2017/18 میں جب پاکستان کی سپریم کورٹ نے من گھڑت اور بے بنیاد مقدمات میں میاں نواز شریف کو اولا” وزارت عظمیٰ، پھر جماعت کی صدارت اور بعد ازاں اراکین سینٹ کی کثیر تعداد کو مسلم لیگ ن کے انتخابی نشان ٹائیگر سے محروم کیا کہ انکے ٹکٹوں پر میاں محمد نواز شریف کے دستخط ھیں اسلئے وہ اس symbol پر انتخابات میں حصہ نہیں لے سکتے اس کے بعد میاں نواز شریف اور انکے خاندان اور سنئیر جماعتی راھنماؤں پر نیب کے مقدمات قائم کیے اور انہیں جیلوں میں بند کردیا گیا میاں نواز شریف پر عدلیہ اور اسٹیبلیشمنٹ کی یہ نوازشات کوئی 2018 سے نہیں شروع ھوئیں بلکہ انہوں نے جب سے پاکستان مسلم لیگ کو محلات و خواص سے نکال کر عوام کی دہلیز تک لایا تو ان پر پاکستان میں معروف ٹرائکا نے انہیں کبھی وزارت عظمیٰ سے ھائی جیکر اور کبھی نام نہاد پانامہ جس میں انکا نام تک نہ تھا اور بیٹے سے تنخواہ نہ لینے کے جرم میں وزارت عظمیٰ سے معزول کیا اور سالوں جیل میں بند رکھا تاوقتیکہ شدید بیماری کے باعث انہیں بغرض علاج لندن جانے کی اجازت ملی نوازشریف 21 اکتوبر کو جب لندن سے پاکستان آئے اگرچہ وہ انتخابی عمل میں پارلیمانی بورڈز کی میٹنگز میں کارکنان سے ملاقاتیں کرتے رھے محدود انتخابی جلسوں سے بھی خطاب کیا لیکن پاکستان مسلم لیگ ن کی مرکزی مجلس عاملہ جس میں کراچی سے خیبر تک اور آزاد کشمیر سے
گلگت بلتستان تک سنئیر مسلم لیگی راھنماؤں اور نواز شریف کے جاں نثار ساتھیوں کی بڑی تعداد کا فورم ھے جس میں مسلم لیگ ن کے مرکزی عہدہ دران، موجودہ وزیراعظم پاکستان جناب شہباز شریف، وزیر اعلیٰ پنجاب محترمہ مریم نوازشریف، ڈپٹی وزیر اعظم پاکستان سینیٹر اسحاق ڈار،سپیکر قومی اسمبلی سردار ایاز صادق،وفاقی و صوبائی وزرا،معاونین خصوصی ممبران قومی اسمبلی،سینٹ و صوبائی اسمبلیز، چاروں صوبائی،وفاق،آزاد کشمیر گلگت بلتستان،اوورسیز مسلم لیگ ن کے عہدہدران اور یوتھ،خواتین،لائرز فورم و دیگر ونگز کے صدور وجنرل سکریٹریز،سابق گورنرز اقبال ظفر جھگڑا،چوھدری محمد برجیس طاھر، وزراء اعلیٰ حمزہ شہباز و وزیراعظم راجہ فاروق حیدر، وزیر اعلیٰ حفیظ الرحمن،سپیکر پنجاب اسمبلی رانا اقبال، شاہ غلام قادر سمیت وزرا مشیروں سمیت ڈیڑھ سو کے لگ بھگ مسلم لیگ کے کارکنان موجود تھے اجلاس کی کارروائی سیکرٹری جنرل پاکستان مسلم لیگ ن احسن اقبال نے تلاوت اور افتتاحی کلمات سے شروع کی اور سبکدوش ھونے والے صدر جناب شہباز شریف وزیراعظم پاکستان نے ابتداعی خطاب کیا اور ماضی کے حالات گزشتہ کا 1990 سے اجمالی خاکہ پیش کیا کہ کن حالات میں انہوں نے مسلم لیگ ن کی صدارت سنبھالی اور وہ تمام تر راھنمائی اور ھدایات پارٹی کے قائد محترم محمد نواز شریف سے ھی لیتے رھے اور اپنے آپکو بقول انکےکاغذی صدر تک محدود رکھا اب جبکہ وہ جملہ مقدمات سے باعزت و باوقار بری ھو گئے تو یہ امانت واپس انکے حوالے کرنے اپنا استعفیٰ پیش کردیا۔ وزیراعظم شہباز شریف کو مرکزی مجلس عاملہ نے انکا استعفیٰ منظور کرکےمیاں نواز شریف کے بطور صدر منتخب ھونے تک بطور قائم مقام صدر کام کرنے کی استدعا کی جو انہوں نے قبول کر لی۔
جب احسن اقبال نے میاں نواز شریف کو خطاب کے لئے بلایا تو پورا حال تالیوں سے گونج اٹھا اور دیر تک جاں نثار کارکنوں کی تالیاں بجتی ھی چلی گئیں نواز شریف سے کارکنوں کی عقیدت و محبت کا یہ عالم ھے کہ راجہ محمد ظفر الحق بزرگ مسلم لیگی راھنما و سابق چئیرمین مسلم لیگ ن، باوجود پیرانہ سالی، صدیق الفاروق جو بہت عرصے سے شدید بیمار اور ضعف و نقاہت کا شکار تھے چھڑی کے سہارے، اور سابق سینیٹر سلیم ضیا کراچی سے ویل چئیر پر اجلاس میں شریک ھوئے۔
احسن اقبال نے دعوت دیتے ھوئے کہا کہ پاکستان مسلم لیگ ن کو کراچی سے خیبر تک،بلوچستان گوادر سے گلگت بلتستان تک، آزاد کشمیر میں بھمبر سے نیلم تک عوامی قوت کے اندر تبدیل کرنے والے اس قائد کو جو اس ملک میں آئینی اور جمہوری جد و جہد کی بھی علامت ہے جس نے آمریت کا بھی مقابلہ کیا جس نے اس ملک میں ایک نئے جمہوری نظام کی تشکیلِ نو کے لیے سیاسی جماعتوں میں اتفاقِ رائے پیدا کیا،جس نے میثاق جمہوریت کے چارٹر پر دستخط کیے۔ ہمیں فخر ہے کہ ہمیں ایک ایسے قائد کی قیادت میں کام کرنے اور اپنے سیاسی نظریات کو پختہ کرنے کا موقع ملا اب میں دعوت دوں گا قائد پاکستان مسلم لیگ جناب محمد نواز شریف کو کہ وہ مرکزی مجلس عاملہ سے خطاب کریں۔ نواز شریف اپنے ولولہ انگیز خطاب کے لئے ڈائس پر پہنچے تو ممبران نے کھڑے ھوکر تالیوں اور دلآویز محبت سے قائد کا استقبال کیا۔
نواز شریف نے حسب روایت سب شرکاء اجلاس کا بالترتیب منصب و محبت بھرے سلام سے آغاز خطاب کیا اور یوں جماعت کے سنئیر اور جاں نثار کارکنوں سے اپنی خوشی اور دلی اطمینان کا اظہار کیا کہ ھر کارکن یہ سمجھ رھا تھا محمد نوازشریف صرف ان سے مخاطب ھیں۔انہی جماعت کا ستون قرار دیا اور کہا کہ اتنے نمایاں چہرے اتنی سنئیر اور کمیٹڈ جماعتی قیادت ایک چھت کے نیچے بہت عرصے بعد دیکھی جو چاروں صوبوں اسلام آباد ،گلگت و بلتستان اور آزاد کشمیر سے یہاں تشریف لائی ھو مجھے اپنے ان ساتھیوں پر ناز ھے جنہوں نے اپنی اپنی اولادوں بھائیوں رشتہ داروں اور ساتھیوں کو جیلوں،نظر بندیوں تشدد قور جھوٹے مقدمات کا سامنا کیا جنہیں موت تک سزا بھی ھوسکتی تھی۔
