انصافیوں نے بھی مذاکرات سے انکار کردیا۔ اوپر والے ان دونوں سے کہیں طاقتور اور دانا ہیں انہیں علم تھا کہ یہ غلطیاں کریں گے اور ہمیں اس کا فائدہ ہوگا اور ویسے ہی ہوا۔ مگر لڑائی اور ضد کے اس کھیل میں ریاست اور اس کے شہریوں کا کتنا نقصان ہو رہا ہے اس کا ان تینوں فریقوں کو اندازہ تک نہیں۔ امید مر رہی ہے جو سب سےزیادہ نقصان دہ ہے۔

مشتِ خاک کے مفاہمت پر زور میں دانائی نہیں تاریخ کا زندہ سبق پوشیدہ ہے۔اگر مسلمانوں کے مذہبی فرقوں میں لڑائی نہ ہوتی اور مسلمان تقسیم نہ ہوتے تو منگول سقوط بغداد میں کامیاب ہو سکتے تھے؟ مغربی پاکستانی اور بنگالی مفاہمت پر کاربند ہوتے تو کیا سقوط ڈھاکہ ہو سکتا تھا؟ سپین میں انتہا پسندوں کی شہریوں پر چیرہ دستیاں نہ ہوتیں تو کئی صدیاں قائم رہنے والی اموی سلطنت کا چراغ سقوط غرناطہ کی شکل میں بجھ سکتا تھا؟ عثمانی سلطنت کے خلاف خود مسلمان علم بغاوت بلند نہ کرتے تو6سو سال تک قائم رہنے والی سلطنت صرف ترکیہ تک کیسے محدود ہو سکتی تھی؟آج کے لیبیا اور شام کے اندر اگر اندرونی لڑائیاں نہ ہوتیں تو کیا بیرونی دشمن خلفشار پیدا کرنے میں کامیاب ہو سکتے تھے؟ سوویت یونین کو دیکھ لیں اس کی بیمار معیشت نے اس ایٹمی سپرپاور کو پارہ پارہ کرکے رکھ دیا۔ دنیا کی یہ مثالیں چیخ چیخ کر کہہ رہی ہیں کہ اندرونی خلفشار اور معاشی زوال ریاستوں کیلئے زہر قاتل ہوتا ہے۔ بدقسمتی سے ہمارے ملک میں اندرونی خلفشار بھی ہے اور معاشی ابتری بھی! مفاہمت ہو جائے تو دونوں سنبھل سکتے ہیں۔

مولانا شاہ احمد نورانی مرحوم و مغفور ہمیشہ کہا کرتے تھے کہ پاکستان کے مذہبی اور سیاسی عناصر کو فوج کے آمنے سامنے نہیں آنا چاہیے وہ مصر اور کئی دوسرے اسلامی ممالک کی مثال دیا کرتے تھے کہ جب اس طرح کا خلفشار ہو تو ریاست کمزور ہو جاتی ہے۔ مولانا نورانی نے نہ کسی مارشل لا حکومت کو مانا نہ کبھی اوپر والوں کی مداخلت کو تسلیم کیا۔ جنرل ضیاء الحق کی طرف سے ترغیب و تحریص کے باوجود انہوں نے ڈٹ کر اس کا مقابلہ کیا اور جب انکے اہم اور طاقت ور ساتھی جنرل ضیاء کے ساتھ مل گئے تو انہوں نے سب کو نکال باہر کیا، پارٹی کمزور ہوگئی مگر انہوں نے جمہوری اصولوں پر سمجھوتہ نہ کیا۔ایم ایم اے کے زمانے میں بھی جب قاضی حسین احمد اور مولانا فضل الرحمٰن، پرویز مشرف سے تعاون پر آمادہ ہوئے اور انہیں ووٹ دے دیئے مولانا نورانی کو دست غیب نے اس فیصلے سے پہلے ہی اپنے پاس بلا کر ان کی زندگی بھر کی جمہوری ساکھ برقرار رکھی۔ مولانا نورانی اپنی صاف شفاف جمہوری ساکھ کے باوجود فوج سے لڑائی کے سخت خلاف تھے، کپتان خان نے بھی ابھی یہی بات کی ہے لیکن اس کی جماعت کا بیانیہ کچھ اور ہی کہہ رہا ہے۔ اوپر والوں اور کپتان کے عقیدت مندوں سے گزارش ہے کہ پاکستان سب کا ہے اگر ہم دشمن ملکوں سے مذاکرات کرسکتے ہیں، ان سے ماضی کی مخالفتیں بھول سکتے ہیں تو ملک کے اندر رہنے والوں سے مسلسل لڑائی کیوں؟

یہ سارے اگر انا، ضد اور انتقام کا شکار ہو کر برسرپیکار رہے تو نہ معیشت ٹھیک ہوگی نہ ملک میں امید بحال ہوگی نہ ہی دنیا میں ہماری ساکھ بحال ہوگی۔ ایسے میں کیا مجبور عوام اس وقت کا انتظار کریں جب جوش وجنون ٹھنڈا پڑے اور یہ سارے ہوش کے ناخن لیں۔

ملک کے ماضی کے اسی طرح کے بحرانوں کا جائزہ لیں تو ان بحرانوں کا حل یا تو پارلیمان کے راستے سے نکلا یا پھر گول میز کانفرنس یا آل پارٹیز کانفرنس کے ذریعے سے۔ فی الحال آل پارٹیز کانفرنس یا گول میز کانفرنس کا تو ماحول نہیں ہے البتہ پارلیمان کا راستہ کھلا ہے۔ مسلم لیگ ن سپیکر ایاز صادق اور تحریک انصاف اپنے پارلیمانی لیڈر عمر ایوب کی حوصلہ افزائی کرے ،وہ سیاسی مفاہمت کی راہ پر چلیں اور قدم بہ قدم ایسے سیاسی فارمولے کی طرف بڑھیں جس سے ہم اعتماد کے بحران سے نکل سکیں اور قومی مفاہمت کی عظیم شاہراہ پر گامزن ہو سکیں۔

دوسرا راستہ لڑائی، بھڑائی، ہنگاموں اور ہڑتالوں کا ہے۔ ہم تو دھرنے بھی دیکھ چکے ہیں، ہم تو ماضی کی مقتدرہ کی مدد سے پارلیمان، ٹی وی اور اس سے پہلے سپریم کورٹ پر حملے بھی ملاحظہ کر چکے ہیں نتیجہ کیا نکلتا ہے؟ مزید عدم استحکام، مزید مایوسی، مزید معاشی ابتری۔ آخر ہم اپنی ماضی کی غلطیوں سے سبق کیوں نہیں سیکھتے، سیاستدان جس پیڑ پر بیٹھے ہیں اسی کو کیوں کاٹنا چاہتے ہیں سیاسی عدم استحکام رہے تو معیشت میں بھی دیرپا استحکام نہیں آئے گا۔

مشتِ خاک کی نہ سنی گئی نہ سنی جائے گی، کم از کم تاریخ کاسبق، ماضی کے تجربات اور دنیا کی مثالیں ہی سامنے رکھ لیں۔ یہ سارے اگر گاندھی اور جناح کی طرح اپنے اپنے موقف میں لچک کیلئے تیار ہو جائیں، انا اور ضد کی بجائے قومی مفاد کو ذہن میں رکھیں تو کل ہی امید کی جوت جگائی جا سکتی ہے، اے کاش……!

بشکریہ روزنامہ جنگ