آخری امید؟ : تحریر محمود شام


قوم کو مزید مقروض کرنے کیلئے حکومت اور ریاست دن رات مصروف ہیں۔

پاکستان کی راجدھانی، رجواڑے، گلی کوچے چیخ چیخ کر کہہ رہے ہیں کہ ہم محفوظ نہیں ہیں۔ چنگاریاں برسوں سے سلگ رہی تھیں وہ اب کہیں کہیں شعلے بن کر بھڑکنے لگی ہیں۔ کئی دہائیوں سے ہلکی ہلکی آنچ محسوس کرنے والے ہم جیسے اخباری بوڑھے اس تپش کا احساس دلاتے رہے ہیں۔ مگر ہماری دو پارٹیاں اپنی نورا کشتی میں ایسی مصروف رہی ہیں کہ اب 38 سال بعد وہ عملاً ثابت کررہی ہیں کہ حکمرانی کیلئے وہ قطعاً نااہل رہی ہیں۔ کہیں کسی شعبے میں وہ کوئی مستحکم نظام قائم نہیں کرپائی ہیں۔ ہم ایک ہزاریے سے دوسرے ہزاریے میں داخل ہوگئے مگر ہم نے کار جہاں 80کی دہائی میں ہی چھوڑا ہوا ہے۔ کتنے شعبے ہیں کتنے علاقے ہیں۔ جو 18 ویں صدی سے آگے نہیں بڑھے ہیں۔ حکمران طبقوں کے ذہن پر اب بھی 17 ویں صدی غالب ہے۔ اب 2024 میں ہم ایسے موڑ پر ہیں جب حکومت کے ساتھ ریاست کے ادارے بھی اکیسویں صدی سے مطابقت نہیں رکھتے ہیں۔

سب سے زیادہ تشویشناک یہ پہلو ہے کہ آزاد جموں و کشمیر جیسے پُر امن ۔ کشمیر کی تحریک آزادی سے اپنی وفا ہمیشہ استوار رکھنے والے بھی شدید احتجاج پر مجبور ہوگئے ہیں۔ ان پر ہم برسوں سے اسلام آباد پنڈی کی پسندیدہ حکومتیں مسلط کرتے آئے ہیں وہ ہمیشہ سر تسلیم خم کرتے رہے ہیں۔ برسوں سے روکا ہوا غصہ۔ گلیوں تک محدود برہمی اب شعلۂ جوالہ بن کر جغرافیے کو شرمندہ کرگئی ہے۔ تاریخ دوڑتی بھاگتی پھر رہی ہے۔ کوئی سننے والا نہیں ہے۔ بتایا گیا ہے کہ حالیہ مطالبے تو اگست 2023 سے کیے جارہے تھے۔ ہمیں حکمران بدلنے اپنے من پسند افراد کو عہدے دینے میں دلچسپی ہوتی ہے۔ تجوریوں کے منہ کھول دیے جاتے ہیں۔ ہمیں علاقے کی اکثریت کے دکھوں سے کوئی واسطہ ہوتا ہے نہ حقیقی مسائل سے۔ ادھر بلوچستان، افغانستان سرحد پر تاجروں کا احتجاج کئی دنوں سے جاری ہے۔ مذاکرات سنجیدگی سے ہو نہیں رہے۔ حکمرانی اتنی کمزور ہے کہ ہمارا مستقبل بھی اس سے متاثر ہورہا ہے۔ میٹرک کے امتحانات میں ہم اپنے نوعمروں کو مناسب امتحان گاہیں فراہم نہیں کرسکتے۔ گورنر، وزیرا علیٰ، وزرائے تعلیم، سیکرٹری تعلیم، ڈائریکٹرز کے گھر بھی ایئر کنڈیشنڈ ہیں، دفتر بھی، گاڑیاں بھی۔ انہیں کیا خبر برقی پنکھے کیا ہوتے ہیں۔ وہ بھی جب لوڈ شیڈنگ مسلسل ہو تو صرف خود کشی والوں کے کام آتے ہیں۔ امتحان دینے والوں کیلئے فرشی نشستیں فراہم کی جارہی ہیں۔

76 سال بعد ایک ایٹمی مملکت، زرخیز اراضی، قدرتی وسائل سے مالا مال۔ جفاکش اور ذہین 60 فی صد آبادی والے ملک میں ان حالات کی ذمہ داری تو انہیں خاندانوں اور اداروں پر عائد ہوگی جو کئی دہائیوں سے حکمرانی کررہے ہیں۔ کلیدی عہدوں پر فائز ہیں۔ہمارے وزیر دفاع خواجہ محمد آصف کو 13 مئی 2024 کو علم ہوا کہ 7اکتوبر 1958میں آئین شکنی کا دروازہ جنرل محمد ایوب خان نے کھولا تھا۔ اس لیے کہ اب اپوزیشن لیڈر عمر ایوب اس پہلے چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر کے پوتے ہیں۔جبکہ آئین شکنی کا دروازہ کھولنے والے جنرل ایوب کے بڑے صاحبزادے گوہر ایوب ن لیگ کے سالہا سال لیڈر رہے ۔ وزیر رہے۔ اسپیکر رہے۔ اس وقت ایوب خان کی میت کو قبر سے نکالنے کا خیال خواجہ آصف کو نہیں آیا۔ اس سے ہی ان حکمرانوں کی سنجیدگی کا اندازہ کرلیجئے۔