مسلم لیگ سے انکی کمٹمنٹ مشکلات اور نامساعد حالات میں جماعت اور انکے ساتھ کھڑا رھنے پر انکا شکریہ ادا کیا مبارکباد دی اور مسلم لیگ ن کے ساتھ ھونے والی زیادتیوں بلکہ پاکستان کے خلاف اور پاکستان میں ھونے والی ترقی و خوشحالی کا راستہ روکنے والے کرداروں کا تفصیل کے ساتھ ذکر کیا کہ کیا دنیا میں کہیں ایسا ھوتا ھے کہ چند جج ملکر ایک منتخب وزیر اعظم اور اسکی حکومت کو من گھڑت، بے بنیاد اور جھوٹے الزامات کی پاداش میں یوں فارغ کردیں کہ اس سے وزارت عظمیٰ بھی لے لیں جماعت کی صدارت بھی اور جماعت کا انتخابی نشان بھی جیل میں تو کیا جہاز میں ھتھکڑیاں لگائیں
اس وزیراعظم جس نے ملک کو ایٹمی طاقت بنایا باوجودیکہ اسوقت کے حساب سے امریکہ کی طرف سے5 ارب ڈالر کی رشوت کی پیشکشیں بھی ھوئی ھوں اور وہ ھم نے نہ قبول کی ھوں، ملک میں ھونے والی ترقی کا یہ عالم ھو کہ پڑوسی ملک بھارت نے ھم سے ھمارا ترقیاتی پروگرام منگوایا انہوں نے اس پروگرام پر عملدرآمد کرکے بھارت کی معیشت کو اٹھان دی اور ھمیں اس کی سزا دی گئی۔
نواز شریف نے کہا جب 2013 میں میری حکومت بنی تو میں وزیراعظم بنکر سب سے پہلے بنی گالا عمران خان کے پاس گیا اور انہیں کہا کہ 35 پنکچروں کی رٹ چھوڑو آئیں ملکر ملک کی ترقی کے لئے کام کرتے ھیں اس نے کہا ٹھیک ھے، میری بنی گالہ کی سڑک بنوادیں وہ میں نے پندرہ دنوں میں بنوا دی وہ تعاون کرنے کے بجائے لندن گیا طاھر القادری بھی وھاں پہنچ گیا،پرویز الہی بھی اور جنرل ظہیر الاسلام بھی سب نے ملکر پاکستان کے خلاف سازش کا جال بننا شروع کیا اور 2014 میں حکومت کے خلاف سازش کی یہ دھرنے یہ سازش پاکستان کے عوام کے خلاف تھی، پاکستان میں CPEC کو روکنے کی سازش تھی۔
اور میں ان لوگوں کے نام بھی نہیں لینا چاہتا جو اس سازش میں پوری طرح سے involved تھے.اگر وہ موومنٹم جاری رہتا، آج تک آپ یقین کریں ہم دنیا کے اندر ایک مستحکم اور خوشحال پاکستان بن چکے ھوتے۔ ایشیا میں تو ہم یقیناً اللہ کے فضل و کرم سے نمبر دو یا نمبر تین پر تھے ھی دنیا میں بھی ایک اونچا مقام حاصل کر چکے ہوتے۔ میں بالکل وثوق کے ساتھ یہ بات کہہ رہا ہوں کہ اتنا بہترین ہمارا ملک ٹیک آف کر چکا تھا اور موٹر ویز اُس زمانے میں بننی شروع ہو گئی تھیں، اُس زمانے میں بڑے بڑے میگا پروجیکٹ لگنے شروع ہو گئے تھے جس کی تاریخ میں کوئی مثال نہیں ملتی اور اُس وقت یہ بھی کہا جاتا تھا اور بڑے بڑے لوگ کہتے تھے جنہوں نے مجھے نکالا وہ بھی کہتے تھے کہ نواز شریف یہ موٹر ویز کے اوپر کیوں پیسہ لگا رہا ہے یہ تو پیسہ ضائع کر رہا ہے۔ آج ان موٹر ویز کی افادیت کا پوری قوم کو علم ہے۔ سب جانتے ہیں کہ ان موٹر ویز ایکسپریس ویز نے پاکستان کی معیشت کے اندر کتنا کانٹریبیوٹ کیا ہے میں ان لوگوں کے نام نہیں لینا چاھتا میں پہلے بھی کہہ چکا ھوں لیک پھر
