دنیا بھر میں 800ملین خواتین آئرن کی کمی میں مبتلا


لاہور (صباح نیوز) پرنسپل پوسٹ گریجویٹ میڈیکل انسٹی ٹیوٹ و معروف گائناکالوجسٹ پروفیسر ڈاکٹر سردار محمد الفرید ظفرنے کہا کہ دنیا بھر میں تقریبا800ملین خواتین آئرن کی کمی میں مبتلا ہیں جس کے بڑے حصے51فیصد کا تعلق ترقی پذیر ایشیا ئی ممالک سے ہے جبکہ بدقسمتی سے پاکستانی خواتین خون کی کمی کا ایک بڑا ہدف ہیں۔

پروفیسر الفرید ظفر نے کہا کہ کم عمری میں شادیاں معقول وقفہ کے بغیر جلد حمل اور غربت کے باعث مناسب خوراک کی عدم دستیابی خواتین میں خون کی کمی کا باعث بنتی ہیں جس سے حاملہ خواتین آنیمیا کا شکار بن جاتی ہیں جس سے نہ صرف ان کی صحت دا پر لگتی ہے بلکہ پیدا ہونے والے بچوں کوجسمانی و ذہنی کمزوری اور معذوری سے بھی دوچار ہونا پڑتا ہے۔ضرورت اس امر کی ہے کہ سماجی سطح پر اس حوالے سے بھرپور آگاہی فراہم کی جائے تاکہ مذکورہ مسائل کی روک تھام ممکن ہو سکے۔

ان خیالات کا اظہار پرنسپل امیر الدین میڈیکل کالج و پی جی ایم آئی نے حاملہ خواتین میں خون /آئرن کی کمی کے موضوع پر منعقدہ سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ پروفیسر ڈاکٹر عظمی حسین، پروفیسر عالیہ بشیر، پروفیسر عائشہ ملک و دیگر گائنا کالوجسٹس نے لیکچر ز دیتے ہوئے کہا کہ حاملہ خواتین کے لئے صحت مند غذا،وٹامنز اور آئرن کی کمی دور کرنے کے لئے فولک ایسڈ ٹیبلٹ دینا ضروری ہے۔اس موقع پر ڈاکٹر شبنم، ڈاکٹر سائرہ، ڈاکٹر ثمینہ، ڈاکٹر فرخ،ڈاکٹر مہوش، ڈاکٹر رضوانہ سمیت گائنالوجسٹس کی بڑی تعداد موجود تھی۔

پروفیسر الفرید ظفرنے کہا کہ حاملہ اور ودودھ پلانے والی خواتین کی خوراک پر توجہ دینا انتہائی ضروری ہے اور متعلقہ خاندانوں کی بنیادی ذمہ داری ہے کہ دنیا میں آنے والا بچہ پوری طرح صحت مند ہو لیکن یہ تب ہی ممکن ہو سکے گا جب معاشرے میں بیٹی کو بچے کے برابر اہمیت دی جائے گی۔

انہوں نے مزید کہا کہ دیہی آبادی میں افرادی قوت کی ضرورت اور محنت کش خاندانوں میں بیٹوں کو ترجیح دینا فطری ضرورت ہے تاکہ وہ کام کاج اورکاشتکاری میں اپنے بزرگوں کا ہاتھ بٹا سکیں اور ان کا سہارا بن سکیں تاہم بغور جائزہ لیا جائے تو خواتین کی بڑی تعداد کھیتوں،کھلیانوں، فیکٹریوں اور دفاتر میں جاں فشانی سے کام کرتے ہوئے اپنے خاندانوں کی معاشی کفالت میں برابر کی حصہ دار ہیں لہذا انہیں اپنی زندگی کے معاملات میں برابر کی اہمیت ملنی چاہیے۔

صحافیوں سے گفتگو میں پروفیسر الفرید ظفر کا کہنا تھا کہ عام طور پر والدین نورینہ اولاد یعنی بیٹوں کی پرورش پر زیادہ توجہ دیتے ہیں اور صرف ان کی تعلیم و تربیہت اور خوراک پر بھی خصوصی نگاہ رکھتے ہیں۔اس طرح ہمارے معاشرے میں لڑکیوں اور خواتین کو ان کا جائزمقام نہیں ملتا۔انہوں نے کہا کہ تعلیم کے فقدان اور غذائی قلت کی وجہ سے بچیاں صحیح طور پر پروان نہیں چڑھ پاتیں اور وہ جسمانی لحاظ سے کمزور رہتی ہیں ان حالات میں کم عمری میں شادی ان کے لئے آخری ضرب ثابت ہوتی ہے جس سے خواتین با آسانی آنیمیا کا شکار ہوتی ہیں جو دوران حمل ان کے لئے بہت سی پیچیدگیوں کا باعث ہوتی ہیں۔

انہوں نے کہا کہ وسائل کی کمی کی وجہ سے اکثر خواتین کے چہرے بھی مرجھائے ہوتے ہیں اور زچگی کے بعد اپنے نو مولود کو چھاتی کا دودھ پلانے کے قابل بھی نہیں رہتیں لہذا ہمیں زچہ و بچہ کی صحت پر خصوصی خیال رکھنا ہوگا اور اس اہم معاملے کے حوالے سے لوگوں میں زیادہ سے زیادہ شعور اجاگر کرنے کی ضرورت ہے