نیشنل کمیشن فار ہیومن رائٹس پاکستان کی رپورٹ : تحریر مزمل سہروردی


نیشنل کمیشن فار ہیومن رائٹس پاکستان کاایک خود مختار سرکاری ادارہ ہے۔ 2012میں اسے پاکستان کی پارلیمنٹ میں نیشنل کمیشن فار ہیومن رائٹ ایکٹ کے تحت قائم کیا گیا۔ اس کمیشن کے قیام کا بنیادی مقصد اور کام پاکستان میں انسانی حقوق کی صورتحال پر نظر رکھنا اور ہر سال رپورٹ مرتب کرنا ہے۔

یہ کوئی نجی ادارہ نہیں ہے اور نہ ہی یہ بیرونی فنڈنگ سے چلتا ہے۔ ہم کہہ سکتے ہیں کہ ملک میں انسانی حقوق کے حوالے سے یہ حکومت کی آنکھ اور کان ہے۔ اس کی رپورٹ کی کسی نہ کسی حد تک ایک سرکاری حیثیت ہے۔اس کی فنڈنگ یا تجاویز پر حکومت کوئی قانون سازی یا اقدام کرتی ہے یا نہیں کرتی یہ حکومت کا حالات کے مطابق اپنا فیصلہ ہے۔

رواں برس بھی نیشنل کمیشن فار ہیومن رائٹس نے ملک میں اقلیتوں کی صورتحال کے بارے میںاپنی رپورٹ جاری کی ہے۔ میں سمجھتا ہوں یہ ایک خوش آیند بات ہے کیونکہ اس کے ذریعے حکومت کو کافی حد تک حقائق سے آگاہی ملتی ہے۔ جب تک ہمیں قابل اعتبار ذرایع سے انسانی حقوق کے حوالے سے اقلیتوں کے مسائل اور ان کے تحفظات کا پتہ نہیں چلتا، ہم ان کے مسائل حل نہیں کر سکتے۔پنجاب کے شہر جڑانوالہ جیسے واقعات ہمارے سامنے ہیں۔

سندھ میں کم سن بچیوں کا مذہب تبدیل کرانے کی خبریں بھی سامنے ہیں۔ پنجاب اور خیبرپختونخوا میں مذہبی اقلیتوں کے افراد پر حملے بھی ہمارے سامنے ہیں۔ اس لیے ہمارے پالیسی سازوں اور سیاسی قیادت کو یہ بات تسلیم کرنی چاہیے کہ پاکستان میں اقلیتوں کے حوالے سے سب ٹھیک نہیں ہے۔لہذا اصلاح کے لیے کچھ کرنا لازم ہے۔

نیشنل کمیشن فار ہیومن رائٹس نے اپنی رپورٹ میں شرپسندی اور لاقانونیت کے واقعات پر مٹی پا ریاستی پالیسی پر گہر ی تشویش ظاہر کرتے ہوئے وفاقی اور صوبائی حکومتوں سے فوری اور موثر اقدامات کرنے کے لیے کہا ہے۔اس کمیشن نے ایک اقلیتی گروپ کے حوالے سے گزشتہ دنوں جو رپورٹ جاری کی ہے۔

اس رپورٹ کے تعارف میں لکھا ہے کہ کمیشن کو اقلیتی لوگوں کی متعدد تحریری شکایات موصول ہوئیں جس میں کہا گیا کہ ان کے بنیادی انسانی حقوق کا خیال نہیں رکھا جا رہا ہے کمیشن نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ انسانی حقوق کی پامالی کے جو واقعات ہوئے ہیں ان سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ ساری شکایات غلط نہیں ہیں۔ لہذا اس کے تدارک کی فوری ضرورت ہے۔

