نیتن یاہو کی پریشانی۔۔۔تحریر : ڈاکٹر خالد القدومی

طوفان الاقصیٰ کے 213ویں دن (جسے طوفان بھی کہا جاتا ہے) غیر متوقع طور پر اسرائیل میں بظاہر ایک اہم اور سیاسی طوفان اٹھتا ہوا نظر آ رہا ہے، اور شاید کسی حد تک امریکہ میں بھی، جیسا کہ حماس نے مہینوں کی دوڑ دھوپ والے مذاکرات میں اتفاق کیا ہے۔ امریکی آشیر باد سے قطری اور مصری ثالث کی طرف سے پیش کی گئی تازہ ترین تجویز پر ترامیم اور کاغذات کا تبادلہ یقینی طور پر اسرائیلی فریق کے ساتھ مشاورت سے ہی پیش کیا گیا۔ حماس تحریک الفاظ پر نہیں رکی بلکہ ہدف پر جمی رہی، جس میں سنجیدہ اور مثبت مکالمے کے ضوابط اور قواعد شامل تھے، جس میں مستقل جنگ بندی کا معاملہ بطور جلی عنوان شامل تھا، مذاکرات میں دائمی امن اور غاصب صیہونی افواج کا انخلاء شامل تھا، اور مذاکرات کے دوسرے مراحل سے جڑی دیگر شرائط بھی شامل تھیں، نیز بے گھر افراد کی واپسی اور امداد کی ترسیل بھی۔ یاد رکھیے کہ یہ چار موضوعات ایسے مذاکرات میں داخل ہونے کی بنیاد ہیں جو سیاسی حل، قیدیوں کے تبادلے، اور اس مثبت اور امید افزا پیشرفت کو یقینی بناتے ہیں اور انھیں بحران میں گھری اسرائیلی قیادت اور *نیتن یاہو کی پریشانی* کہا جا سکتا ہے۔
فوری طور پر، اگلے دن کے اوائل میں رفح پر حملہ کرنے اور رفح کراسنگ کا کنٹرول حاصل کرنے کے احکامات جاری کیے گئے، یہ ایک ایسا اقدام ہے جس کا مطلب زمین پر مزید قتلِ عام، انسانی صورتِ حال کا بگاڑ اور سیاسی اور مذاکراتی سطح پر ایک اور پیچیدگی ہے۔

*نیتن یاہو کے اس مخمصے کی وضاحت کیسے کی جاسکتی ہے*
*اور اس کے حل کا تصور کیسے کیا جاسکتا ہے*

یہ مخمصہ ایک ایسا پیچیدہ مرکب ہے جس میں ذاتی اور غیر ذاتی دونوں عوامل شامل ہیں، اور اس کا خلاصہ درج ذیل عنوانات میں کیا جا سکتا ہے:

1- صہیونی معاشرے اور خطے کی سطح پر امن کے قیام کی پیچیدگیاں*:
آج اسرائیل کے ساتھ تصادم میں سلامتی کا تصور ایک ایسے تصور بن چکا ہے ہے جو دوسرے فریق کو مارے یا تباہ کیے بغیر سلامتی حاصل نہیں کرتا۔ نیز متکبر آمر نیتن یاہو جو محض اپنی بقا چاہتا ہے، اس کی ضد کی وجہ سے اسرائیلی معاشرے کی بنیاد اب صرف فلسطینی عوام کی ہڈیوں پر کھڑی رہ سکتی ہے۔ اور اسرائیلی عوام کے ایک گروہ نے چند روز قبل اس بات کا اظہار بھی کیا تھا، کیونکہ ان میں سے اکثر لوگ فلسطینیوں کے لیے انسانی ہمدردی کے نتائج سے قطعِ نظر، رفح پر حملہ کرنے کے حق میں تھے۔ دوسرے لفظوں میں صہیونی معاشرے نے مزید فلسطینیوں کا خون بہا کر اپنے مطالبات کے حصول کی کوشش کی۔ یہ ذہنیت ایک طرف نیتن یاہو کے مخالفانہ جذبات اور تعصب کو بڑھاتی ہے اور دوسری طرف، اس تنازعے کو فوجی طور پر حل کرنے میں ان کی ناکامی کا اعتراف کرتی ہے، حتیٰ کہ امریکی امداد کے باوجود بھی جو ہزاروں ٹن بارود کی صورت میں گذَشتہ سات ماہ کے دوران اس نے غزہ پر برسایا، وہ نہ تو حماس کو ختم کر سکا نہ ہی فلسطینی مزاحمت کو۔ آج کتائب القسام اور اس کے ساتھ دیگر مزاحمتی گروہ مل کر اسرائیلی جارحیت کا مقابلہ کر رہے ہیں، کرم ابو سالم پر حملے کر کے اور مشرق میں رفح شہر کے ساتھ ساتھ، بئر السبع اور جنوب میں مقبوضہ فلسطینی علاقوں کی طرف راکٹ اور گولے داغ کر۔ لہٰذا، امن و سلامتی کے تصور کی انتہائی پرورش کے باوجود، نیتن یاہو کی پریشانی میں اضافہ ہوتا ہے، کیونکہ وہ ابھی تک جنگ کے نتائج حاصل کرنے میں ناکام ہے۔

2- *امریکہ کی جانب سے سیاسی غلط فہمی، کچھ اسرائیلی پارٹیاں، اور خطے کی کچھ پارٹیاں:* امریکی فیصلہ سازی میں بعض بااثر حلقے اب بھی سمجھتے ہیں کہ جنگ کے اگلے دن حماس اقتدار میں نہیں رہے گی اور یہ دوسرے فلسطینی دھڑوں کی طرح سیاسی میدان میں ایک کمزور دھڑا ثابت ہوگا اور جو لوگ اس تباہ کن اور غلط اندازے میں شریک ہیں، انھوں نے رفح کے راستے غزہ میں داخل ہونے، رام اللہ کے کچھ ذرائع اور سیکیورٹی افسران کے ذریعے مداخکت، پانی کی نئی نام نہاد ترسیل کے ذریعے، اور انسانی ہمدردی کی بنیاد پر امدادی ٹرکوں کے ذریعے ہتھیاروں کے ساتھ کنٹرول مسلط کرنے کی ناکام کوشش کی۔ مزاحمت نے ان کا مقابلہ کیا اور ان کے منصوبوں کو ناکام بنا دیا۔ تاہم، بدقسمتی سے امریکی موقف اب بھی حماس کو ختم کرنے پر ہے۔ بظاہر جسے امریکہ اسرائیل اختلاف کہا جا رہا ہے، اس کے باوجود اب بھی غزہ میں جو ظلم ہو رہا ہے، اس حوالے سے امریکی کارکردگی سرِفہرست ہے۔ اسلحے کی فراہمی کو معطل کرنا صرف سول نافرمانی کی صورتِ حال کو ختم کرنے کے لیے ہے جو امریکی جامعات میں اسرائیل کے خلاف اور اس کی حمایت کرنے والی امریکی پالیسی کے خلاف ہے۔ قومی سلامتی کونسل، وائٹ ہاؤس اور امریکی محکمۂ خارجہ، کہ وہ سب اسرائیل کی سلامتی کے لیے پرعزم ہیں اور رفح میں آپریشن کی بات کرتے ہوئے بھی یہ سوال اٹھاتے ہیں کہ یہ ایک وسیع آپریشن نہیں ہونا چاہیے۔ بارہ لاکھ پناہ گزینوں میں سے چند ہزار شہریوں کو پناہ گاہوں سے ہٹانے سے نیتن یاہو کو رفح پر حملہ کرنے اور انسانی نسل کشی کے عمل کو جاری رکھنے کے لیے امریکہ ہری جھنڈی ہلا سکتا ہے۔

