عجب زمانہ آ پڑا ہے پی ٹی آئی پر!فرسٹریشن ، مایوسی اور بددِلی میں یہ پارٹی اور اِس کے زندانی بانی صاحب آئے روز عجب پینترے بدلتے دکھائی دے رہے ہیں۔
مخالفین کا دعوی اور الزام ہے کہ پی ٹی آئی کے اِن پینتروں میں صرف ایک نقطہ ہی مرکزی کردار ادا کررہا ہے : خان صاحب کے لیے باعزت این آر او!مطلب براری اور حصولِ مقصد کے لیے پی ٹی آئی نے ایک چھ رکنی اتحاد بھی قائم کرلیا ہے ۔اس نے قومی اسمبلی میں وزیر دفاع، خواجہ محمد آصف، کی تقریر پر جو فِیل مچایا ہے ، اِسے بھی اِسی تناظر میں دیکھا جارہا ہے۔ ہر جگہ اور ہر فورم پر صبر کا دامن پی ٹی آئی کے ہاتھ سے چھوٹتا نظر آرہا ہے۔
پی ٹی آئی کے رکنِ قومی اسمبلی اور اپوزیشن لیڈر، عمر ایوب خان ، کی قومی اسمبلی میں ڈیڑھ گھنٹہ بے روک الزاماتی تقریر کے جواب میں خواجہ آصف نے اپنے مخصوص لہجے میں جواب دینے کی ابھی کوشش ہی کی تھی کہ پی ٹی آئی نے قومی اسمبلی کا ایوان ہی نہیں، آسمان بھی سر پر اٹھا لیا۔ اسپیکر کی باربار کی گزارشات بھی نہ مانیں۔
پی ٹی آئی کا یہ رویہ قابلِ فہم ہے ۔ وہ اپنے زندانی لیڈر کے تتبع اور شہ پر حکومت پر متنوع دباو بڑھا کر اپنا مطلب نکالنا چاہتے ہیں ۔ وہ اپنے پر شور رویئے سے اداروں پر بھی دباؤ بڑھانا چاہتے ہیں ۔ بات مگر بن نہیں رہی۔ بددِلی میں ان کی متنوع احتجاجی آوازیں مدہم پڑنے کے بجائے مزید بلند ہورہی ہیں ۔ وہ سمجھتے ہیں کہ مسلسل شور مچائے رکھنے ہی میں انھیں متعینہ مقاصد ملیں گے۔ اِس اسٹرٹیجی کا ابتدائی اور حتمی تعین بانی پی ٹی آئی نے طے کررکھا ہے۔
اسٹرٹیجی کی تکمیل کے لیے بانی صاحب کی زیر قیادت آئی ایم ایف کی انتظامیہ کو خط بھی لکھے گئے۔ مقصد یہ تھا کہ حکومتِ پاکستان کو زِچ بھی کیا جا سکے اور اِس کی معاشی بربادی کا سامان بھی کیا جائے۔ ساتھ ہی اداروں کو مشتعل بھی کیا جا سکے ۔ بات پھر بھی نہ بنی ۔ بانی صاحب پھر بھی اپنی کوششوں سے دستکش نہ ہوئے۔ انھوں نے جیل میں بیٹھ کر برطانوی ہفت روزہ جریدے اکانومسٹ میں ایک اشتعال انگیز آرٹیکل لکھ مارا ۔ مقصد پھر بھی نہ حاصل ہو سکا تو اب چند ماہ بعد(2مئی کو ) ایک بار پھر بانی صاحب نے پھر برطانوی اخبار دی ٹیلیگراف میں مضمون لکھ دیا۔
اِس میں نہایت جرات و جسارت سے جناب نے ، براہِ راست، ہمارے آرمی چیف کو نامناسب اور قابلِ گرفت اسلوب میں مخاطب کرتے ہوئے الزام عائد کرنے کی اپنی سی ممکنہ مگر ناقابلِ رشک کوشش تو کی مگر بات پھر بھی نہ بن سکی ۔ سب حیران و ششدر ہیں کہ جیل میں بیٹھا ایک شخص کیسے اور کیونکر عالمی جرائد میں مضامین لکھ سکتا ہے ؟ اس سوال کا جواب سب مقتدرین جانتے ہیں مگر کوئی بھی عوام کو بتانے کی ہمت نہیں کرپارہا۔
اب موصوف کہہ رہے ہیں: بہت جلد ملکی حالات پر آرمی چیف کو خط لکھوں گا۔ آرمی چیف کو خط اپنے لیے نہیں،ملک کے لیے لکھوں گا۔ اِس ضمن میں وکلا کو ہدایات دے دی ہیں۔ وہ خط تیار کرکے مجھے بتائیں گے۔ ایسے میں ہمیں نوشہ مرزا عرف مرزا اسد اللہ خان غالب بے طرح یاد آ گئے ہیں :
خط لکھیں گے گرچہ مطلب کچھ نہ ہو
ہم تو عاشق ہیں تمہارے نام کے!
