آزاد کشمیر میں ہونے والے پرتشدد مظاہروں نے ایک مرتبہ پھر اس حقیقت کو واضع کردیا ہے کہ پاکستان میں جتھہ سیاست کی سرکوبی کرنا لازمی ہوچکا ہے ۔ اگر لوگ یہ سمجھنے لگ جائیں کہ دس پندہ ہزار کا ہجوم اکٹھا کر کے ریاست اور حکومت کو نیچے لگایا سکتا ہے تو پھر ریاست کا اللہ ہی حافظ سمجھ لیں۔
آزاد کشمیر کے پر تشدد مظاہروں میں جس طرح پولیس اہلکار کو پہاڑ سے نیچے پھینکا گیا، وہ نا قابل معافی جرم ہے۔ میں آج بھی سمجھتا ہوں کہ نو مئی نے اس ملک میں پر تشدد واقعات کے لیے حوصلہ افزائی کی ہے۔
ایک سوچ پیدا ہوئی ہے کہ اگر دس پندرہ ہزار لوگ ساتھ ہوں تو آپ کچھ بھی کر سکتے ہیں، کوئی آپ کو سزا نہیں دے سکتا ہے۔ تشدد کی سیاست سے قانون کو شکست دے سکتے ہیں۔ نو مئی کے ملزمان کوضمانتیں ملنا، انھیں سزا نہ دینے کا ایک نتیجہ آزاد کشمیر میں ہمارے سامنے آگیا ہے۔ میں ان مظاہروں کو آزاد کشمیر کا نو مئی سمجھتا ہوں۔ شرپسند ذہنیت کو یقین ہو گیا ہے کہ قانون ان کا کچھ نہیں بگاڑ سکتا ۔
یہاں یہ بات بھی واضح کردی جائے کہ پرتشد مظاہروں کی آرکیٹیکٹ عوامی ایکشن کمیٹی کی 25 رکنی مذاکراتی کمیٹی کا ہر رکن اپنے ذاتی مفادات کی بنیاد پر من پسند نتائج چاہتا ہے، مقامی سیاست دان اپنے اپنے سیاسی مفادات حاصل کرنے کے لیے کوشاں ہیں۔ ہم نے سانحہ نو مئی کے ملزمان کے ساتھ بھی اس قسم کی ڈھیل کا مظاہرہ کیا۔ اب آزاد کشمیر میں نو مئی برپاکرنے والوں کے ساتھ بھی یہی کر رہے ہیں۔
میں تو کہتا ہوں ، یہ مظاہرین رب کا شکر ادا کریں کہ وہ آزاد کشمیر کے شہری ہیں، مقبوضہ کشمیر میں نہیں رہتے۔اگر مقبوضہ کشمیر میں ہجوم اکھٹا ہوکر جلاؤ گھیراؤ کرتا، پولیس اہلکار کو جان سے مار دیتا تو پھر کیا ہوتا اس کے بارے میں کچھ کہنے کی ضرورت نہیں ہے۔یہ پاکستان ہے جہاں سبسڈی بھی دی جاتی ہے اور گالیاں نکالنے اور پولیس والوں کو جان سے مارنے کی بھی اجازت ہے۔ ایسی آزادی دنیا میں کہیں اور نہیں مل سکتی ہے۔
مظاہرین کے کئی مطالبات تو بالکل ہی ناجائز ہیں۔ کچھ پورے کرنے کے لیے حکومت نے سر جھکا دیا ہے۔ بجلی کو دیکھیں! بجلی پورے پاکستان میں مہنگی ہے۔ کیا اس کا مطلب ہے کہ نظام حکومت مفلوج کر دیں، ریاست پر حملہ کر دیں۔ آزاد کشمیر میں تو پاکستان کے عوام کی نسبت پہلے ہی سستی بجلی ملتی ہے۔
اگر ریاست ہجوم سے ڈر کر یا علاقے کی حساسیت کی مجبوری کی وجہ سے گھبرا کرکے ریلیف دینا شروع کرے گی تو پھر پورے ملک میں لوگ ڈنڈے کے زور پر ہی ریلیف مانگنا شرو ع کر دیں گے۔ ایسا لگتا ہے کہ ہر کسی کو اسلام آباد پر چڑھائی کرنے کی عادت پڑ گئی ہے ۔عمران خان کئی بار اسلام آباد پر چڑھائی کرچکے ہیں۔مولانا فضل الرحمن بھی ایسا کرچکے ہیں اور پھر یہی کرنے کا اعلانات کررہے ہیں۔
وزیر اعظم پاکستان نے آزاد کشمیر کے لیے 23 ارب روپے کے پیکیج کا اعلان کر دیا ہے۔ آٹے پر سالانہ 14 ارب روپے کی سبسڈی پہلے ہی دی جا رہی ہے۔ حکومت پاکستان آزادکشمیر کو سستی بجلی دینے کے لیے تقسیم کار کمپنیوں کو سالانہ 55 ارب روپے اپنے بجٹ سے دیتی ہے۔لہذا اچھی خاصی سبسڈی تو پہلے سے ہی مل رہی ہے۔
دوسرا مطالبہ یہ ہے کہ بتایا جاتا ہے کہ منگلا ڈیم بنتے وقت حکومت پاکستان یا آزاد کشمیر نے تحریری طور پر معاہدہ کیا تھا کہ اس خطے کو مفت بجلی ملے گی۔ سوشل میڈیا پر یہ معاہدہ باقاعدہ شیئر کیا جا رہا ہے مگر بغور دیکھا جائے تو اس میں ایسا کچھ نہیں لکھا ہے لہذا اس مطالبے کی بنیاد جھوٹ پر ہے۔لوگوں کو گمراہ کیاجا رہا ہے۔ فیک نیوز اور پراپگینڈا اسی کو کہتے ہیں۔
