اچکزئی فارمولا : تحریر حامد میر


پاکستان کے پہلے فوجی ڈکٹیٹر جنرل ایوب خان کے پوتے عمر ایوب خان نے گھر پر تحریک تحفظ آئین کی قیادت اور صحافیوں کے درمیان ایک ملاقات کا اہتمام کیا تھا۔ بہت عرصے کے بعد اس گھر میں جانا ہوا تھا۔ کافی سال پہلے یہاں عمر ایوب خان کے والدگوہر ایوب خان سےملاقات ہوئی تھی۔ یہ گھر دراصل جنرل ایوب خان نےبنایا تھا لیکن بعد میں گوہر ایوب خان نے اس گھر کا ایک حصہ صدر الدین ہاشوانی کو فروخت کردیا اور باقی حصہ آج کل عمر ایوب خان کے زیر استعمال ہے۔ عمر ایوب خان پہلی دفعہ 2002ء میں مسلم لیگ (ق) کے ٹکٹ پر قومی اسمبلی کے رکن بنائے گئے اور انہوں نے شوکت عزیز کی کابینہ میں وزیر مملکت برائے خزانہ کی ذمہ داری ادا کی۔ 2013ء کا الیکشن انہوں نے مسلم لیگ (ن) کے ٹکٹ پر لڑا مگر ہار گئے لیکن بعد میں ضمنی الیکشن جیت گئے۔ 2018ء میں وہ پاکستان تحریک انصاف میں شامل ہوگئے اور پونے دو لاکھ ووٹ لے کر کامیاب ہوئے۔ عمران خان نے انہیں اپنی کابینہ میں توانائی کی وزارت دی۔ 2022ء میں عمران خان کی حکومت ختم ہوئی تو خیال تھا کہ عمر ایوب تحریک انصاف چھوڑ دیں گے لیکن خلاف توقع وہ عمران خان کے ساتھ ڈٹ کر کھڑے ہوگئے۔ ان پر درجنوں بے بنیاد مقدمات بنائے گئے۔ ان کے والد بیمار تھے، وہ والد کی خدمت نہ کر سکے اور ان کے جنازے میں بڑی مشکل سے شریک ہوئے۔ 2024ء میں وہ تیسری دفعہ ایم این اے بن گئے اور اب قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر کےساتھ ساتھ پارٹی کےسیکرٹری جنرل کی ذمہ داری ادا کر رہے ہیں۔ ان کے گھر پر محمود خان اچکزئی، علامہ راجہ ناصر عباس، ساجد ترین،اسد قیصر اور تحریک انصاف کے اہم رہنماؤں سمیت صحافیوں اور ٹی وی اینکرز کی بڑی تعداد کے درمیان یہ نکتہ بھی زیر بحث آیا کہ 1973ء کا آئین تو کہیں نظر نہیں آتا تو پھر اس کاتحفظ کیسے ہوگا؟ جو آئین اپنا تحفظ نہیں کرسکتا اسے ہم تحفظ کیسے فراہم کریں؟ محمود خان اچکزئی نے جواب دیا کہ یہ آئین کئی مرتبہ ٹوٹا اور غائب ہوا لیکن یہ ہر دفعہ واپس آ جاتا ہے، نیا آئین بنانامشکل ہے، اسی آئین کوبازیاب کرانا ہوگا، اگر آئین واپس نہ آیا تو پھرسوچیں گے کہ کیا کرنا ہے؟ اچکزئی صاحب کی گفتگو کا اہم ترین نکتہ یہ تھا کہ پاکستان کے تمام مسائل کا حل آئین کی عمل داری میں موجود ہے اور اس مقصد کیلئےہمیں آصف علی زرداری اور نوازشریف سمیت ہرسیاستدان سے بات کرنی چاہیے۔ ان کی یہ بات سن کر تحریک انصاف کے کچھ نوجوان رہنماؤں نے اپنی کرسیوں پرپہلو بدلنے شروع کردیئے۔ اچکزئی صاحب فرما رہے تھے کہ غلطیاں سب نے کی ہیں لہٰذا سب کواپنی غلطیوں کااعتراف کرکے آگے بڑھنا ہے اور ماضی کی تلخیوں کا اسیر نہیں بننا چاہیے۔یہاں انہوں نے ایک مثال دیتے ہوئے کہا کہ حضرت خالدبن ولیدؓ جنگ اُحد میں کفار کے ساتھ تھے اور ان کے ہاتھوں مسلمانوں نےبہت نقصان اٹھایا لیکن جب انہوں نے مدینہ جا کر نبی کریم حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ پر اسلام قبول کیا تو ہمارے پیارے نبی ﷺ نے ان سے وابستہ تلخ باتوں کو فراموش کردیا اور کچھ عرصہ کے بعد وہ اسلامی لشکر کے سپہ سالار بنا دیئےگئے۔ یہ مثال سن کر تحریک انصاف کےقائدین نے اثبات میں سر ہلانا شروع کر دیئے۔ ایسا محسوس ہو رہا تھا کہ اچکزئی صاحب ہمیں مخاطب کرکے دراصل تحریک انصاف کی قیادت کو لیکچر دے رہے ہیں اور لیکچر اپنا بھرپور اثر دکھا رہا تھا۔ اچکزئی صاحب نے بلوچستان کی سطح پر بلوچ، پختون اور ہزارہ جماعتوں کا اتحاد بنایا ہے اور وہ اب تحریک تحفظ آئین کے پلیٹ فارم پر پاکستان کی تمام اہم سیاسی و دینی جماعتوں کو اکٹھا کرنا چاہتے ہیں۔پہلے مرحلے پر وہ مولانا فضل الرحمٰن کو اپنے ساتھ ملانا چاہتے ہیں۔ دوسرے مرحلے پر اچکزئی صاحب پیپلز پارٹی، مسلم لیگ ن، ایم کیو ایم اور اے این پی سمیت دیگر جماعتوں کو آئین کے تحفظ کیلئے ہاتھ ملانے کی دعوت دیں گے۔ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) بظاہرتو آئین کےتحفظ کیلئے کسی بھی سیاسی قوت کے ساتھ بات چیت سے انکار نہیں کریں گی لیکن اب صرف زبانی دعوؤں سے کام نہیں چلے گا۔ یہ دونوں جماعتیں اس وقت اقتدار میں ہیں اور اقتدار کی مجبوریوں کے باعث بادل نخواستہ عدلیہ کے ساتھ لڑائی میں آگے بڑھ رہی ہیں۔ ماضی میں عدلیہ کوسیاستدانوں کے خلاف استعمال کیا گیا اور آج کل عدلیہ کو کچھ سیاستدانوں کےبیانات میں کسی دشمن کا چہرہ نظر آ رہا ہے۔ کچھ جج صاحبان آئین کی بالادستی کیلئے کھڑے ہو چکے ہیں اور جو سیاسی جماعتیں ان جج صاحبان پر حملہ آور ہوںگی انہیںآئین کا دشمن قرار دیا جائے گا۔ جس دن مولانا فضل الرحمٰن تحریک تحفظ آئین کے ساتھ آ ملے اس دن پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) مشکل میںپھنس جائیں گی۔ یہی وہ مرحلہ ہوگا جب میڈیا کو حکم دیا جائے گا کہ مولانا فضل الرحمٰن کے خلاف تحریک انصاف نے ماضی میں جو الزامات لگائے انہیں مصالحہ لگا کر بار بار اجاگر کیا جائے۔ میڈیا کیلئے مشکل یہ ہوگی کہ عمران خان کی تصویر دکھانا بہت مشکل ہے۔ اگر خان پر تنقیدکیلئے اس کی تصویر دکھا دی تو لینے کے دینےپڑ جائیں گے۔ ہاں اگر مجھ جیسے کسی گستاخ نے وزیراعظم شہباز شریف اور صدر آصف علی زرداری کے ایک دوسرے کےخلاف الزامات کو دکھانا شروع کردیا توبھی مشکل ہو سکتی ہے۔ میں ذاتی طور پر محمود اچکزئی کی اس رائے سے متفق ہوں کہ ہمیں اپنے چھوٹے چھوٹے سیاسی مفادات اور اناپرستی کی زنجیروں کوتوڑ کر آگے بڑھنا چاہیے۔ اگر شہباز شریف اور آصف علی زرداری نے ایک دوسرے کے خلاف اپنے بیانات کو بھلا کر ہاتھ ملا لیا تو عمران خان اور مولانا فضل الرحمٰن ایک دوسرے سے ہاتھ کیوں نہیں ملا سکتے؟

