سیاست کے بادشاہ کے نام!! … تحریر : سہیل وڑائچ


ہم گناہگار لوگ انہیں مولانا کہیں یا امامِ پاکستان، ان کے آبائی حلقے ڈیرہ اسماعیل خان کے ووٹر انہیں سیاست کا بادشاہ کہتے اور بلاتے ہیں، وہ واقعی سیاست کے بادشاہ ہیں۔ دلیل اور منطق کے ہتھیار سے لیس ہو کر جب بھی وہ کسی مسئلے پر بات کرتے ہیں انکے ناقدوں کا پتہ پانی ہو جاتا ہے۔ وہ ہمیشہ سے آئینی اور جمہوری جدوجہد کے نقیب رہے ہیں۔ اوائل عمری میں ہی انہیں جنرل ضیا الحق کی آمریت کا سامنا کرنا پڑا۔ ان کے مکتب فکر کے بڑے بڑے نام جنرل ضیا الحق کے مذہبی اور مقدس افغان جہاد کے جھانسے میں آ کر انکے ساتھ مل گئے مگر سیاست کے بادشاہ نے اولوالعزمی سے اندرونی اور بیرونی سازشوں کا دانش و تدبیر سے مقابلہ کیا اور اپنے اندرونی حریفوں کو ایک ایک کر کے پچھاڑ دیا۔ وہ سیاست میں ابھی نو وارد تھے کہ ایم آر ڈی کی جمہوری جدوجہد کا ساتھ دینے کی پاداش میں انہیں قید وبند کی صعوبتوں سے گزرنا پڑا۔ ان مشکل حالات کا مقابلہ کرتے ہوئے وہ ابتدائے سیاست میں ہی کندن بن گئے۔

وہ سیاست میں وارد ہوئے تو انکی جماعت کئی گروپوں میں تقسیم تھی پورا دیوبندی مکتب فکر بھی ان کو لیڈر ماننے پر تیار نہ تھا۔ دوسری طرف انکا مولانا شاہ احمد نورانی کی کرشمہ ساز اور مقبول ترین قیادت کی شکل میں بریلوی اکثریت سے مقابلہ تھا۔ ساتھ ہی ساتھ انہیں قاضی حسین احمد کی متحرک قیادت میں خیبر پختونخوا میں جماعت اسلامی کا چیلنج درپیش تھا۔ وہ ان تمام چیلنجوں سے مفاہمت، دانش مندانہ حکمت عملی اور بعض اوقات سیاسی ہوشیاریوں سے عہدہ برآ ہوتے رہے۔ ہر سیاسی جماعت کی طرح ان کا ہدف بھی ہمیشہ سے اقتدار رہا اور اس میں بھی وہ اپنی حریف مذہبی جماعتوں کے مقابلے میں بے حد کامیاب رہے، کئی بار وفاقی حکومتوں کا حصہ رہے، کشمیر کمیٹی کے چیئرمین بنے، خارجہ پالیسی کمیٹی کے سربراہ بھی رہے، خیبر پختونخوا میں کئی دہائیوں کے بعد پھر سے اپنی جماعت کا وزیر اعلی بنوانے میں کامیاب رہے۔ اس سے پہلے انکے والد مولانا مفتی محمود بھی اس منصب پر ولی خان کی جماعت نیپ کی مدد سے فائز رہے تھے۔ آج ان کے ماضی کے سفر کو دیکھیں تو انہوں نے سیاست اور بالخصوص مذہبی سیاست میں کامیابی کے جھنڈے گاڑ دیئے ہیں، انکی جماعت پختونخوا سے نکل کر بلوچستان میں قدم جما چکی ہے اور سندھ میں پیش قدمی کر رہی ہے اس دوران وہ پاکستان کے قومی اداروں سے بھی راہ و رسم بڑھا چکے ہیں، وہ مسلم لیگ ن کے قریبی ترین اتحادی رہے اور دوسری طرف آصف زرداری سے انکی ذاتی دوستی بھی کسی سے پوشیدہ نہیں۔

گزشتہ کئی برسوں سے سیاست کے بادشاہ کی توپوں کا رخ کھلاڑی کی طرف رہا ہے، کون سا الزام ہے جو دونوں طرف سے ایک دوسرے پر نہیں لگایا گیا، 2024 کے الیکشن میں تحریک انصاف نے مولانا کو ان کے آبائی حلقے میں عبرتناک شکست دے کر ان کا صفایا کر دیا۔ الیکشن کے نتائج کے بعد سے سیاست کے بادشاہ کے لہجے، رویے اور سیاست میں یکسر تبدیلی آ گئی ہے، دلیل اور منطق کے وہ ہتھیار جو پہلے کھلاڑی کے خلاف استعمال ہوتے تھے اب یکایک ان کا رخ انکے پرانے اتحادیوں اور مقتدرہ کی طرف ہو گیا ہے۔ مقتدرہ سے ان کی پہلے بھی بنتی بگڑتی رہی ہے وہ 2018میں بھی مقتدرہ پر برستے تھے کہ اس نے کیوں کھلاڑی اور اسکی جماعت کو جتوایا؟۔