اپنے چارٹر آف ڈیمانڈ کے کچھ وقت بعد عوامی ایکشن کمیٹی نے مطالبہ بدل دیا۔ شاید انھیں سمجھ آگئی کہ مطالبہ مضحکہ خیز ہے۔ چنانچہ اب پروڈکشن کاسٹ پر بجلی مہیا کرنے کا مطالبہ سامنے آگیا ہے۔ مطلب یہ کہ جس کاسٹ پر منگلا ڈیم میں بجلی بن رہی ہے، اسی قیمت پر آزاد کشمیر کے صارفین کو مہیا کی جائے۔ یہ مطالبہ بظاہر درست لگتا ہے لیکن تصویر کا دوسرا رخ یہ آشکار کرتا ہے کہ بجلی کو منگلہ سے راولاکوٹ تک پہنچانے کے لیے ٹرانسمیشن لائن کاسٹ بھی ہوتی ہے۔
بجلی کی ترسیل کے لیے تاریں بچھائی گئی ہیں، کھمبے لگائے گئے ہیں، ٹرانسفارمرز اور گرڈسٹیشن نصب کیے گئے ہیں، ان تمام چیزوں کی مینٹیننس اور مرمت مسلسل جاری رہتی ہے، محکمہ برقیات کا تقریبا 15,000 ملازمین اسی کام لیے رکھے ہوئے ہیں، ان ملازمین کی تنخواہیں، مراعات اور پینش وغیرہ کے اخراجات ہیں۔ دنیا کے کس ملک میں کوئی بھی حکومت پروڈکشن کاسٹ پر بجلی دیتی ہے۔ وسائل ریاست کی ملکیت ہوتے ہیں۔
تیسرا مطالبہ آزادکشمیر بینک کو شیڈول بینک بنانے کا ہے،اس کا بھی ایک پراسیس ہے اور minimum capital requirement کی مد میں 10 ارب روپے آزادکشمیر بینک کو اسٹیٹ بینک کے پاس رکھوانے ہوں گے اور اس کی مزید کئی شرائط ہیں جو ہر بینک کو شیڈول بینک کا درجہ حاصل کرنے کے لیے پوری کرنی پڑتی ہیں۔
آزادکشمیر بینک ابھی وہ تمام شرایط پوری کرنے سے میلوں دور ہے اور پھر آزادکشمیر حکومت کے لیے 10 ارب روپے مہیا کرنا ناممکن ہے۔ یاد رکھیے یہ پیسے ڈیپازٹس سے نہیں بلکہ کیپیٹل یا ایکوئٹی سے پورے کیے جانے چاہییں۔ ڈیپازٹس چاہے 50 ارب بھی ہوں، ان کے ذریعے شیڈول بینک کا درجہ نہیں حاصل کیا جا سکتا۔ لہذا یہ مطالبہ پورا کرنا حکومت آزادکشمیر یا آزادکشمیر بینک کی استطاعت سے باہر ہے۔ کوئی مالدار قوم پرست اگر 10 ارب روپے بینک کے کیپیٹل میں ڈال کر بینک کے شئیرز خرید لے تو تب یہ کام ممکن نظر آتا ہے۔چوتھا مطالبہ ٹیلی کام اور موبائل سروس کی بہتری کا ہے جو جائز سمجھا جاتا ہے۔
پانچواں مطالبہ سب سے دلچسپ اور مضحکہ خیز ہے جس میں کہا گیا کہ آزادکشمیر میں نہ انکم ٹیکس لگایا جائے، نہ پراپرٹی ٹیکس اور نہ جی ایس ٹی۔ یہاں یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ حکومت ایک نظام چلا رہی ہے جس میں 130,000 سرکاری ملازمین ہیں جنھیں تنخواہیں، مراعات اور ریٹائرڈ ملازمیں کو پینش دی جاتی ہے۔
غیر ترقیاتی بجٹ کا 30 فیصد صرف محکمہ تعلیم کے ملازمین کی تنخواہوں میں جاتا ہے جب کہ 10,10 فیصد برقیات اور صحت کے ملازمین کی تنخواہوں میں جاتا ہے۔ کل بجٹ 232 ارب روپے کا اس سال پیش ہوا ہے۔ جب ٹیکس نہیں لیا جائے گا تو حکومت کی آمدنی کا ذریعہ کیا ہو گا؟ کیا آزاد کشمیر کے عوام چاہتے ہیں کہ وہ ہمیشہ پاکستان کی مرکزی حکومت کے مرہون منت رہیں۔ کبھی بھی اپنے پاں پر نہ کھڑے ہوں۔
آزاد کشمیر کی حکومت کی اپنی کوئی آمدنی نہ ہو۔ پورے پاکستان کے عوام کے ٹیکسز سے آزاد کشمیر کے سرکاری ملازمین کی تنخواہیں، مراعات ، پنشن دی جائے، سڑکیں، دفاتر اور دیگر انفرااسٹرکچر تیار کردیا جائے ، آزاد کشمیر میں ہی نہیں پورے پاکستان میں کاروبار کریں، جائیداد خریدیں، سرکاری ملازمتیں حاصل کریں لیکن بدلے میں پاکستان کو کچھ ادا نہ کیا جائے ۔ دنیا میں کہاں ایسا ہوتا ہے۔
بشکریہ روزنامہ ایکسپریس