مقدمات کے فیصلے بروقت کیوں نہیں ہوتے؟ : تحریر مزمل سہروردی


پنجاب حکومت نے ہتک عزت کا نیا قانون لانے کا اعلان کیا ہے۔ نئے قانون کے تحت اس بات کو یقینی بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ ہتک عزت کے مقدمات کا فیصلہ 180دن میں کیا جائے۔

اس حوالے سے لاہور ہائی کورٹ کے ایک جج کی سربراہی میں ٹربیونل بنانے کی بات بھی کی جا رہی ہے تا کہ مقدمات کا جلد فیصلہ ہو سکے۔ اس کے ساتھ یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ مذکورہ جج ایک دن میں صرف دو کیس ہی سن سکے گا۔ اس ضمن میں جرمانے کی رقم بھی تیس لاکھ روپے کرنے کی تجویز سامنے آئی ہے۔ نئے قانون کے یہی نقاط سامنے آئے ہیں۔

مقدمات کے 180دن میں فیصلہ کرنے کا بہت شور مچایا جا رہا ہے۔ حالانکہ دوست یہ نہیں جانتے کہ 2002میں ہتک عزت کے قانون میں یہ واضح طور پر لکھا ہوا ہے کہ مقدمات کا نوے روز میں فیصلہ کیا جائے گا۔ اگر عدلیہ نوے روز میں مقدمات کا فیصلہ نہیں کرتی تو اس میں قانون کا کیا قصور ہے۔ اس کے ساتھ پہلے قانون میں جرمانے کی کوئی حد نہیں۔

جج جتنا مرضی چاہے جرمانہ کر سکتا ہے۔ لیکن اس نئے قانون میں جرمانہ کی حد تیس لاکھ روپے مقرر کی جا رہی ہے۔ اس لے میری رائے میں تو قانون کو نرم کیا جا رہا ہے۔ حالانکہ دوستوں کی رائے ہے کہ قانون کو سخت کیا جا رہا ہے۔ یہ ضرور ہے کہ پہلے ہتک عزت کے مقدمات سیشن جج سنتا ہے اور اب لاہور ہائی کورٹ کے جج پر مشتمل ٹربیونل کے سننے کی بات کی جا رہی ہے۔ اس کے باوجود میری رائے ہے کہ پہلے سے موجود قانون کو نرم کیا جا رہا ہے۔

2002 کے قانون میں جب لکھا ہوا ہے کہ مقدمات کا فیصلہ نوے روز میں ہوگا اور یہ ممکن نہیں ہو سکا تو قانون میں 180دن لکھنے سے کیا مقدمات کا فیصلہ 180 دن میں ہو جائے گا؟ پہلے ہتک عزت کے مقدمات سول جج سنتا تھا پھر2002 کے قانون میں اس کا درجہ بڑھا کر سیشن جج کر دیا گیا۔ لیکن دیکھیں کوئی فائدہ نہیں ہوا۔

اب سیشن جج سے بڑھا کر ہائی کورٹ کے جج کے برابر کیا جا رہا ہے۔ کیا اس کا کوئی فائدہ ہوگا؟ کیا مقدمات کا فیصلہ اس لیے نہیں ہو رہا کہ جج کا درجہ مسئلہ تھا؟ کیا سیشن جج مقدمات کے فیصلہ کی اہلیت نہیں رکھتے تھے اور ہائی کورٹ کا جج مقدمات کا فیصلہ کرنے کی زیادہ اہلیت رکھتا ہے۔

دوست نئے قانون کو آمرانہ قانون قرار دے رہے۔ صحافیوں کی تنظیموں کی جانب سے بھی ایسا ہی ردعمل سامنے آیا ہے۔ اپوزیشن نے بھی ایسا ہی رد عمل دیا ہے۔ اپوزیشن نے بھی اسے ایک آمرانہ قانون قرار دیا ہے۔ اس لیے میں نے موجودہ قانون اور نئے قانون کا ایک موازنہ سامنے رکھا ہے۔ شائد دوستوں نے موجودہ قانون کا جائزہ نہیں لیا اور اسی لیے نئے قانون کو آمرانہ قرار دے دیا۔ اس لیے میں صرف اتنا عرض کرنا چاہتا ہوں کہ نئے قانون میں ایک طرح سے ہتک عزت کے پرانے اور موجودہ قانون میں نرمی کی جا رہی ہے۔ پہلے سے موجود قانون کو نرم کیا جا رہا ہے۔

موجودہ قانون میں جرمانے کی کوئی حد نہیں ہے۔ یہ درست ہے کہ مقدمات کا فیصلہ نہیں ہوتا۔ لیکن میں نے ایک دو ایسے کیس بھی دیکھے ہیں جہاں ایک کروڑ روپے جرمانہ کیا گیا ہے۔ یہ درست ہے کہ ان مقدمات کا بھی فیصلہ ہونے میں دس سال لگے ہیں۔ نوے دن میں کبھی کوئی فیصلہ نہیں ہوا۔لیکن اب جرمانے کی حد تیس لاکھ مقرر کی جا رہی ہے تو اسے سختی نہیں نرمی کے تناظر میں دیکھے جانے کی ضرورت ہے۔ ہتک عزت میں جرمانہ کے نظریہ کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ دنیا بھر میں ہتک عزت کے مقدمات میں مثالی جرمانے کیوں کیے جاتے ہیں۔ مثالی جرمانے آگے سے ہتک عزت کو روکنے کی بنیاد ہیں۔

