اس دوران لاکھوں لوگ کبھی اقوام متحدہ کے دفتر تو کبھی چرار شریف پہنچ جاتے تھے اور اسی کے ساتھ عسکری تحریک بھی شروع ہوگئی۔عبداللہ کا کہنا ہے کہ جب مرکزی حکومت90 فیصدگرانٹ دینے پر آمادہ ہوئی، تو اس وقت اس کو لینے والا کوئی نہیں تھا۔ جب ایک منتخب عوامی حکومت معاشی اصلاحات کا بیڑا اٹھا کر سخت فیصلے کرتی ہے، تو عوام میں زیادہ بے چینی نہیں ہوتی ہے۔ اس کی واضح مثال 2016میں بھارت کے وزیر اعظم نریندر مودی کا نوٹ بندی کا فیصلہ تھا، جس سے ملک بھر میں ایک ہیجان بھرپا ہوا۔ عوام کو اس قدم سے جنتی تکلیف ہوئی، اس کو بیان کرنا ہی مشکل ہے مگر چونکہ فیصلہ ایک منتخب عوامی حکومت کا تھا، اس لئے اس کو بسر و چشم قبول کیا گیا۔ وادی کشمیر کی نسبتا یکسان نسلی آبادی کے برعکس آزاد کشمیر خاصا متنوع اور یگانگت سے بھر پو خطہ ہے۔ مگر اس کی اپنی خامیا ں ہیں کہ وہ بندھنوں اور برادریوں میں گرفتار ہوکر سید، مغل، گوجر، سدھن، راجپوت اور چوہان ہوجاتے ہیں اور اسی کے مطابق ووٹنگ بھی کرتے ہیںمگر چونکہ ان کا صدیوں سے پنجاب اور دیگر خطوں کے ساتھ میل ملاپ رہا ہے ، اسلئے کشمیریوں کے برعکس اپنی انفرادی اور قومی حمیت کو برقرار رکھنے کے معاملے میں پختہ اور سیاسی سوج بوجھ رکھتے ہیں۔جموں و کشمیر میں کشمیری یا کاشئر ایک نمایاں یا غالب اکثریت کی زبان ہے۔ جموں و کشمیر کی 52.13 فیصد آبادی اور وادی کشمیر کی 86.55 فیصد آبادی کاشئر یا کشمیر ی زبان بولتے ہیں۔ آزاد کشمیر کی غالب اکثریت پہاڑی زبان بولنے والوں کی ہے، جو پوٹھوہاری اور ہندکو سے ملتی جلتی ہے۔ اس خطہ میں بس 5فیصد لوگ ہی کشمیری زبان بولتے ہیں۔ آزاد کشمیر کے بار ے میں بھارت میں تاثر ہے کہ یہ خط افلاس اور کسمپرسی کا شکار ہے، اور اس کے مقابلے بھارت کی بدولت وادی کشمیر ، سرینگر اور اس کے اطراف خاصے ترقی یافتہ ہیں۔ وہ یہ بھول جاتے ہیں کہ وادی کشمیر کی پانچ ہزار سالہ پرانی تاریخ ہے، سرینگر، وارانسی اور دمشق کی طرح دنیا کی قدیم ترین شہروں میں ایک ہے۔کشمیری زبان ہی تامل، تیلگو، کنڑ ، اوڑیہ اور سنسکرت کی طرح کلاسک زبان کا درجہ رکھتی ہے۔ گو کہ چار سو سالہ استبداد نے اس کے باشندوں کی کمر توڑ کر رکھی ہے، مگر فی الوقت جموں و کشمیر میں خواندگی کی شرح 77.3فیصد ہے۔پرا ئمری اسکولوں میں اندراج کی شرح 90 فیصد ہے۔گریجوایٹ آبادی شہری علاقوں میں 12 فیصداور دیہی علاقوں میں 8.4 فیصد ہے ۔آزاد کشمیر میں خواندگی کی شرح76.60فیصد اور پرائمری اسکولوں میں اندراج کی شرح 98فیصد ہے، مگر گریجوایٹ آبادی صرف 2.2فیصد ہے۔ 80کی دہائی میں جب اسکول یا کالج سے ٹریکنگ یا پکنک کیلئے اوڑی، کیرن یا کرنا کی طرف جانا ہوتا تھا، تو کئی کلومیٹر پیدل چلنے کے بعد دریائے کشن گنگا یا نیلم کے کنارے پہنچ جاتے تھے، تو دوسری طرف بس نظر آتی تھی۔ کیرن تک تو بس پیدل راستہ ہی ہوتا تھا۔ ٹیٹوال اور ٹنگہ ڈار سے دوسری طرف رنگا رنگ پاکستانی ٹرک نظر آتے تھے۔ رات کو دوسری طرف بجلی کے قمقمے جگمگاتے نظر آتے تھے۔ ہماری طرف تو سوپورمیں ایسی لوڈ شیڈنگ ہوتی تھی، کہ ہم نے مٹی کے تیل کے لالٹین یا موم بتیوں کے ہی دم پر پڑھائی کی ہے۔ کیرن، کرناہ و اوڑی میں تو بجلی کے کنکشن ہی نہیں تھے۔ اس لئے جب بزرگ پار علاقوں کی کہانیاں سناتے تھے، تولگتا تھا کہ جیسے یہ کوئی رومانوی دنیا ہے۔ پھر پتہ نہیں کہ اس خطے کو کس کی نظر لگ گئی۔ آزاد کشمیر میں مخدوش حالات اور ہلاکتوں کے بعد سے دہلی سے کئی ٹی وی اینکرز اور دیگر احباب مسیج کررہے ہیں کہ اب کشمیر ی پہلی بار استبداد کا حقیقی چہرہ دیکھ رہے ہیں۔جب میں نے یاد دلایا کہ کشمیر میں تو گاو کدل، حول، سوپور، ہندواڑہ اور دیگر ان گنت مقامات پر تو قتل عام کئے گئے یا جس طرح 2010اور2016کی عوامی بغاوت سے نپٹا گیا، اس کی تو کوئی مماثلت نہیں ہوسکتی ہے۔ تو ان کا کہنا تھا کہ اس طرف بھی 1989اور اس کے بعد بھی کبھی لال چوک چلو، تو کبھی چرار شریف تو کبھی کہیں چلو کے مارچ کی اجازت دی جاتی تھی، جس میں لاکھوں لوگ شرکت کرتے تھے۔ مگر جب پانی سر سے اوپر ہوجاتا ہے، تو استبداد اپنی طاقت دکھاتا ہے، جس کے سامنے خون ارزاں ہو جاتا ہے اور خس و خاشاک کی طرح بہتا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ان ہی حالات کی طرف مظفر آباد گامزن ہے، خدا خیر کرے۔ امید ہے کہ احتجاج کرنے والے اورحکومت کو ادراک ہوجائے کہ اس خطے کا عدم استحکام کسی کے مفاد میں نہیں ہے۔ آزاد کشمیر کے چھوٹے سے انتظامی علاقے کو عوام کو اختیار دینے، نیز سیاسی اور معاشی اصلاحات کے نفاذ کیلئے بطور تجربہ گاہ استعمال کیا جاسکتا تھا۔ پارلیمانی نظام میں جو خامیاں ہیں، ان کو دور کرکے ایک نیا سسٹم اس خطہ میں وضع کیا جاسکتا تھا۔ یہ معلوم ہونا چاہئے کہ دریائے سندھ اور اسکی معاون ندیوں کو پانی جن گلیشیریوں سے ملتا ہے، ان میں 3,136کشمیر کے پہاڑوں میں آباد ہیں۔ان علاقوں کا فارسٹ کور پورے خطے کی فوڈ اسکیورٹی کا ضامن ہے۔ اس لئے اگر ان وسائل کو تحفظ دینے والے، اپنی معاشی صورت حال کے حوالے سے کوئی مطالبہ کرتے ہیں، اس پر ہمدردی کے ساتھ غور کرنے کی ضرور ت ہے۔ حال ہی میں اقوام متحدہ کی پانی کے معاملوں کی ماہر فن لینڈ کی انوککا لیپونین نے ایک کانفرنس کے دوران مجھے بتایا ، کہ دنیا میں اب ایک ضابطہ طے ہو چکا ہے کہ کہ دریاؤں کے اوپری علاقو ں میں رہنے والوں کو انرجی اسکیورٹی مہیاکرائی جائے، جس کے بدلے وہ گلیشیر، جنگلوں وغیرہ کی حفاظت کرکے نیچے رہنے والی آبادی کیلئے وافر مقدار میں پانی مہیا کرواکے فوڈ اسکیورٹی کو یقینی بنائیں۔ یہ ایک ہم زیستی یعنی سیم بائیٹک رشتہ ہے، جس سے دونوں کے زندہ و پائیدہ رہنے کے صورت پیدا سکتی ہے۔ پاکستان کے نشیبی علاقوں میں رہنے والے کسان اور دیگر افراد جو دریائے سندھ اور اسکی معاون ندیوں جہلم اور چناب سے فائدہ اٹھاتے ہیں، کو اس کے منبعوں کی دیکھ ریکھ کا بھی بار اٹھانا چاہئے اور اس کیلئے ان علاقوں میں رہنے والی آبادی کی ضروریات کاخیال رکھنے کی ضرورت ہے۔ وقتا فوقتا یہ آبادی ، جب وہ ایک حد سے کراس کر جائے، کونیچے لاکران کی باز آبادکاری کی ضرورت ہے تاکہ پہاڑوں میں بڑھتی آبادی اور آمد و رفت کی وجہ سے گلیشیئر وقت سے قبل ہی پگل نہ جائیں، جس کے خطرناک نتائج نکل سکتے ہیں۔ پچھلے سال دوبئی میں اقوام متحدہ کی عالمی ماحولیاتی کانفرنس نے ایک لمبی بحث کے بعد Loss and Damage Fundکو منظوری دی۔ اس میں پہاڑوں میں رہنے والوں کی زندگی اور ان کی انرجی ضروریات مہیا کرنے کا بھی ذکر ہے۔ اس لئے حکومتوں کو چاہئے کہ اس پر باضابطہ ایک اسٹڈی کرکے اس فنڈ کو حاصل کرکے ماحولیاتی تبدیلی سے نمٹنے اور پہاڑوں میں رہنے والوں کو مراعات دینے کیلئے استعمال کرے۔
بشکریہ روزنامہ 92 نیوز