ہمارے گناہ عورتیں کیوں ڈھوئیں؟ … تحریر : وجاہت مسعود


اچھا خاصا مشاعرہ جم رہا تھا۔ قومی تشکیل میں قرارداد مقاصد کی سبز قدمی کا بیان مقصود تھا۔ شمع ابھی قبلہ شبیر احمد عثمانی کے رخ انور کی بلائیں لے رہی تھی۔ تشبیب کی موج ہوائے واقعہ کے ہلکوروں میں دلیل قائم کر رہی تھی کہ گریز نے یوں دخل اندازی کر کے محفل برہم کر دی جیسے کوئٹہ کے لٹریری فیسٹول میں کسی کندہ ناتراش نے محترمہ ماہرہ خان پر کوئی نامعلوم شے اچھال دی۔ درویش اسی کارن اخبار میں سلسلہ وار موضوع سے کنی کتراتا ہے۔ تاریخ کا بیان کڑی سے کڑی ملانے اور ردے پہ ردا جمانے کا صبر طلب عمل ہے۔ دیس میں تو رنگِ فلک یوں لمحہ بہ لمحہ بدلتا ہے کہ سیدھے پاؤں کی ایڑھی گھوم کے رہ جاتی ہے۔ مسلسل موضوع کو ایک طرف رکھ کے امروز و فردا کی خبر رکھنا ضروری قرار پاتا ہے۔ قرارداد مقاصد کا موضوع اب کچھ وقفے سے آگے بڑھے گا۔

درویش کو مکتب تبلیغ یا پوٹھوہاری سلسلہ تصوف کے اکابر سے استفادے کا موقع نہیں ملا، جب یہ خواتین و حضرات ہماری اصلاح کرنے ملکی منظر پر نمودار ہوئے تو فقیر دشت جستجو میں کئی منزلیں دور نکل چکا تھا۔ ایک سامنے کا تاثر البتہ یہ ضرور رہا کہ یہ اصحاب قبلہ امین احسن اصلاحی کی مرتب دلیل یا خورشید کمال عزیز جیسی قابل تصدیق واقعاتی بنت نہیں رکھتے۔ عمومیت کے رنگ میں ہوائی بات کہتے ہیں۔ ایک سابق کرکٹر سعید انور سے تازہ ارشاد کا صدور ہوا ہے۔ کہتے ہیں کہ جب سے عورتوں نے پاکستان میں گھر سے نکل کر کام کرنا شروع کیا ہے طلاق کی شرح پچھلے تین برس میں تیس فیصد بڑھ گئی ہے۔ نیز یہ کہ بیویا ں شوہر سے کہتی ہیں کہ ہم خود گھر چلا سکتی ہیں ، تم جہنم میں جاؤ۔ یہ ایک گیم پلان ہے جسے تم ہدایت پائے بغیر نہیں سمجھ سکتے۔ سعید انور نے یہ بتانے کی زحمت نہیں کی کہ گزشتہ تین برس میں طلاق کے اعداد و شمار انہوں نے کس دستاویز سے اخذ کیے ہیں اور یہ بھی نہیں بتایا کہ گیم پلان کس کا ہے نیز یہ کہ ہدایت کس سے لینا ہے۔ اسی قبیلے کے ایک مرحوم اداکار سیاست دان عامر لیاقت حسین نے فرمایا تھا۔ ایک برس میں ایک لاکھ خواتین نے خلع کے لیے عدالتوں سے رجوع کیااور دس ہزارسے زائد کو خلع کی ڈگری جاری ہوئی۔ من مانی، سرکشی، ناشکری، وسوسے، دوستوں اور بدقسمتی سے ماں کے مشورے، بے لحاظی اور میڈیا کے سبز باغ خلع تو دلا دیتے ہیں لیکن آخرت کا ایسا خلا پیدا ہوجاتا ہے جو پچھتاوا کہلاتا ہے۔جون 2022 میں عامر لیاقت حسین کی پراسرار موت میں ان کے اپنے بیان کردہ اسباب کی کارفرمائی نامعلوم ہے تاہم طلاق اور خلع کے اعداد و شمار کا ماخذ انہوں نے بھی بیان نہیں کیا۔ کورونا کی وبا کے دنوں میں مالی عطیات کے لیے منعقد ہ ٹیلی ویژن پروگرام میں مولانا طارق جمیل نے وزیراعظم کی موجودگی میں قوم کو مطلع کیا کہ اس وبا کا سبب عورتوں کا رقص، نازیبا لباس اور دیگر فواحش ہیں۔ چند روز بعد مولانا موصوف کورونا ہی میں مبتلا ہو کر ہسپتال پہنچ گئے جہاں ماہر ڈاکٹروں اور نیک سیرت نرسو ں نے شبانہ روز محنت سے مولانا محترم کی جان بچا لی۔ مولانا نے صحت یابی کے بعد کورونا وائرس کے بارے میں اپنے خیالات بدل لئے۔ خدا انہیں لمبی زندگی دے۔ ایک نامور ڈرامہ نگار خلیل الرحمن قمر بھی عورتوں کے بارے میں بدزبانی کی شہرت رکھتے تھے۔ تاہم قمر صاحب نے اگست 2021میں اپنے خیالات سے رجوع فرما لیا۔ اپنی رائے پر نظرثانی کی صلاحیت بالغ نظری ہوتی ہے۔