وقت کبھی ایک سا نہیںرہتا۔ ایک زمانہ تھا کہ پیپلز پارٹی جنرل ضیاءالحق کے نام کوایک گالی سمجھتی تھی۔ آج اسی پیپلز پارٹی کی قیادت شہباز شریف کی قیادت میں جنرل ضیاء کے برخوردار اعجاز الحق کے ساتھ بیٹھ کر تحریک انصاف کی مذمت کرتی ہے۔ جس دن مولانا فضل الرحمٰن نے محمود خان اچکزئی کے ذریعے تحریک انصاف کے ساتھ آئین کے تحفظ کیلئے تعاون کا اعلان کردیا اس دن کے بعد تحریک انصاف کومولانا اور اچکزئی سے توڑنے کی کوشش شروع ہو جائے گی۔ ہم نے پاکستان میں کیا کیا نہیں دیکھا؟ جنرل ایوب خان کے گھر پر اچکزئی صاحب کی باتیں سنتے ہوئے میں سوچ رہا تھا کہ اگر پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن کی اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ مفاہمت ہوسکتی ہے تو تحریک انصاف کے ساتھ کیوں نہیں ہوسکتی؟ پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ یہاں لڑاؤ اور حکومت کرو کی پالیسی ہے۔ سیاستدانوں کو ایک دوسرے کے ساتھ اور عدلیہ کے ساتھ لڑائی بندکرنا ہوگی۔ سب جماعتوں اور اداروں کو آئین کی عمل داری کے نکتے پر متحد ہونا ہوگا۔ اس فارمولے میں کسی ایک جماعت یا فرد کی نہیں سب کی نجات ہے اور یہی فارمولا ہمیں ماضی کی زنجیروں سے آزاد کرے گا۔

بشکریہ روزنامہ جنگ