ایک خط اسلام آباد ہائیکورٹ کے چھ جج صاحبان نے بھی عدالتِ عظمی کے نام لکھ رکھا ہے ۔ اور ایک خط چند دن پہلے اسلام آباد ہائیکورٹ کے جج، جسٹس عبدالستار صاحب، نے بھی اپنے چیف جسٹس صاحب کے نام لکھا ہے ۔ سینیٹر فیصل واوڈا کے لکھے گئے خط کا بھی شہرہ ہے۔اِن خطوط کی ملک بھر میں گونج سنائی دے رہی ہے ۔ یہ مکاتیب بے معنی نہیں ہیں۔ سب مکاتیب اور مکتوب نگار اہمیت رکھتے ہیں ۔ وفاقی وزیر اطلاعات عطا اللہ تارڑ کا مگر کہنا ہے کہ خطوط لکھنے کی روایت اب ختم ہونی چاہیے ۔
ممکن ہے ایسا کبھی ہو بھی جائے مگر جیل میں بیٹھا شخص شاید خط لکھنے سے باز نہ آئے۔اِن صاحب کو کسی نام کا فوبیا ہو گیا ہے ۔ جیل اور جیل کے اندر لگنے والی عدالت میں ان کے بیانات اِسی ایک نام کے گرد گردش کاٹ رہے ہیں۔ سنجیدہ اور فہمیدہ لوگ خط لکھنے کی خواہش رکھنے والے صاحب کو مفت مشورہ دے رہے ہیں کہ اگر وہ آرمی چیف کو خط لکھنا چاہ ہی رہے ہیں تو سوچ سمجھ کر خط لکھیں۔اِس مکتوب نگاری کے کئی ناموافق اور غیر متوقع سیاسی اور قانونی نتائج برآمد ہو سکتے ہیں۔
سیاستدان عمومی طور پر سپہ سالار کو خط نہیں لکھتے ۔ متحدہ ہندوستان کی افراتفری سے نجات حاصل کرنے کے لیے متحدہ ہندوستان کے ایک نامور عالمِ دین نے بھی نجیب الدولہ اور نادر شاہ درانی کو بھی کئی خطوط لکھے تھے۔ پھر اِن خطوط کے نتیجے میں نادر شاہ درانی نے متحدہ ہندوستان کے مسلمانوں اور غیر مسلموں کا جو حشر کیا تھا، اس داستان سے ابھی تک خون ٹپکتا ہے ۔
ایک اور خط ایئر مارشل (ر) اصغر خان نے بھی لکھا تھا۔ نجات کے لیے ۔ آرمی چیف جنرل ضیا الحق کے نام ۔ کسی سیاستدان کی جانب سے پاکستان کے کسی آرمی چیف کو خط لکھنے کا یہ اولین واقعہ تھا۔ زیڈ اے بھٹو وزیر اعظم تھے اور اپوزیشن پارٹیوں سے ان کا محاربہ چل رہا تھا ۔ ایسے میں اپوزیشن لیڈر اصغر خان نے 25اپریل 1977کو آرمی چیف جنرل ضیا الحق، مسلح افواج کے سربراہان اور دفاعی سروسز کے نام خط لکھا۔ یہی کہ حکومت اور وزیراعظم سے تعاون نہ کیا جائے ۔
اگر ہم اصغر خان کی کتاب We Have Learnt Nothing From History کا مطالعہ کریں تو اِس تاریخی خط، اِس کے مندرجات اور اِس کے بعد ازاں مہلک نقصانات کھل کر ہمارے سامنے آ جاتے ہیں۔ اس زمانے کے معروف اپوزیشن لیڈر، پروفیسر غفور احمد، نے اپنی کتاب پھر مارشل لا آ گیا میں بھی اِس خط پر اپنے تاثرات قلمبند کیے ہیں ۔سابق آئی جی پنجاب ، راؤ رشید، کی خود نوشت جو میں نے دیکھا میں بھی اِس اصغر خانی خط پر لے دے کی گئی ہے۔ ہمارے تینوں مذکورہ اور محترم سیاستدانوں اور مصنفین نے، جو اب اللہ کے پاس جا چکے ہیں ، مشترکہ طور پر اظہارِ تاسف کیا ہے کہ آرمی چیف کو خط نہیں لکھنا چاہیے تھا۔
اِس خط کی کئی Interpretationsکی گئیں۔ ایک معنی یہ اخذ کیا گیا کہ سیاستدان اصغر خان نے فوج کو بھٹو صاحب کی منتخب حکومت کا تختہ الٹ کر حکومت پر قبضہ کرنے کی شہ اور دعوت دی تھی ۔ کسی نے یہ ترجمہ کیا کہ خط نگار نے فوج میں بغاوت پیدا کرنے کی کوشش کی ہے ؛ چنانچہ ایک انگریزی مصنف نے اپنی کتاب میں یہ بھی لکھا ہے کہ بھٹو صاحب کا تختہ الٹنے کے بعد جب جنرل ضیا الحق حکومت اور ملک پر قابض ہو گئے تو انھوں نے اصغر خان کو دھمکی دی تھی کہ تمہارے خلاف اب بھی بغاوت کا مقدمہ قائم ہو سکتا ہے کہ تم نے خط لکھ کر فوج میں بغاوت پیدا کرنے کی کوشش کی تھی ۔
یہ ساری کتھا لکھنے اور سنانے کا مطلب اور مقصد یہ ہے کہ بانی پی ٹی آئی بصد شوق آرمی چیف کو خط لکھیں مگر اِس خط سے پیدا ہونے والے نتائج پربھی نظر رکھیں ۔ پی ٹی آئی کے عشاق بھی اپنے صاحب کو سمجھائیں ۔
بشکریہ روزنامہ ایکسپریس