سیاست کے بادشاہ کی تازہ قلابازی اگرچہ بدلتی سیاست میں روزمرہ کی بات سمجھی جا سکتی ہے مگر پھر بھی ان کے حامی اور مخالف اس اچانک تبدیلی پر انگشت بدنداں ہیں، نہ انکے ماضی کے حامی ابھی تک اس تبدیلی کو ہضم کر پائے ہیں اور نہ ہی انکے ماضی کے مخالف ان کے تیور پوری طرح پڑھنے میں کامیاب ہوئے ہیں۔ مولانا کی سیاست کا بڑا میدان تو پختونخوا ہے اور وہاں ان کا مقابلہ تحریک انصاف سے ہے وہ اپنے حلقے اور صوبے کے روایتی حریف کے ساتھ مل کر کون سے اہداف حاصل کرنا چاہتے ہیں، یہ سیاست کے طالب علموں کیلئے پریشان کن ہے، مگر وہ چونکہ سیاست کے بادشاہ ہیں اس لئے ان کی مصلحت اور دور اندیشی کو طالب علم کیسے جان سکتے ہیں۔

مولانا صرف ملکی سیاست کا محور نہیں ہیں انکے پیش نظر عالمی سیاست بھی ہوتی ہے اسی لئے وہ بھارت جا کر بھی امن مذاکرات کا ڈول ڈال آئے تھے، الیکشن سے پہلے وہ افغانستان گئے تھے اور دونوں ملکوں کے درمیان امن و صلح کے کسی معاہدے پر پہنچنے کی کوشش کی تھی۔ ایسا لگتا ہے کہ مقتدرہ کی طالبان کے حوالے سے پالیسی پر مولانا اور عمران خان کی سوچ ایک ہے اور مولانا کی حکمت عملی میں تبدیلی کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے، یا یہ بھی ہو سکتا ہے کہ مولانا، آصف زرداری کو صدر بنانے کی وجہ سے مقتدرہ اور نون لیگ دونوں سے ناراض ہو گئے ہیں کیونکہ پی ڈی ایم کے بڑے رہنما کے طور پر وہ اس عہدے پر اپنا حق سمجھتے تھے، وجہ کچھ بھی ہو حقیقت یہی ہے کہ سیاست کے بادشاہ نے موجودہ حکومت اور موجودہ مقتدرہ کے خلاف علم بغاوت بلند کر دیا ہے انکے اس اقدام سے تحریک انصاف کو اخلاقی، مادی اور سیاسی فائدہ پہنچے گا۔ مولانا اور تحریک انصاف کے تعاون کا مطلب یہ بھی ہے کہ پورے کا پورا صوبہ پختونخوا اپوزیشن کا قلعہ بن جائے گا کیونکہ وہاں کی دونوں بڑی جماعتوں کے علاوہ کسی تیسری جماعت کی کوئی نمایاں آواز ہی نہیں ہے۔ ڈیرہ اسماعیل خان کے لوگ مولانا کو باقی پاکستان کی نسبت بہت زیادہ جانتے ہیں اس لئے وہ انہیں سیاست کا بادشاہ کہتے ہیں اگر اس لقب پر غور کیا جائے تو مولانا کو ابھی تک اقتدار میں جتنا حصہ ملتا رہا ہے وہ ان کے شان شایان نہیں، وہ تو اس شعبے کے بادشاہ ہیں اور انہیں واقعی حکومت کا بادشاہ بھی بننا ہے۔ جب تک انہیں اس کا موقع نہیں ملتا وہ منطق، دلیل اور اپنی سیاست کے داؤ پیچ سے اس مقام تک پہنچنے کی کوشش کرتے رہیں گے، جو مقتدرہ اور جو سیاسی پارٹی ان کے اس عزم کے راستے میں رکاوٹ بنے گی وہ اس کا راستہ کاٹتے رہیں گے۔

میری رائے میں مولانا کو توڑنے نہیں جوڑنے کا کردار ادا کرنا چاہیے، وہ پارلیمان میں بیٹھ کر اس پارلیمانی کمیٹی کی سربراہی کریں جو انتخابات میں دھاندلی کی تحقیقات کرے، پارلیمان کے ذریعے ہی، مولانا کی مدد سے عمران خان کے واپس سیاست میں آنے اور ریاست کا اسٹیک ہولڈر بننے کا راستہ ہموار کیا جائے۔ ریاست سے لڑ کر ریاست کوکمزور کرنا کسی کے مفاد میں نہیں، مقتدرہ کو بھی مولانا کی اہمیت سمجھتے ہوئے ان سے انکے مقام کے مطابق ڈیل کرنا چاہیے ورنہ سیاست کا بادشاہ شطرنج کی بازی ہی نہ الٹا دے…..!

بشکریہ روزنامہ جنگ