3- *امریکہ اسرائیل تعلقات اور جنگ کے بعد امریکی منصوبہ*: اسرائیل کی حمایت اور اسے محفوظ بنانے کے لیے امریکہ کے تاریخی اور قطعی عزائم اور بائیڈن انتظامیہ اور نیتن یاہو کے درمیان اختلافات میں فرق کرنا ضروری ہے۔ بہرحال یہ دونوں انسانی تباہی پر متفق ہیں اور خطے میں اسلامی مزاحمتی منصوبے کے خلاف اسرائیل کی مسلسل حمایت اور اس کے بارے میں امریکی مَوقِف میں کوئی فرق نہیں ہے۔ اسرائیل کے لیے لامحدود حمایت کا مسئلہ جب تک امریکی خارجہ پالیسی ’’ہم ایک دوسرے کے لیے ہیں‘‘ کی بنیاد پر استوار ہے، اس وقت تک خطے میں امن یا سلامتی کے کسی اقدام کا تصور بھی ممکن نہیں اور یہ توقع نہیں کی جا سکتی کہ دنیا کی نئی تشکیل کے مراحل میں، امریکہ امریکی خارجہ پالیسی کے قوانین کو تبدیل کرے گا۔ جہاں تک جنگ کے بعد کے معاملات سے متعلق ان کے نقطۂ نظر کا تعلق ہے تو اسے نقشوں اور جغرافیائی طور پر واضح کیا جا سکتا ہے، تاکہ غزہ کی پٹی کو شمالی علاقے اور ایک جنوبی علاقے میں تقسیم کیا جائے، جسے “نیتزارم محور” کے نام سے جانا جاتا ہے۔ یہ ایک شارع ہے جو سمندر سے مغرب کی طرف اور مجوزہ امریکی نظامِ ترسیلِ آب سے شروع ہو کر مشرق کی طرف کارنی کراسنگ تک جائے گا اور اس کے مطابق شمالی غزہ کی پٹی لوگوں سے خالی ایک بفر زون بن جائے گی اور غزہ کے لوگ اپنے ہی علاقے میں بے گھر ہو جائیں گے، انھیں جنوب تک محدود کر دیا جائے گا۔ عین اس وقت رفح کراسنگ سمیت تمام زمینی گزرگاہوں کو بند کر دیا گیا ہے، ستم ظریفی یہ ہے کہ گذَشتہ چار دنوں سے رفح کراسنگ پر اسرائیلی افواج اسی مجرمانہ امریکی تناظر کی خاطر موجود ہیں۔ اس کے نتائج ایک طرف مصر کی قومی سلامتی پر پڑتے ہیں، ساتھ ہی مصر اور فلسطین کے درمیان کسی بھی سرحد پر مصر کا قبضہ ختم ہو جاتا ہے، اس طرح آبی گزرگاہ غزہ کی واحد زہر آلود گزرگاہ بن جائے گی، جس میں قابض افواج اور کرائے کی فوجیں جیسے کہ بلیک واٹر اور متعدد ممالک کی افواج داخل ہوں گی۔ اہلِ غزہ ان کے ساتھ کام کریں گے اس لیے کہ یہ افواج حملہ آور طاقت ہونے کے ساتھ ساتھ انسانی امداد بھی فراہم کریں گی۔ مزید برآں، غزہ کی شمالی، مشرقی اور جنوبی سرحدوں کے ساتھ ایک علاقے کا الحاق جو غزہ کی پٹی میں ایک کلومیٹر اندر تک ہوگا، غزہ صرف ایک محدود جغرافیائی علاقہ رہ جائے گا جس پر باڑ لگائی جا سکتی ہے تاکہ وہاں کے لوگوں کو گویا ایک نازی حراستی کیمپ میں مقید کیا جا سکے۔ یقیناً اس طرح کے منصوبے ہرگز کامیابی سے ہم کنار نہیں ہو سکتے۔ یہ قوت عراق یا افغانستان میں کامیاب نہیں ہوسکی اور یہ اور ان کی مدد کرنے والے بھاگنے پر مجبور ہوئے۔