رپورٹ کے مطابق گزشتہ سال 17 اور 18 ستمبر کو کمیشن کے تین ارکان نے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا جائزہ لینے کے لیے شکایات کنندگان سے ملاقاتیں کی ہیں،جن میں خواتین و حضرات دونوں شامل ہیں۔مذکورہ رپورٹ 21 صفحات پر مشتمل ہے اس رپورٹ میںمختلف واقعات کے اعداد و شمار بھی دیے گئے ہیں۔ رپورٹ کے آخر پر کمیشن نے حکومت پاکستان کو درج ذیل سفارشات پیش کی ہیں۔میں سمجھتا ہوں کہ یہ اچھی سفارشات ہیں۔

مرکزی اور صوبائی حکومتوں کو ان پر غور کرکے مناسب اقدامات اور قانون سازی کرنی چاہیے۔ یہ وقت کی ضرورت ہیں۔ 1۔حکومت کو چاہیے کہ وہ مذہبی آزادی کے ضمن میں آئین کے آرٹیکل 20 پر مکمل عملدرآمد کرائے۔ 2۔حکومت تمام ممکنہ اقدامات کرے جن کے تحت تمام اقلیتوں کو وہی بنیادی انسانی حقوق حاصل ہوں جو دوسرے پاکستانی شہریوں کو ہیں۔ اسی طرح حکومت ایک نظام وضع کرے جس کے تحت اقلیتوں کی جان و مال اور عبادت گاہوں کی حفاظت کو یقینی بنایا جائے۔

3۔تمام اقلیتی ووٹرز جنرل ووٹر لسٹ میں شامل ہوں کسی کے لیے بھی الگ ووٹر لسٹ نہ ہو۔ 4۔حکومت کو چاہیے کہ وہ ملازمتوں میں تمام اقلیتوں کو برابری کا موقع دے۔5۔ عالمی انسانی حقوق کے معاہدوں کے مطابق حکومت اپنی ذمے داریاں پوری کریں جس کی ضمانت آئی سی سی پی آر کے تحت دی گئی ہے۔

اس کے علاوہ ایسے قوانین کو وضع کرنا ضروری ہے جو تمام شہریوں کو برابر کے حقوق فراہم کرے ۔6۔حکومت کو اقلیتوں کے کسی بھی طبقے کے خلاف نفرت اور اشتعال پھیلانے والے عناصر کے خلاف سخت کارروائی کرنی چاہیے۔7۔حکومت کو چاہیے کہ وہ تعلیمی اداروں میں نفرت اور انتہاپسندی کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے موثر کارروائی کرے۔

8۔وفاقی اور صوبائی وزرائے تعلیم ایسے اقدامات کریں جس کے تحت تعلیمی اداروں اور ہاسٹلز میں اقلیتی طلبہ کے ساتھ امتیازی سلوک نہ ہو۔ 9۔تعلیمی شعبے میں جامع اصلاحات کی جائیں اور رواداری کو نصاب کا حصہ بنایا جائے۔ نوجوان نسل کو تعلیم دے کر ایک متنوع معاشرہ تشکیل دیا جا سکتا ہے۔10۔حکومت کو چاہیے کہ کسی اقلیتی کمیونٹی پر یا اس کمیونٹی کے کسی فرد پر حملہ کرنے والوں اور انھیں دھمکیاں دینے والوں کے خلاف بروقت اور غیر جانبدار قانونی کارروائی کرے۔ بروقت انتظامی اور قانونی اقدامات کے ذریعے امن و عامہ کو یقینی بنایا جائے۔

آئین اور قانون پر عملدرآمدریاست اور حکومت کی بنیادی ذمے داری ہے۔ اقلیتوں کے جو حقوق موجود ہیں وہ انھیں ملنے چاہئیں اور جہاں اقلیتوں کے تحفظات ہیں ان کا کھلے دل سے جائزہ لے کر نئے قوانین بنانے کی ضرورت ہے۔پاکستان کو آگے بڑھنے کے لیے ایسا کرنا لازم ہو گیا ہے۔

بشکریہ روزنامہ ایکسپریس