اتنی اکنامک گروتھ ہماری بڑھتی جا رہی تھی آپ سب لوگوں کو پتہ ہے۔
یہ حقائق ھیں سچ کہتا ہوں کیونکہ جھوٹ کی نہیں عادت مجھے۔
CPEC چین کی طرف سے پاکستان کے لئے ایک تحفہ تھا اس سے ھم نے پاکستان کے اندر موٹر ویز بنائیں،بجلی کی پیداوار کے لئے پاور پراجیکٹس شروع کئیے اور منصوبے لگائے 2013 میں خیبر پختون خواہ میں ھم اور مولانا فضل الرحمان صاحب جو میرے بہت اچھے دوست ھیں اور ھمارا بہت دیرینہ تعلق اور باھمی احترام ھے ،ان سے ملکر حکومت بناسکتے تھے تحریک انصاف وھاں سنگل لارجسٹ پارٹی ضرور تھی لیکن اکثریتی پارٹی نہیں تھی اگر ھم اکٹھے ھو جاتے اور مولانا صاحب کا اصرار بھی تھا اور مجھے انکا بہت احترام بھی تھا تو تحریک انصاف کی حکومت نہیں بن سکتی تھی۔
نواز شریف نے بڑی دلسوزی سے ان تمام واقعات اور حالات کا تذکرہ کیا جو انکے ساتھ گزرے اور زور دیکر استفسار کیا کہ ھمارا تو ھر طرح کا احتساب ھوا کردہ ناکردہ سب گناھوں کی پاداش میں حکومتیں گنوائیں سزائیں جیلیں جلا وطنی سب کچھ برداشت کیا اس ملک کو ایٹمی قوت بنانے کی سزا بھی بھگتی،اس کی ترقی و خوشحالی کی جانب لیجانے کی سزا بھی بھگتی لیکن جن ججوں نے کہا کہ نواز شریف اور مریم نواز کو جیل میں ڈالنا اور عمران خان کو لانا ھے ثاقب نثار کی آڈیو لیکس میرے پاس موجود ھیں جرنیلوں کی شوکت عزیز سے گفتگو ریکارڈ کا حصہ ھے ان کی accountability کیوں نہیں ھوتی جنہوں نے ترقی کرتے ملک کو پستیوں کی دلدل کی طرف دھکیلا،ھمارے وقت میں ڈالر 104 روپے سے اوپر اسحاق ڈار صاحب نے نہیں جانے دیا بجلی،آٹا چینی، گھی پٹرول ڈیزل اور ضروریات زندگی سب عوام کی دسترس میں تھی پھر اسکو پر کیوں لگنے شروع ھوئے اسکے زمہ دار یہ جج اور انکے ساتھی ھیں ایک تو چیف جسٹس بننے والا تھا وہ استعفیٰ دیکر کیوں بھاگا کوئی ھے جو چیف جسٹس بن رھا ھو وہ 6/8 مہینے پہلے بھاگ جائے دال میں کچھ کالا نہیں دال ھی کالی ھے۔
نواز شریف نے مجلس عاملہ کے کارکنان کا حوصلہ بڑھایا اور انہیں یقین دلایا کہ ھم پاکستان کی ترقی اور خوشحالی کے لئے کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کریں گے۔
مرکزی مجلسِ عاملہ کے اجلاس میں جماعت کے صدر کے انتخاب کے لئے جنرل کونسل کا اجلاس 28 مئی کو ماڈل ٹاؤن لاھور میں طلب کیا گیا الیکشن کمیشن بھی تشکیل دیا گیا جو رانا ثنا اللہ چئیرمین، جبکہ ممبران میں بیگم عشرت اشرف،اقبال ظفر جھگڑا،کھیل داس کوھستانی، پر مشتمل ھے جو 27 مئی سے کاغذات نامزدگی وصول کرے گا۔