4- *نیتن یاہو، آخری بادشاہ*: “نیتن یاہو کی پریشانی” کی وضاحت میں شاید سب سے اہم عنوان یہ ہے کہ ہر کوئی اس سے نفرت کرتا ہے، لیکن کوئی بھی اس سے مستغنی نہیں کیونکہ وہ اسرائیل کا آخری بادشاہ ہے اور اس نے خود اپنی انتخابی مہم کے دوران اپنی اس تشویش کا اظہار کیا تھا کہ اسرائیل، جسے تورات میں آٹھویں دہائی کی لعنت کے ساتھ ملعون کیا گیا ہے، اس کی عمر اسّی سال تک نہیں پہنچے گی۔ اسرائیل میں حکمران اتحاد میں سے کوئی بھی سیاسی طور پر نیتن یاہو سے اتفاق نہیں کرتا، لیکن وہ سب اسے اپنے سیاسی نجات دہندہ کے طور پر دیکھتے ہیں۔ وہ ایک ایسا بدعنوان شخص ہے جو بقا کے فن میں ماہر ہے اور قیادت میں اس خلا پر اس کا سہارا ہے جس سے اسرائیل دوچار ہے۔ عسکری اعتبار سے دیکھا جائے تو رفح آپریشن شروع ہو چکا ہے اور محدود مدت سے درمیانی مدت تک جاری رہے گا، جیسا کہ خان یونس میں ہوا، بتدریج اور امریکی اجازت کے ساتھ، دو حصوں میں امریکی مقاصد کی تکمیل کے لیے: پہلا حصہ اوپر بالتفصیل ذکر کیے گئے منصوبے پر عمل درآمد کرنا ہے۔ یہ بتدریج داخلہ تقریباً دو ماہ تک جاری رہے گا، ایک پابندی کو مسلط کرنے کی کوشش کرے گا جس کے تحت فوجی دستے جنوبی مشرقی سرحد سے تقریباً 3 مربع کلومیٹر کے علاقے میں تعینات رہیں گے کرم ابو سالم سے فلاڈیلفیا محور تک، اس طرح شمالی اور جنوبی غزہ کو الگ کرنے والے نیتزارم محور سے قبضے کو سخت کیا جائے گا، جو کہ رفح پر حملے سے زیادہ خطرناک سمجھا جا سکتا ہے اور رفح میں کراسنگ کو بند کیا جا رہا ہے اور فلسطینی مزاحمت سے کسی بھی تصادم سے بچانے کے لیے ایک فوجی دستے کی تنصیب بھی کہ جا رہی ہے۔ دوسرا حصہ: جنگی جرائم اور مقدمات میں ملوث ہونے کے بعد نیتن یاہو سے جان چھڑانا ہے اور جنگ کے بعد تحقیقات ہوں گی۔
بلاشبہہ یہی دشمن کی منصوبہ بندی ہے، لیکن مزاحمت اس کی گھات میں ہے، یہ ایک باشعور مزاحمت ہے، لہذا اس نے ابھی سے مرکز میں نیتزارم محور پر بمباری شروع کردی ہے اور امریکی تیرتی بندرگاہ کو اشدود منتقل ہونے پر مجبور کر دیا ہے، کیونکہ امریکی معاشرہ غزہ کی سرزمین پر اپنے فوجیوں اور بچوں کے قتل کو برداشت نہیں کر سکتا۔ اسی طرح دلیر فلسطینی مزاحمت نے کرم ابو سالم پر حملہ کیا اور رفح میں مشرق کی طرف گھسنے والی اسرائیلی فوجوں پر بمباری کی۔