اب آپ اور ہم ہر روز آئی ایم ایف کو ہی آخری امید سمجھنے پر آمادہ کیے جاتے ہیں۔ باہر سے ڈھونڈ کر لائے گئے بینکار وزیر خزانہ کی ساری مالی صلاحیتیں، ریاضی کی ساری مہارتیں، آئی ایم ایف سے مذاکرات پر صَرف ہورہی ہیں۔ صرف چند ماہ کیلئے ہمیں قرض لینا ہے۔ وہ بھی پہلے سے لیے گئے قرضوں کا سود اتارنے کیلئے۔ ’اسٹینڈ بائی ارینجمنٹ‘( عارضی انتظام) کی اصطلاح سے ہی اندازہ کرلیجئے کہ یہ سب عبوری اہتمام ہے۔ اپنے آپ پر قرضے کا بوجھ بڑھانے کیلئے یہ تگ و دو کوئی مستقل علاج نہیں ہے۔

قرضہ لے کر انجکشن لگوانے والے ہم نشئی اپنے میلوں میل پھیلے ہوئے کھیتوں میں اگنے والی خوشحالی کیلئے اس طرح تردد نہیں کرتے۔ کمالیہ،میرپور خاص،مردان گاڑی سے جانے کی بجائے ہم لاکھوں کروڑوں خرچ کرکے واشنگٹن جاتے رہتے ہیں۔ سعودی عرب جاتے ہیں احرام میں ملبوس دعاؤں کی بجائے قرضہ مانگتے ہیں۔ آئی ایم ایف سے قرضہ لینے کیلئے ہم اس کی شرائط پر ڈسپلن میں آتے ہیں۔ ٹیکس کا دائرہ بڑھاتے ہیں۔مملکت کی فلاح کا ویسے ہی تقاضا ہے کہ ہم غیر ضروری اخراجات، غیر ترقیاتی خرچے کم کریں۔ جس قوم کے 40 فیصد سے زیادہ ہم وطن غربت کی لکیر سے نیچے بڑی ہی مشکل سے زندگی گزارتے ہوں کیا وہاں طرز زندگی ایسا آسائشی ہونا چاہئے کہ کروڑوں روپے کی لاکھوں گاڑیاں ٹوٹی پھوٹی سڑکوں پر رواں دواں رہیں۔ جہاں ہر شام کروڑوں تخت بچھتے ہوں۔ اربوں روپے کا کھانا کھایا جاتا ہو۔ کیا وہاں اربوں روپے کی گندم درآمد کی جانی چاہئے۔

آئی ایم ایف اور یہ ادارے سامراج کی غلامی کے نئے طوق ہیں۔ عالمی بینک اور دوسرے مالیاتی انتظامات بیسویں صدی میں مجبوراً آزاد کیے گئے ممالک کی لگام اپنے ہاتھ میں رکھنےکیلئے قائم کیے گئے ہیں۔ معاشی ماہرین بھی زیادہ تر ان اداروں کے گماشتے ہیں۔ ان عالمی قزاقوں نے عالمگیریت کے نام پر قوموں سے خود مختاری چھین لی ہے۔ انہیں اس خبط میں مبتلا کردیا ہے کہ اپنے معدنی وسائل کی دریافت بہت مہنگی ہے۔ اپنا تیل اپنی گیس ڈھونڈنے کا کام بہت گراں گزرتا ہے۔ اس کے ماہرین بھی باہر سے آتے ہیں۔ 76 سال سے ہم نے اپنے ان نوجوانوں کی قدر نہیں کی۔ جو ارضیات،معدنیات میں دلچسپی رکھتے تھے۔ وہ باہر جانے پر مجبور کردیے گئے۔

اب بہرحال یہ بہت فیصلہ کن موڑ ہے۔ آزاد کشمیر کے بہت اعتدال پسند، متانت شعار ہم وطن اگر مشتعل اور جارح ہورہے ہیں تو اندازہ کرلیجئے کہ جو غصہ واہگہ سے گوادر تک پایا جاتا ہے۔ وہ کیا رنگ اختیار کرسکتا ہے۔ ریاست کے سب اداروں کو، ان کے گماشتوں کو یہ باور کرلینا چاہئے کہ پاکستان کے استحکام۔ پہلے معیشت کی معمول پر بحالی اور بتدریج خوشحالی کے دروازے ہمارے دریاؤں، صحراؤں، کھیتوں، پہاڑوں، سمندر کی تہوں میں ہی کھلیں گے۔ واشنگٹن سے کشکول عارضی طور پر بھرے گا۔ لیکن 25 کروڑ اور ہماری آنے والی نسلیں گروی رکھ دی جائیں گی۔ کوئی یونیورسٹی کوئی میڈیا گروپ اور خاص طور پر مقبول ترین جماعت پی ٹی آئی خود انحصاری کا کوئی دس پندرہ سال کا پروگرام لے کر آئے۔ اس یقین کے ساتھ کہ ہم اپنے وسائل سے کفایت شعاری سے قرضے بھی اتار سکتے ہیں اور ہر پاکستانی کو خوشحال کرسکتے ہیں۔ خیال رہے کہ مقروض قومیں کبھی خود مختار نہیں رہتی ہیں۔

بشکریہ روزنامہ جنگ