وہ شجر بوئے نہیں، جن کے ثمر مانگتے ہیں : تحریر ڈاکٹر صغریٰ صدف


حقیقت اور خواب کے درمیان رُک جانے والے الٰہ دین کے چراغ کے ساتھ ساتھ ایسے مسیحا کے منتظر رہتے ہیں جو اْن کی تمام خواہشات و حاجات کو ایک لمحے میں ،ایک طلسمی پھونک سے ممکن بنادے ایسا ایک دن میں نہیں ہوا ،ایک طویل عرصے سے جفاکش لوگوں سے اوزار اور محنت کا جذبہ چھین کر انھیں یوں جامد کر دیا گیا ہےکہ وہ خواہش تو کرتے رہیں مگر عمل سے دور رہیں ۔بیچارگی کا کردار نبھاتے لوگوں کے ارد گرد مسائل کے انبار لگتے جارہے ہیں ، سیاسی رہنماؤں کو اپنی الجھنوں سے نجات نہیں ، باقی وعدہ فردا ، آخرت ، جنت و دوزخ کے انعامات اور سزاؤں کے اذکار تک محدود وظیفے اور چلےکاٹتے حجرے میں من وسلوی کے منتظر یہ نہیں بتاتے کہ رب نے یہ کائنات علت و معلول کے دھاگوں میں پروئی ہوئی ہے ، محنت کا ہل چلانا لازم ، تبھی فصل کی شکل دیکھنا نصیب ہو سکتی ہے اور کرم کا بادل برس جائے تو وارے نیارے ہوجائیں ، نتیجہ توقعات سے کہیں بڑھ کر حاصل ہو ۔جو خواب دیکھے جاسکتے ہیں اْن کی تدبیر ممکن بھی بنائی جاسکتی ہے ۔ قدرت نے یہ چیلنج بھی انسان کی سرشت میں رکھا ہے تبھی تو وہ ماورائی دکھائی دینے والی سرزمینوں ، فضاؤں ، سمندروں اور سیاروں پر قدم رکھ چکا ہے مگر فطرت کی تسخیر سے زندگی میں خیر اور خوشی لانے والی سائنس اور منطقی فکر کی بجائے رٹے والے طوطے پیدا کرنے کا رحجان ہے اخلاق سکھانے والوں کے دماغ پر عورتوں کی بیماریوں ، ذمہ داریوں اور میک اپ کے اثرات بتانے کا جنون سوار ہے ۔

جب سماج میں ہر طرف منافقت کا دور دورہ ہو تو سچا ادیب نہ صرف لوگوں کو راست عمل پر اْکساتا ہے بلکہ لوگوں کی اخلاقی و جمالی تربیت بھی کرتا ہے ۔ ادیب کا کردارایک ایسے مصلح کا ہے جو دانش کو وسیلہ بناتا ہے ، وہ تبلیغ نہیں کرتا بلکہ اپنے کرداروں کے ذریعے خیر اور شر میں فرق سمجھاتا اور درست راستےکے فیصلے میں مدد کرتا ہے ۔ ایسے ادیبوں کو اعزاز دے کر سماج میں ادب پروری کو فروغ دینے والے خوبصورت شاعر اور افسانہ نگار فیصل عجمی کا کردار یقیناً قابل ستائش ہے جو خود تو دیارِ غیر میں مقیم ہے مگر اْس کی فکر پاکستان کی ادبی و ثقافتی ترقی کی طلبگارہے ،سہ ماہی آثار سے شروع ہونے والا سفر آثار لائف ٹائم اچیومنٹ ایوارڈ تک پہنچ چکا ہے ۔ عطا ء اللہ الحق قاسمی لیونگ لیجنڈ کو یہ ایوارڈ دینے کی تقریب ایک فکری سوال میں ڈھل کر اختتام پذیر ہوئی ، احمد جاوید ، سید غلام شاہ بخاری ، سہیل وڑائچ ، جاوید چوہدری ، وجاہت مسعود ، قاسم علی شاہ اور ڈاکٹر نجیب جمال نے عطا صاحب کی زندگی کا رجائی نقطہ نظر، زمین سے محبت ، ادب و ادیب پروری اور نعمتوں کے شکرانے کے حوالے سے جن خیالات کا اظہار کیا وہ نئی نسل کے لئے ایک سنہرے سبق کی حیثیت رکھتے ہیں ۔ سب نے عطاالحق قاسمی کے دوستانہ انداز اور عمل سے ذاتی طور پر متاثر ہونے اور سیکھنے کا اعتراف کیا ،بلاشبہ صرف ظاہری عقائد پر جمے رہنے کی بجائے مثبت رویوں کو فروغ دینا بڑی نیکی ہے ۔دوسروں کو اہمیت دینا ، ان کی بات غور سے سننا ، کسی نئی معلومات کے بارے میں طالب علموں جیسا اشتیاق ظاہر کرنا، شکوے شکایات کی بجائے شگفتگی اور مزاح سے محفل کو زندہ اور زندگی کو متحرک بنائے رکھنا خیر کا عمل ہے ، یہ صوفیوں کا وطیرہ ہے جو خشک تقریروں کی بجائے عمل سے مثبت سوچ کی آبیاری کرتے ہیں ، عطاالحق قاسمی کے متعدد اشعار ضرب المثل کی حیثیت اختیار کر چکے ہیں جو اپنی جگہ فکر، عمل اور اخلاق کا سبق ہیں ، مثلا یہی شعر دیکھئے ہمارے اجتماعی رویوں کی کتنی عمدہ عکاسی کرتے ہوئے ہمیں سوچنے اور بدلنے پر مجبور کرتے ہیں

کام کو چھوڑ کے ہم نام کے پیچھے ہیں عطاء

وہ شجر بوئے نہیں ، جن کے ثمر مانگتے ہیں

خلقِ خدا کی گواہی ہی اصل کمائی ہوتی ہے اور عطا الحق قاسمی اس حوالے سے امیر ترین اور سرخرو فرد ہیں ، باقی لکھنے والوں کو بھی سوچنا چاہیے کہ ان کی شخصیت کے چراغوں نے کتنے اندھیروں کو اْجالا ہے ؟

آخر میں فیصل عجمی کی خوبصورت غزل کے اشعار دیکھئے

دیکھنا ہے تجھے اپنا تو نہیں لینا ہے

مَشک بھر لینی ہے، دریا تو نہیں لینا ہے

سینہ کوبی ہے، یہ سانسوں کا تماشا تو نہیں

اس کے اندر مجھے وقفہ تو نہیں لینا ہے

لوگ کہتے ہیں، پرانا ہوں نیا ہو کر بھی

اس کا مطلب مجھے الٹا تو نہیں لینا ہے

دل سے کہتا ہوں کہ اظہار سے انکار ہے کیوں

اس محبت نے تجھے کھا تو نہیں لینا ہے

عشق مسجد ہے تو تعمیر میں تاخیر نہ کر

اس کی خاطر تجھے چندہ تو نہیں لینا ہے

واپس آیا ہوں تو سینے سے لگا لوں سب کو

مجھ کو اس شہر سے بدلہ تو نہیں لینا ہے

بشکریہ روزنامہ جنگ