جنگ کے بعد، شہدا کے خاندانوں نے طے کیا ہے اور کسی اور کو ان سے یہ حق چھیننے کی اجازت نہیں ہے، امریکی انتظامیہ نیتن یاہو کی پریشانی کا حل تلاش کرے۔ اسے ہٹانے میں تاخیر سے انسانی بحران کی سنگینی میں اضافہ ہوا ہے، امریکہ میں بھی۔ دوسری طرف فلسطینی فریق نے اس درد اور انسانی بحران کے باوجود بیانیے کی جنگ فتح حاصل کی ہے۔ یہ وہی بیانیہ ہے جو لندن اور نیویارک کی سڑکیں اور اس کی یونیورسٹیاں دیکھ رہی ہیں جو ستر کی دہائی میں بات کرنے کی ہمت نہیں رکھتے تھے، وہ مزید بلیک میلنگ برداشت نہیں کر سکتے۔ آج یہودی، عیسائی، مسلمان اور لائیکی اسرائیل کے خلاف سڑکوں پر لڑ رہے ہیں، اسرائیل کو سیاسی طور پر تنہا کرنے اور مغربی نظام پر ایک اخلاقی بوجھ میں تبدیل کر رہے ہیں۔ نیتن یاہو نے اہلِ مغرب کو مشورہ دیا کہ انسانیت کے خلاف اس کی جنگ میں اس کی حمایت کرنے سے مغربی تہذیب کو تقویت ملے گی، جیسا کہ وہ اپنے انٹرویوز میں کہتا ہے۔ حقیقت اس کے بالکل برعکس ہے جو مغربی تہذیب کے زوال کو تیز کرے گی، جمہوریت کے تصورات میں زوال اور ان کے درمیان اصول اور اخلاق کی وجہ سے۔ اگر مغرب میں کچھ عقل مند لوگ ہیں جو انسانیت کو بچانے کے لیے سوچ رہے ہیں تو انھیں انتہا پسند صہیونی ذہنیت سے نجات حاصل کرنی چاہیے، چاہے وہ امریکا ہو یا اسرائیل، یہ مسئلہ مذہبی تنازع نہیں ہے۔ آج تمام مذاہب اسرائیل کے خلاف ہو چکے ہیں اور اسرائیل کسی بھی طرح اپنے آپ کو یہودی مذہب کا نمائندہ نہیں بنا سکتا، دوسری طرف دنیا کے بیش تر یہودیوں کو مقبوضہ فلسطین میں لانے میں اسرائیل کامیاب نہیں ہوسکا، اس نے اسرائیل کی سرزمین کی دودھ اور شہد کی سرزمین کے طور پر مارکیٹنگ کرنے کی کوشش کی۔ دوسری طرف دنیا کے جو یہودی آج فلسطین آئے ہیں وہ اس سے بھاگ رہے ہیں کیونکہ یہودیوں کا خواب یہ نہیں ہے۔
ہم فلسطین میں ہیں اور غائب نہیں ہیں۔ ہم انسانیت کے قتل کا مطالبہ نہیں کرتے، ہم مسیح نہیں ہیں، البتہ ہم اپنے حقوق کی تلاش کرنے والے انسان ہیں، اور ہم مزاحمت کی صلاحیت پر قادر ہیں۔ ہم نے آزاد جینے یا آزاد مرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ دنیا کے پاس اس کے سوا کوئی تیسرا راستہ نہیں ہے کہ وہ فلسطینیوں کی سلامتی اور حفاظت کے بارے میں سوچنا شروع کردے، جیسا کہ اس نے ایک صدی سے صرف اور صرف اسرائیلیوں کی سلامتی اور حفاظت کے بارے میں سوچا ہے۔ اس کھیل کے تمام کھلاڑیوں کے لیے یہ موقع ہے۔ غیر منصفانہ مغربی معیارات کے مطابق ایک دہشت گرد کے طور پر درجہ بندی میں شمار کیے جانے والے فلسطینی، مغربی کنارے اور غزہ کی پٹی پر ایک آزاد ریاست چاہتے ہیں جس کا دارالحکومت القدس ہے اور یہ ایک ایسا موقع ہے جو پھر نہیں آئے گا۔ نئی نسل طوفان الاقصیٰ کے بعد کی نسل ہے جو فلسطین میں دریا سے سمندر تک صہیونی امریکی تسلط پر فتح کے امکان کو دیکھتی ہے اور یہ حقیقت 7 اکتوبر کو واضح ہو گئی تھی اور اس سے کوئی پسپائی نہیں ہے