محترم سعید انور غالبا نہیں جانتے کہ عورت او رمرد میں حقوق اور رتبے کی مساوات کا سوال اٹھارہویں صدی میں انقلاب فرانس اور صنعتی انقلاب سے جڑا ہوا ہے۔ اس پر علمی اور تمدنی دلائل ایک طرف رکھئے، صرف یہ جان لینا کافی ہے کہ آج کی دنیا میں کوئی قوم عورت اور مرد کی مساوات کے بغیر خود کفالت، ترقی اور خوشحالی کا خواب بھی نہیں دیکھ سکتی۔ کچھ اعداد و شمار دیکھئے۔Global Gender Gap Index 2022 کے مطابق پاکستان 146 ممالک میں 145 ویں نمبر پر ہے جب کہ ہیومن ڈویلپمنٹ انڈکس میں صنفی امتیاز کے اعتبار سے پاکستان 191ممالک میں 161ویں نمبر پر ہے۔ عالمی سطح پر 39فیصد عورتیں لیبر فورس کا حصہ ہیں جبکہ پاکستان میں یہ شرح 21فیصد ہے۔ بنگلہ دیش میں 32.43فیصد عورتیں معاشی سرگرمیوں میں حصہ لے رہی ہیں۔ دنیا بھر میں ہر برس پانچ ہزار عورتیں نام نہاد غیرت کے نام پر قتل ہوتی ہیں۔ ان میں پاکستان کا حصہ ایک ہزار مقتول عورتیں ہے۔ 2020میں ایچ آر سی پی کے مطابق 90 فیصد پاکستانی عورتیں گھریلو تشدد کا سامنا کرتی ہیں جن میں سے ہر برس پانچ ہزار عورتیں ہلاک ہوجاتی ہیں۔ پاکستان میں نوزائیدہ بچوں کی اموات کی شرح ایک ہزار زندہ بچوں میں 56.8فیصد ہے۔ عالمی سطح پرنوزائیدہ بچوں کی شرح اموات 25فیصد ہے جبکہ بنگلہ دیش میں زندہ پیدا ہونے والے 1000بچوں میں سے صرف 20.7موت کا شکار ہوتے ہیں۔ زچگی کے دوران مائوں کی اموات کی عالمی شرح224 ہے۔ اس میں افغانستان اور انگولا جیسے ممالک بھی شامل ہیں۔ پاکستان میں بچوں کو جنم دینے والی ہر ایک لاکھ میں سے 186مائیں جان کھو بیٹھتی ہیں۔ بنگلہ دیش میں یہ شرح 156ہے۔ پاکستان میں عورتوں میں شرح خواندگی 49.6 فیصد ہے ، بنگلہ دیش میں یہ شرح 72 فیصد ہے۔ ہمارے دستور کی شق 25کے تحت عورتوں اور مردوں میں امتیاز کی ممانعت ہے۔ غالبا اب ایسی قانون سازی کی ضرورت ہے جس میں درس گاہوں، ذرائع ابلاغ اور عبادت گاہوں میں صنفی امتیاز کے فروغ کو قابل سزا جرم قرار دیا جائے۔ ہماری مائیں، بہنیں اور بیٹیاں قابل احترام ہی نہیں بلکہ سیاست، معیشت اور تمدن میں بھرپور حصہ لے کر اپنی صلاحیتیں بروئے کار لانے کاپورا حق رکھتی ہیں۔ صنفی مساوات کا ایک ہی مطلب ہے، جسمانی امتیاز سے قطع نظر یکساں حقوق ، مساوی رتبہ اور برابری کا احترام۔ یہ کہیں نہیں لکھا کہ پاکستان کی عورتوں پر زندگی کا بوجھ اٹھانے کے علاوہ پدرسری معاشرے کے گناہ ڈھونا بھی لازم ہے۔

بشکریہ روزنامہ جنگ