اگر جرمانہ معمولی ہوگا اور ایسا ہوگا کہ دینا ممکن ہوگا تو لوگ ہتک عزت کا جرم بار بار کریں گے۔ کوئی ہتک عزت نہ کرے اور اس قانون سے ڈرے اس لیے مثالی جرمانے کیے جاتے ہیں۔ آج تیس لاکھ کوئی رقم نہیں۔ تیس لاکھ میں ڈھنگ کی ایک گاڑی نہیں آتی۔ دوسرے کا چھوٹاسا گھر نہیں آتابلکہ ایک مرلہ جگہ نہیں آتی۔ اس لیے میں جرمانہ کی رقم تیس لاکھ کو معمولی جرمانہ ہی قرار دوں گا۔ میری رائے میں جرمانہ کی کوئی حد نہیں ہونی چاہیے۔ لیکن کم از کم پانچ کروڑ ضرور ہونا چاہیے تا کہ ڈر پیدا ہو سکے۔

اب اگر قانون میں ایک مدت لکھ بھی دی جائے تو اس پر اگر عدلیہ عمل نہ کرے تو کسی کے پاس کوئی حل نہیں۔ صرف ہتک عزت کے مقدمات کے لیے ہی نہیں بلکہ دیگر کئی مقدمات کا فیصلہ کرنے کی مدت لکھی گئی ہے۔ لیکن اس پر عمل نہیں ہوتا۔ ججز قانون میں لکھی گئی مدت کو کوئی خاص لفٹ نہیں کرواتے۔ وہ خود کو اس مدت کا پابند نہیں سمجھتے۔

کمپنی قانون میں بھی نوے دن کی مدت لکھی ہوئی ہے۔ کمپنی لاز کے نئے قانون کے مطابق بھی مقدمہ ہائی کورٹ کا جج براہ راست سننے کا پابند ہے۔ ہائی کورٹس میں کمپنی بنچ بنائے جاتے ہیں۔ لیکن کسی بھی کمپنی کیس میں نوے دن میں فیصلہ نہیں ہو سکا ہے۔ اگر میں دیکھوں تو نئے ہتک عزت کے قانون میں کمپنی لا کی نقل کی گئی ہے۔ لیکن کیا حکومت پنجاب نے تحقیق کی ہے کہ اس قانون کے تحت کسی کمپنی کیس کا فیصلہ مقررہ مدت میں ہو سکا ہے۔ اگر یہ تحقیق کر لی جائے تو پھر یہ سوال پیدا ہو جائے گا کہ نئے قانون کے تحت بھی مقدمات کا فیصلہ نوے دن میں کیسے ہوگا۔

سوال جج کو پابند کرنے کا ہے۔ سوال یہ ہے کہ جو قانون بنایا جائے جج کو بھی اس قانون کا پابند کیسے بنایا جائے۔ اگر جج ہی خود کو مذکورہ قانون کا پابند نہیں سمجھتے تو پھر عملدرآمد ممکن کیسے ہوگا۔ اور کون کرائے گا اس نئے قانون میں بھی ایسا کوئی طریقہ وضع نہیں گیا جس کے تحت جج کو پابند بنایا جائے۔

یہ کہا جا رہا ہے کہ جج ایک دن میں دو کیس ہی سنے گا۔یہ درست ہے کہ ججز پر مقدمات کا بہت بوجھ ہے۔ کاز لسٹ میں دو دوسو کیس ہوتے ہیں۔ ایک جج کے لیے عملی طور پرایک دن میں دو سو کیس سننا ممکن ہی نہیں ہے۔ لیکن کیا مقدمات میں تاخیر کی واحد وجہ کیسز کا بوجھ ہے۔ اگر بوجھ کم کر دیا جائے تو کیسز کا جلد فیصلہ ممکن ہو جائے گا۔

اگر قانون میں یہ لکھا جائے کہ اگر جج مقررہ مدت میں فیصلہ نہیں کرتا تو اس کے خلاف بھی کارروائی ہو سکے تو زیادہ بہتر ہوگا۔ اگر تاریخ دینے کے راستے بند کیے جائیں تو زیادہ بہتر ہوگا۔ سب سے بڑا مسئلہ دوران سماعت ایسی درخواستیں ہیں جو مقدمہ کی سماعت روک دیتی ہیں۔ یہ درخواستیں سماعت روکنے کے لیے ہی دی جاتی ہیں۔ ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ اگر آپ ہتک عزت کی ڈگری حاصل کر بھی لیتے ہیں تو اس ڈگری پر عملدرآمد ڈگری لینے سے بھی مشکل کام ہے۔ پاکستان میں ڈگر ی کی رقم لینا ڈگری لینے سے بھی مشکل ہے۔ یہاں ڈگری پر فوری پیسے نہ دینے کا کوئی جرمانہ نہیں۔ آپ چاہیں دس سال لیٹ کر دیں۔ پھر ایک نئی مقدمہ بازی شروع ہو جاتی ہے۔ اس مسئلہ پر بھی نئی قانون سازی میں کچھ نہیں۔ یہاں پہلے بھی قانون خاموش ہے۔ اب بھی خاموش ہے۔

بشکریہ روزنامہ ایکسپریس